محمد علی جناح کا کردار ادا کرنے والے شری ولاب ویاس


بالی وُڈ کے نام ور کریکٹر ایکٹر شری ولاب ویاس کا جنم 1958 میں جیسلمیر، راجھستان میں ہوا تھا۔ انھوں نے دہلی نیشنل ڈراما اسکول سے ایکٹینگ کی تعلیم حاصل کی۔ شروعات میں انھوں نے تھیٹر پر اداکاری کی، لیکن 1984 میں انھیں ٹیلی فلم ’’مجھے جواب دو‘‘ میں کام کرنے کا موقع ملا اور اگلے سال 1985 میں انھوں نے مشہور تھیٹر پلے ’’وراثت‘‘ میں بھی کام کیا؛ لیکن کئی سال انتظار اور محنت کے بعد انھیں بالی وُڈ تک پہنچنے میں کام یابی حاصل ہوئی اور 1993 میں انھوں نے شارٹ اسٹوری فلم ’’سنڈے‘‘ میں کام کر کے اپنے فلمی کیریئر کا آغاز کیا۔
1993 میں شری ولاب ویاس کو دوسری فلم “مایا میم صاب” میں کام کرنے کا موقع ملا۔ یہ مشہور فلم ساز کتن مہتا کی فلم تھی، جس میں ان کی بیوی دیپا ساہی نے مایا کا کردار ادا کیا تھا۔ اور معاون اداکاروں میں فاروق شیخ، راج ببر اور شاہ رُخ خان تھے۔ یہ فلم فرانسیسی ناول نگار گستاف فلابیئر کے مشہور ناول ’مادام بواری‘ پر بنی تھی اور اس فلم میں شری ولاب ویاس کا کردار ایک تفتیشی افسر کا تھا، جو پاریش راول کے ساتھ مل کر مایا کی خود کشی کی وجوہ اور محرکات جاننے کی کوشش کرتا ہے۔
سال 1993 ہی میں شری ولاب ویاس کو مشہور فلم “سردار” میں بانی پاکستان محمد علی جناح کا کردار دیا گیا، جو انھوں نے بخوبی نباہیا۔ فلم سردار کی کام یابی کے بعد شری ولاب ویاس کو مخلتف فلم سازوں نے کام دینا شروع کیا۔ یوں تو شری ولاب ویاس نے 53 فلموں میں کام کیا، لیکن ان کی چند مشہور فلموں میں ’’نا جائز‘‘ (1995) اور ’’ڈارلنگ یہ ہے انڈیا‘‘ (1995)، ’’چاہت‘‘ (1996)، ’’سرداری بیگم‘‘ (1996)، ’’سرفروش‘‘ (1999)، ’’شول‘‘ (1999)، ’’لگان‘‘ (2001)، ’’چاندنی بار‘‘ (2001)، ’’ابھے‘‘ (2001) ’’آن‘‘ (2004)، ’’بنٹی اور ببلی‘‘ (2005)، ’’شوٹ آوٹ لوکنڈ والا‘‘ (2007)، ’’ایک وِوَاہ ایسا بھی‘‘ (2008)، ’’دل بولے ہڑیپا‘‘ (2009) اور ’’شاگرد‘‘ (2011) جیسی فلمیں شامل ہیں۔
فلموں میں کام کرنے کے ساتھ ساتھ شری ولاب ویاس ٹیلی ویژن پر بھی سرگرم رہے۔ انھوں نے کئی مشہور ٹی وی سیریلز میں کام کیا، جس میں سب سے زیادہ شہرت انھیں سی ائی ڈی سے ملی۔ شری ولاب ویاس نے 2001 سے لے کر کے 2007 تک، ’’سی آئی ڈی‘‘ میں کام کیا۔ اس دوران انھوں نے ’’سی ائی ڈی‘‘ میں چند مشہور کردار نبھائے، جن میں ڈاکٹر ساحل، شمشیر، جیون داس، ٹراؤٹ، لالا چند، رِٹائرڈ جج راج راو، اور بلدیو ناقابل فراموش چند ایک کردار ہیں۔
