ڈولتی بائک پر ڈولتی بچے کی زندگی اور گھر سے میلوں دور اسکول


کچھ مشکلات انسان کے مقدر میں لکھ دی جا تی ہیں اور انسان ان سے نکلنے کی سعی پیہم میں رہتا ہے۔ اور بہر طور کامیاب بھی ہو جاتا ہے۔ لیکن کچھ مشکلات ایسی بھی ہیں جو انسان کی خود کی پیدا کردہ ہیں، وہ ان سے پریشان تو رہتا ہے لیکن ان سے نکلنے کی کوئی راہ اسے اس لیے سجھا ئی نہیں دیتی کہ اس کی رکاوٹیں خود اس کی پیدا کردہ ہیں۔

زندگی کے ساتھ خوشیاں اور ذہنی سکون لازم و ملزوم ہے، کچھ لوگ ذہنی سکون اور خوشی کو پیسے سے جوڑتے ہیں۔ لیکن پھر اپنی آمدنی کے ساتھ ساتھ خوشی اور سکون کو خود اپنے ہاتھوں، ناقص حکمت عملی وضح کر کے گنوا تے رہتے ہیں۔ اس سے پہلے بھی لکھتی رہی ہوں کہ خواتین کے دماغ میں جانے کہاں سے یہ خناس آیا ہے کہ کیسے بھی کر کے بچہ اگر اچھے اسکول میں پڑھے گا تب ہی وہ آگے چل کر کامیاب زندگی گزارے گا۔ اب گھریلو خواتین کو خود تو اسکولوں کے بارے میں کچھ معلوم ہو تا نہیں، پہلے بچے کی پیدائش کے بعد وہ اپنے رشتے داروں، سہیلیوں اور پڑوسنوں کی فراہم کردہ معلومات حاصل کر کے شوہر کو، گھر سے دور، فلاں ایک اچھے اور کم فیس والے اسکول میں ایڈمیشن کے لیے قائل کر ہی لیتی ہیں۔

شوہر دبے الفاظ میں قریب کے اسکول میں داخلے کے لیے اپنی حد تک قائل کرنے کی کوشش کرتا ہے لیکن ہوتا وہی ہے جو منظورِ اہلیہ ہو۔ اسکول کی فیس تو آمدنی کے حساب سے ٹھیک ہے لیکن وین کا خرچہ اضافی محسوس ہوا لیکن مجبوری ہے ”اچھے“ اسکول کی خاطر برداشت کرنا پڑا۔ اب بچے کو وین، اسکول شروع ہونے سے ایک گھنٹہ پہلے لیتی اور اسکول ٹائم ختم ہو نے کے ایک گھنٹے بعد چھوڑتی ہے۔ بچہ پسینے میں شرابور گھر آکر نڈھال ہو کربستر پر لیٹ جا تا ہے۔ زبردستی اس کے منہ میں کھانا ٹھونسنے کے بعد اسے مدرسے بھیج دیا گیا یا قاری صاحب گھر آگئے۔ قاری صاحب کے جانے کے بعد ماں اسے پڑھانے بٹھا دیتی ہے یا ٹیوشن پر بھیج دیتی ہے۔

پھر دوسرے تیسرے بچے کو بھی اسی اسکول میں داخل کرا دیا گیا گزرتے وقت کے ساتھ آمدنی کم اور اخراجات زیادہ بڑھے تو بچے کے لا نے لے جانے کی ذمہ داری خود سنبھال لی۔ بائک پر جیسے تیسے بھی کر کے خود لانے لے جا نے کا فیصلہ کیا گیا۔ صبح سویرے روزانہ ہی بائک پر بچوں کے باپ کے دونوں کا ندھوں پر بچوں کے بھا ری بیگ، دو بچے آگے اور ایک چھوٹا بچہ ہاتھ پیچھے کر کے ہینڈل کو مضبوطی سے پکڑے رہتا ہے۔ اور بائک ڈولتی ہو ئی اسکول کی طرف عازمِ سفر رہتی ہے۔ واپسی پر یہ ہی منظر ری پلے ہوتا ہے مگر اب بائک کے ساتھ بچے بھی نیند میں ڈول رہے ہیں۔

مزے کی بات یہ کہ ان کے گھر کے نزدیک والے اسکول میں بھی دور دور سے اسکول وینز اور بائک سوار اپنے بچوں کے اعلیٰ مستقبل کی خاطر انہیں ایک ”اچھے‘‘ اسکول میں پڑھانے کی خواہش میں ان کی زندگی کو داؤ پر لگا کر انہیں اسکول چھوڑنے اور لینے آتے ہیں۔ اسی اچھے اسکول کے محلے اور اطراف میں بسنے والے گھرانے اپنے بچوں کو بہترین تعلیم کی خواہش میں اس اسکول سے صرفِ نظر کر کہیں دورکے اچھے اسکول کی طرف رواں ہو جا تے ہیں۔ اس طرح وہ اپنی توانائی وقت، پیسہ، اور ذہنی سکون قربان کر کے اس خیال کو تقویت دے رہے ہوتے ہیں کہ بچہ ایک اچھے اسکول جا رہا ہے۔

