جھوٹ کی آکسیجن پر زندہ معاشرے کا المیہ


جھوٹ زندگی کی بہت بڑی ضرورت ہے۔ جھوٹ، منافقت اور موقع پرستی ہے۔ یہ وہ ہتھیار ہیں، جن سے مسلح ہوکر کئی کامیابی کے قلعے فتح کیے جاتے ہیں۔ یہ جدید دور کے مختصر و باسہولت راستے ہیں، جو قبل از وقت کامیابی سے ہمکنار کرتے ہیں۔ معاشرے میں جا بجا ایسی مثالیں موجود ہیں۔ بعض لوگ اتنی بار جھوٹ بولتے ہیں جتنی بار آئینہ دیکھتے ہیں۔

کچھ لوگ پورا دن غلط بیانی سے کام لیتے ہیں۔ اکثریت پرانے جھوٹوں کی ہے جنہیں پیتھالوجیکل لائرز کہا جاتا ہے۔ ان کی صبح جھوٹ سے شروع ہوکر رات کے فریب ہر ختم ہوتی ہے۔ ہر ایک کی زندگی کا الگ جھوٹ ہوتا ہے۔ جھوٹ بولنے والے یہ لوگ ذہنی امراض کا شکار ہوتے ہیں۔ لیکن مجھے غلط بیانی کرنیوالوں سے زیادہ سننے والے لوگ نفسیاتی بیمار دکھائی دیتے ہیں۔ یہ وہ لوگ ہیں جو جھوٹی خوشامد کو آکسیجن کی طرح سمجھتے ہیں۔ اور واہمے یا گمان کو سچ سمجھ لیتے ہیں۔ کوئی انہیں خوبصورت کہے تو ہوائوں میں اڑنے لگتے ہیں۔ ذہین بول دے تو خوشی سے پھولے نہیں سماتے، چاہے ذہن پر جہالت کی دھول کیوں نہ جمی ہو۔

کچھ لوگ تو اپنے آپ سے بھی غلط بیانی کرتے ہیں جب خود کو ذہین اور مقابل کو کمتر سمجھتے ہیں۔ خودفریبی کی یہ کیفیت آجکل بہت عام ہے۔ جس نے خود ستائشی رویوں جنم دیا ہے۔ خوش فہمی بھی اسی سلسلے کی کڑی ہے۔ آپ نے جہاں حقیقت پسندانہ بات کہ دی تو خوش فہمہی میں مبتلا افراد آپ سے دور ہوجائیں گے یا قطع تعلق کرلیں گے۔ اس خوف سے لوگ ان کے سامنے سچ کہنے سے کتراتے ہیں۔ جھوٹ زندگی کے پھیکے پن میں ذائقے کا تڑکا لگادیتا یے۔ یہ اس طرح ہے جیسے بدمزہ کھانے کے ساتھ اچار ، مربے اور سلاد رکھ دیں۔

کرسٹوفر مارلو کے لافانی کردار ڈاکٹر فاسٹس کی طرح جو دنیا فتح کرنے کی خاطر بدی سے معاہدہ کرتا ہے۔ جب کہ عیش و عشرت کے سالوں کے خاتمے پر دائمی جہنم اس کا منتظر ہوتا ہے۔ مگر وقت گزرنے کے بعد آگہی کا ایک لمحہ،اس کے ذہن پر ضرور دستک دیتا ہے کہ کاش اس نے بدی کی قوتوں سے معاہدہ نہ کیا ہوتا! ایسا لمحہ ہم سب کی زندگی میں ضرور آتا ہے۔ جب ہم احتساب کے آئینے کے سا منے آن کھڑے ہوتے ہیں۔ اس سچ کو سمجھنا اور تسلیم کرنا کسقدر مشکل ہے؟ لہذا خود فراموشی کی فراریت بہتر لگتی ہے، تکلیف دے سچائی کی نسبت!

