ریشمی رومال سے ٹشو پیپر تک



ایک وقت تھا جب محبوبا ئیں اپنے سچے عاشقوں کو اپنے ہاتھ سے کڑھے ہفتوں کی محنت کے بعد ریشمی کپڑے کے دیدہ زیب اور مختلف ڈیزائنوں کے پھول کناری والے رومال بطور تحفہ بڑے خلوص اور چاء(چاؤ) سے بنا کے دیا کرتی تھیں۔ کچھ شدت پسند محبوبائیں رومال پہ سنہری ڈوری سے دل کا نقشہ کھینچتیں دل کے عین وسط میں کالے دھاگے سے تریڑیں ڈالتیں۔ پھر لال دھاگے سے ایک سرکش تیر بنا کر ان تریڑوں سے گزارا جاتا اور تیر کی نوک پہ سرخ قطروں کی شکل کے بیضوی دائرے بنائے جاتے۔ اس سارے نقشے کا مطلب عشق کی شدت کا اظہار ہوتا۔ کیا قسمت پائی ہوگی ایسے انسان نے جس کے لیے ایسا رومال بنایا گیا ہوگا۔

اس رومال کی قدرو قیمت یہ ہوا کرتی تھی کہ عاشق نا مداراس رومال کو ہمیشہ اپنے ساتھ رکھتے۔ بعض من چلے تو اس رومال کو اپنے قمیض کی کالر کی زینت بناکے رکھتے۔ جن صاحبان کو کا لر پہ رومال سجانا پسند نہ ہو تا وہ ایک بابرکت تسبیح کی طرح اسے اپنے ہاتھ میں رکھتے۔ کچھ دیوانے اس رومال کو پٹی کی طرح اپنی پیشانی سے پیچھے کی طرف باندھ کے رکھتے۔ کچھ نوجوان اس رومال کو گھڑی کی جگہ اپنی کلائی پہ باندھتے۔ ان تمام حرکات کا مقصد بس اس رومال کو اپنے ساتھ اور اپنی آنکھوں کے سامنے رکھنا ہو تا تھا۔ اگر کسی غیر ذمہ دار دیوانے سے وہ رومال گم ہوجا تا تو اسے اپنی محبوبہ کی طویل ناراضی کا سامنا کر نا پڑتا۔

پر تکلف دعوتوں ا ور ضیافتوں میں بڑ ے خوبصورت انداز میں اس رومال کی نمائش کی جاتی۔ خاص کر ایسی تقریبات میں جن میں رومال بطو ر تحفہ دینے والی محبوبہ بھی شامل ہوتی۔ رومال سے بار بار بلاوجہ یا بوجہ ضرورت منہ صاف کیا جاتا۔ کبھی کبھی ہونٹوں کے آس پاس لگا سالن یا پسینہ صاف کرنے کے بہانے اپنے محبوب کو دکھا کے رومال کو بڑی عقیدت سے اپنے ہونٹوں کے قریب لایا جاتا۔ اپنے محبوب کے ہاتھوں کا لمس اور خوشبو محسوس کی جاتی۔ اس سادہ او ر بظاہر اوچھی حرکت سے اپنے محبوب کے دیے اس انمول تحفے کی قدور قیمت بتائی جاتی اور اپنی وفا کا ثبوت دیا جاتا۔

کچھ ایسے عقیدت مندان بھی ہوتے جو اپنے محبوب کے دیے ہوئے رومال کو ہر روز دھو سنوار کے استری کرتے مختلف عطر اور پر فیوم سے معطر کرنے کے بعد خوبصو رت تہ لگاتے۔ صرف اسی وقت رومال کو جیب سے باہر نکالتے جب انھیں کہیں اپنی نفاست کا مظاہرہ کرنا ہوتا۔ نماز کے اوقات میں اس بابرکت رومال کو سر پہ باندھ کے اللہ کے حضور بھی اپنی سچی وفا کا ثبوت دینے کی کوشش کی جاتی۔ مختلف انداز میں دعائیں و سیلے اللہ کے نبیوں پیغیمبروں ولیوں کے واسطے دے کر محبوب کو اپنے خدا سے ہمیشہ ہمیشہ کے لیے مانگا جاتا۔ اللہ کے سامنے انتہائی عاجزی سے گِڑ گِڑا کے عرضیاں گزاری جاتیں۔

پھر وقت گزرتا گیا۔ زمانے میں جد ت آگئی۔ انسان کی سادگی کا حسن آہستہ آہستہ اپنا وجود کھونا شروع ہو گیا۔ انسانیت کے چہرے سے سادگی کے خوبصورت رنگ مسخ ہونا شروع ہو گئے۔ انسان نے ہر میدان میں ا پنی کامیابیوں کے ایجادات کے جھنڈے گاڑنا شروع کر دیے۔ وہ سب قصہ ء پارینہ بن گیا جب صافے کو شخصیت کا حصہ تصور کیا جاتا تھا۔ ایک وقت تھا جب کسی انسان کے سر پہ پگڑی یا صافے کا ہونا شرافت اور شائستگی کی دلیل سمجھا جاتا تھا۔ جہاں زندگی کے ہر شعبے میں انسان نے ترقی کی وہاں رومال، پگڑی، مفلر اور صافے کی جگہ ایک چھوٹے سے ٹشو پیپر نے لے لی۔