اب کچھ مشورے اگر سمجھ آئیں، تو اب بھی وقت ہے، مان لیں اور بچوں کی اور اپنی زندگی سے نہ کھیلیں۔ اگر آپ کے پاس گاڑی ہے لیکن ڈرائیو افورڈ نہیں کر سکتے تو گھر کے نزدیک اسکولوں میں سے کوئی اسکول منتخب کر لیں۔ اپنی آمدنی اور سہولت کے مطا بق بچوں کے اسکول کا فیصلہ کریں دوسروں سے مشورہ مانگیں نہ کان دھریں۔ ہر وہ اسکول جہاں پانچ ہزار سے کم فیس ہو وہاں انگریزی اور اردو کی حالت دگر گوں ہو تی ہے۔

امتحان سے دو ماہ پہلے بچوں کے موجودہ اسکول کی فیس دینا بند کر دیں۔ اور جون جولائی کی فیس تو با لکل نہ دیں، کیوں کہ آپ ایک مہینے کی ایڈوانس اور اینوئل چارجز کے نام پر دو ماہ کی فیس دے چکے ہیں۔ بچے کو صرف امتحان دلوائیں۔ اور اسکول والوں کو، فیس جلد دینے کے وعدے پر ٹالتے رہیں۔ بچوں کے امتحان کے بعد اسکول والے فیس کی عدم ادائگی پر رپورٹ کارڈ نہیں دیں گے۔ آپ کو اس کی فکر کرنے کی ضرورت نہیں آپ کا بچہ کتنے نمبر لے کر پاس ہو ا ہے یہ آپ اچھی طرح جانتے ہیں۔ بچوں کی امتحانی کاکردگی سے ٹیو ٹر یا گھر پر پڑھانے والے ماں، باپ اچھی طرح واقف ہو تے ہیں۔ موسمِ گرما کی تعطیل کے بعد محلے کے قریب سارے بچوں کو داخل کر دیں۔

تمام چھوٹے، بڑے، مشہور، گمنام، نئے پرانے، کم اور زیادہ فیس والے اسکولوں میں ایڈمیشن سارا سال جا ری رہتے ہیں۔ (کانوینٹ اور ٹرسٹ اسکولز میں ایسا نہیں ہوتا یہاں واقعی میرٹ پر ایڈمیشن ہو تا ہے ) آپ جس کلا س میں چاہیں گے بچوں کا ایڈمیشن فوری ہو جائے گا، اور وہ آپ سے بچے کی رپورٹ کارڈ یا لیونگ سرٹیفیکیٹ نہیں مانگیں گے۔ ان کی نظریں صرف اپنے گاہک کی جیب پر ہیں۔ بچے کا ٹیسٹ لینے کا ڈرامہ ضرور رچایا جا ئے گا، لیکن تمام مضامین میں فیل ہونے کے باوجود آپ کی یقین دہانی پر کہ آپ اسے مطلوبہ کلاس کے معیار پر لے آئیں گے آپ کے بچے کا ایڈمیشن ہو جا ئے گا۔ کیوں کہ آپ کے دو یا تین بچے ہیں اس لیے کوئی بھی اسکول یہ موقع ہاتھ سے جا نے نہیں دے گا۔

آج کل جن اسکولوں میں کم فیس لی جا تی ہے وہاں خاص طور پر اچھی انگریزی بولنے والے اسا تذہ نہیں ہوتے۔ یہاں وہ مضامین جو انگریزی میں ہوتے ہیں، وہی اسا تذہ پڑھاتے ہیں جو کم سیلری کو اپنی اہلیت کے مطابق غنیمت سمجھیں۔ کچھ ہوتے ہیں، جو عام اسکول سے پڑھنے کے باوجود موجودہ دور کے تقاضوں کے مطابق اچھی انگریزی بولتے ہیں لیکن وہ، اور وہ اساتذہ جو کیمبرج سسٹم سے پڑھ کر نکلتے ہیں، جن کی انگریزی، اور تلفظ اچھا ہوتا ہے وہ سسٹم کے اسکولز ہی میں پڑھاتے ہیں۔

ہمارے ہاں اچھے اسکول سے مراد یہ ہی تو لی جا تی ہے کہ بچہ فر فر انگریزی بولنے لگے۔ اگر اچھے اسکول سے مراد اچھی انگریزی ہے، تو انہیں گھر پر انگریزی پروگرام دکھائیں۔ اب تو انگریزی سیکھنے کی ایپس بھی ہیں۔

بچہ گھر کے نزدیک پڑھے گا تو آپ کا وقت پیسہ اور توانائی بچے گی، بچے بھی خوش رہیں گے۔ ہر چھٹی والے روز صبح سویرے سب سے پہلا کام یہ ہی کریں کہ ان کا بیگ، نوٹ بکس اور ڈائری دیکھیں، دو تین گھنٹے ان کے ساتھ رہیں، اپنے ساتھ چاکلیٹس، بسکٹ وغیرہ ضرور رکھیں۔ پورے ہفتے کی حکمتِ عملی وضح کریں اور بچوں کی کارکردگی سے متعلق اہم باتیں اپنے پاس نوٹ کر لیں۔ مہینے میں ایک آدھ مرتبہ بچوں کی ٹیچر سے ملا قات ضروری ہے۔ اور سب سے ضروری آپ سب کی زندگی اور خوشیاں، ” اچھے ‘‘ اسکول کی خواہش میں انہیں برباد مت کیجیے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).