اپنے فلمی کیریئر میں شری ولاب ویاس نے تمام بڑے اداکاروں کے ساتھ کام کیا۔ شاہ رُخ کے ساتھ وہ فلم “مایا میم صاب” “او ڈارلنگ یہ ہے انڈیا” اور “چاہت” میں نظر آئے۔ منوج باچبائی کے ساتھ وہ فلم “شول” میں ڈی ایس پی کے کردار میں جب کہ عامر خان کے ساتھ  فلم “سرفروش” میں پاکستان کے سابق آرمی چیف مرزا اسلم بیگ کے کردار میں، جب کہ فلم “لگان” میں ایشور کاکا وکٹ کیپر کے کردار میں نظر آئے، جو عامر خان کو گوروں سے جیتنے کے لیے اکساتے رہے۔ شری ولاب ویاس نے نئے دور کے اداکاروں میں شاہد کپور کے ساتھ فلم “ایک وِواہ ایسا بھی” میں بھی نظر آئے، اس فلم میں انھوں نے ڈاکٹر پرابھاٹ کا اہم کردار نبھایا تھا۔
شری ولاب ویاس ایک سنجیدہ اداکار تھے؛ وہ کردار کے مطابق چہرے کے تاثرات سے فلم بینوں کو متاثر کرتے تھے۔ شری ولاب ویاس کو ہائی بلڈ پریشر کی شکایت تھی اور وہ 13 اکتوبر 2008 میں ایک بھوج پوری فلم کی عکس بندی کے لیے گجرات میں تھے، جہاں ہوٹل کے باتھ روم میں انھیں بلڈ پریشر ہائی ہونے کی وجہ سے فالج کا اٹیک ہوا اور وہ باتھ روم میں گر پڑے۔ انھیں سر پر شدید چوٹیں آئیں، جس کی وجہ سے وہ کوما میں چلے گئے۔ ان کا آپریشن کیا گیا۔ وہ کوما سے تو باہر آ گئے تھے، لیکن عمر بھر کے لیے بستر کے ہو کے رہ گئے۔
بعد میں انھیں لقوہ بھی ہوگیا تھا، جس کی وجہ سے ان کا چہرہ مڑا سا رہتا تھا، اور ٹھیک سے بول نہیں پاتے تھے۔ 2008 سے لے کر جنوری 2018 تک، عامر خان ہی ان کی مدد کرتے رہے۔ اس کے علاوہ عامر خان کے بھانجے عمران خان اور فلم ’’شول‘‘ کے ساتھی اداکار منوج باجپائی اور اداکار عرفان خان شری ولاب ویاس کی مدد کرتے رہے، لیکن ان کے علاوہ فلم انڈسٹری سے کسی نے ان کی مدد نہیں کی۔ سینما اینڈ ٹی وی آرٹسٹ ایسوسی ایشن فاونڈیشن کے چیئرمین نے بھی ان کی کوئی مدد نہیں کی، جسے 1992 میں دلیپ کمار، سنیل دت اور متھن چکرورتی نے غریب فن کاروں کی مدد کے لیے قائم کیا تھا۔
فلم ’’لگان میں؛ عامر خان کے ساتھ
شری ولاب ویاس کو علاج کے لیے جیسلمیر سے جے پور شفٹ کیا گیا تھا۔ شری ولاب ویاس کو مائع غذا دی جاتی تھی، جس پر وہ زندہ تھے۔ عامر خان کی مدد سے شری ولاب ویاس کی فیملی جے پور میں تین بیڈ روم کے ایک مکان میں رہ رہی تھی، کیوں کہ ان کی فیملی ان کے علاج کے سلسلے میں جیسلمیر سے جے پور منتقل ہوئی تھی۔ عامر خان ہر مہینے تیس ہزار روپے گھر خرچ کے لیے شری ولاب ویاس کی بیوی شوبھا ویاس کے اکاؤنٹ میں جمع کراتے تھے، اس کے علاوہ شری ولاب ویاس کی دو بچیوں کی اسکول فیس اور ان کے علاج خرچ کے پیسے الگ عامر خان خود اپنی جیب سے ادا کیا کرتے تھے۔