ٹشو پیپر ” 1907 میں دی سکاٹ پیپر کمپنی آف فلاڈیلفیا پینسلوینیا نے متعارف کروایا۔ ہوٹلوں ریستورانوں بڑے بڑے سرکاری اور غیر سرکاری اداروں میں ٹشو پیپر کی بڑھتی مانگ اور افادیت کے پیش ِنظر بہت سی کمپنیوں نے ٹشو تو لیے، نیپکن، اور ٹائلٹ پیپر بنانا شروع کردیے۔ 1922میں ویلیلم ی کاربن ہینری ہارولڈ ٹائٹس چیس نے ٹشو پیپر اور اسی طرح کی مختلف ایجادات میں تجربات مشاہدات شروع کر دیے۔ لیکن دی سکاٹ پیپر کمپنی آف فلاڈیلفیا پینسلوینیا نے ٹشو پیپر بنانے میں نمایا ں مقام اور پہچان بنا لی۔

ہمارے ایک دوست نے ان کی بستی میں ہونے والی ایک شادی کی تقریب کا سچا احوال سناتے ہوئے جہاں ہمارے علم میں اضافہ کیا وہیں اپنے دوست کی بات سنتے ہوئے ہنسی اور حیرانی سے ہمارا برا حال تھا۔ ہم انسان کی سادگی اور معصومیت پہ نازاں بھی تھے کہ کیا واقعی ایک انسان اتنا بھی سادہ ہو سکتا ہے۔ اگر انسان اتنا سادہ تھا تو پھر اسے کیا ضرورت تھی کہ اسے یہ مکر و فریب زمانے کی مکارانہ چالیں سیکھنی پڑیں۔ جیسے جیسے زمانہ جدید سے جدید تر ہوتا گیا انسان شاطر مطلبی اور خودغرض ہو تا گیا۔ محبت خلوص اور سادگی کے رنگ پھیکے پڑنے لگے۔ بقول میاں مسعود ”وہ بتاتے ہیں کہ ایک رائل فیملی کی شادی کی تقریب میں پہلی بار ان کے علاقے میں جب نان، کسٹرڈ اور ٹشو پیپر متعارف ہوا تو کثیر تعداد میں سادہ لوح خواتین کو رنگ برنگے کسٹرڈ کے ساتھ نرم و ملائم ٹشو پیپر کھاتے دیکھا گیا“

ٹشو پیپر سے انسان نے نفاست کے ساتھ ساتھ اور بھی بہت کچھ سیکھا۔ جیسے ایک انسان کا دوسرے انسان کو ٹشو پیپر کی طرح استعمال کرنا۔ پھر مطلب نکل جانے پہ انتہائی لا غرضی سے ادھر اُدھر پھینک دینا یا اس کے جذبات کے اوپر پاؤں رکھ کے گزر جانا۔ اب خدا نا خواستہ یہاں میرا یہ ہر گز مطلب نہیں کہ تمام ٹشو پیپر استعمال کرنے والے لوگ خو د غرض یا احساس کی دولت سے خالی ہیں۔ بلکہ میرا اشارہ ان لوگوں کی طرف ہے جو ہاتھ میں قیمتی اور نفیس ٹشو پکڑے بظاہر مہذب لگنے کی کوشش کر رہے ہوتے ہیں۔ پر ان لوگوں نے انسان کو بھی ہاتھ میں پکڑے ٹشو کی طرح استعمال کر نے کا گُر سیکھ لیا ہے۔

چھوٹی یا بڑی ہر تقریب میں آ پ کو مختلف ڈیزائینوں کے ٹشو پیپر د ستر خوانوں اور میزوں پہ سجے نظر آئیں گے۔ کسی بھی تقریب کے اختتام پہ اگر آپ اپنا موبائل کھانے کی میز پہ بھول گئے ہیں یا کسی او ر غرض سے آپ کو دوبارہ اس ہال میں جانے کا اتفاق ہو جہاں مہذب لوگو ں کی دعوت عام تھی۔ تو تقریب کے بعد ہال کا وہ نقشہ جو آپ دیکھ رہے ہوں گے جہاں ٹشو پیپر ز، ڈسپوز ایبل کپ، اسٹراء او ر کھانے کی باقیا ت ادھر ادھر بکھری آپ کو نظر آ ئیں گی۔ یہ سارا منظر ہاتھ میں ٹشو پکڑے بار بار منہ صاف کرتے انسان کے مہذب ہونے کی قلعی کھول دے گا۔ آپ کو ماضی قریب کے قریب کے زمین پہ بیٹھ کر کھانا کھانے والے سادہ لوح لوگ مہذب لگنےلگیں گے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).