عامر خان کی ’’پی کے‘‘ فلم کی عکس بندی کے دوران شری ولاب ویاس کو دیکھنے جے پور گئے تھے۔ اور فون پر ان کی بیوی سے مسلسل ان کی خیریت دریافت کیا کرتے تھے۔ لیکن دن بدن ان کی صحت گرتی چلی جا رہی تھی۔ آخر 7 جنوری 2018 کو آٹھ سال طویل علالت کے بعد انھیں 60 سال کی عمر میں دُنیا سے جانا پڑا۔
شری ولاب ویاس کوئی اتنا بڑا اداکار نہیں مانا گیا تھا، جس کے لیے پورا بالی وُڈ سوگ وار ہو جاتا۔ ان کی آخری رسومات میں کوئی بڑا اداکار بھی نظر نہیں آیا۔ چند مہینے پہلے جے پور ہی سے تعلق رکھنے والے بالی وُڈ کے خوب صورت اداکار اندر کمار کا جب جوانی میں انتقال ہوا، تو ان کی بیوی پلوی کمار سے تعزیت کرتے، میری بات چیت ہوئی، تو وہ بھی یہی شکوہ کر رہی تھیں کِہ بالی وُڈ سے کسی نے بھی ان کے شوہر کے آخری رسومات میں شرکت نہیں کی اور اتنے دن گزر جانے کے بعد بھی کوئی دعا کرنے یا افسوس کا اظہار کرنے کے لیے نہیں آیا۔
انھوں نے کہا کِہ یہ بے وفا لوگوں کی انڈسٹری ہے، کوئی غم میں نہیں پوچھتا۔ پلوی کمار نے تب یہ بھی کہا تھا کِہ جب چاہنے والے غم میں شامل ہوتے ہیں، تو کوئی فرق نہیں پڑتا، کِہ انڈسٹری کے لوگ کیوں شامل نہیں ہوئے۔ کیوں کہ اگر چاہنے والے ہیں، تو پروڈیوسر ہیں؛ ڈائریکٹر ہیں؛ اداکار ہیں؛ ورنہ ان میں سے کوئی نہیں ہو گا۔
یہاں میں یہ ضروری کہنا چاہوں گا، کِہ امیر اداکار تو بیرون ملک مہنگے اسپتالوں میں علاج کروا سکتے ہیں، لیکن غریب اداکاروں کو سرکاری اسپتال کی لوہے کی چارپائی بھی مشکل سے نصیب ہوتی ہے۔ بالی وُڈ میں بڑے فن کار جو کروڑوں کماتے ہیں، ان کے معاون ادکار محتاجی میں گزر بسر کرتے ہیں، اور جب بیمار پڑتے ہیں، تو بالی وُڈ سے کوئی ایسی تنظیم سامنے نہیں آتی، جو غریب اداکاروں کی سوشل سیکورٹی کے بارے میں سوچے۔
بالی وُڈ کی ہر فلم کروڑوں روپے کما کر دیتی ہے۔ بھارتی حکومت کو چاہیے کہ وہ ایکسٹرا ٹیکس لگا کر غریب اداکاروں کی سوشل سیکورٹی کے بارے میں کوئی ادارہ قائم کرے، جس سے غریب اداکاروں کو بے روزگاری یا رِٹائرمنٹ کے بعد یا بیماری کے علاج کے لیے یا پھر بڑھاپے میں انھیں پینشن ملتی رہے، تا کہ وہ باقی عمر با عزت زندگی گزار سکیں۔

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).