خوبصورت زندگی کے خواب، خواہشوں کی اسیری اور من پسند دنیا حاصل کرنے کے لیے انسان کو اپنی زندگی میں کئی چہرے بدلنے پڑتے ہیں۔

خود غرضی، منافقت اور موقع پرستی دنیاوی کامیابی کی ضمانت سمجھے جاتے ہیں۔ اسی حوالے سے بار بار چہرے بدلے جاتے ہیں۔ کتنی عجیب بات ہے کہ انسان کی جیب میں بیک وقت کئی ماسک رکھے ہوں، جنھیں وہ موقع و محل کے اعتبار سے بدل لیتا ہو۔ شاید یہی وجہ ہے کہ شیکسپیئر نے اس دنیا کو اسٹیج کہا ہے۔ جہاں انسان کو بچپن سے لے کر بڑھاپے تک مختلف کردار نبھانے پڑتے ہیں۔ شیکسپیئر حقیقی کردار نگاری کی بات کرتا ہے۔ جب کہ اس کے ڈراموں کے ہیروز بہروپیوں کے ستائے ہوئے ہیں۔

یہ ہیروز ماسک کے پیچھے چھپے ہوئے اصلی چہرے نہ پہچان سکے اور تباہ ہوگئے۔ سیاسی جھوٹ کا آمیزہ ہی الگ ہے۔ ہر پل بے یقینی ہے۔ جہاں ہر لمحہ پرفریب خیال کی مانند ہے۔اگر ہم چہروں کی حقیقت جاننے لگیں تو شاید ہی ایسے المیے جنم لیں۔ فن و فکر کے تمام زاویے ایسے المیوں کے گرد گھومتے ہیں۔ کیا آپ نے کبھی سوچا کہ آخر انسان کو روپ بدلنے کی ضرورت کیونکر پیش آتی ہے؟ درحقیقت اس سوال کے پس پردہ انسانی فطرت کی بدصورتی اور دور کے سنگین المیے پوشیدہ ہوتے ہیں۔

نفسیات کی رو سے ایسے رویوں کو Dissociative Identity Disorder افتراقی شناخت کا مرض کہتے ہیں۔ نفسیاتی ماہرین کے مطابق اس بیماری سے مراد ایک سے زائد شعوری مراکز یا شخصیات کا ابھر کر سامنے آنا ہے۔
زیادہ تر فرد دو شعوری رویوں یا شخصیات کو اپنا لیتا ہے۔ یہ مراکز دو سے زائد بھی ہوسکتے ہیں۔ یہ شخصیات مختلف و متضاد ہوتی ہیں۔ ایک لحاظ سے بنیادی شخصیت کے ساتھ ثانوی شخصیت بھی سایے کی طرح چلتی ہے۔ فرد پر جو بھی شخصیت حاوی ہوجاتی ہے، وہ اسی مخصوص انداز، پسند ناپسند یا انفرادی حیثیت کے ڈھانچے میں ڈھل جاتا ہے اور اس کی فطرت میں بیک وقت کئی تضادات پیدا ہوجاتے ہیں۔ ایک ہی شخص کی ذات میں موجود مختلف شخصیات کے یہ ماسک اپنی جگہ مکمل اور مضبوط ہوتے ہیں۔

دوہری شخصیت مختصر وقت کے ساتھ طویل دورانیے پر بھی مشتمل ہوتی ہے۔ اس پریشان کن بیماری کی تشخیص آسان نہیں ہے کیونکہ : اکثر رویوں کی بدصورتی، مزاج کے اتار و چڑھاؤ، بیجا تشویش، غصہ، جارحیت اور دوہرے رویوں کو نفسیاتی امراض میں شامل نہیں کیا جاتا۔ وقت پر تشخیص ہوجائے اور بروقت علاج تو معاشرہ کئی برائیوں اور گھناؤنے جرائم سے نجات پاسکتا ہے۔ حادثے یا سانحے جب وقوع پذیر ہوتے ہیں تو کچھ لوگ انھیں لاشعور میں محفوظ کرلیتے ہیں۔

وہ انھیں دہرانے یا یاد کرنے سے فرار حاصل کرتے ہیں۔ یوں یہ ذہن میں مزید پختہ ہوجاتے ہیں۔ جسم یا گھر کی صفائی کی طرح ذہن کے اسٹور روم کو بھی صاف کرنا چاہیے۔ تلخ واقعات کا یہ کاٹھ کباڑ فطری توانائی کی راہ میں سب سے بڑی رکاوٹ بن جاتا ہے۔ اکثر اس طرح کی ذہنی بیماریاں بچپن کے تلخ واقعات سے وجود میں آتی ہیں۔

افتراقی شناخت کا مرض و کیفیات بارڈر لائن ڈس آرڈر، شیزوفرینیا یا کسی صدمے کا ردعمل بھی ہوسکتے ہیں۔ کسی بھی ذہنی عارضے کی تشخیص غور طلب مرحلہ ہوتا ہے ، جس کے لیے غور وفکر اور وقت درکار ہوتا ہے۔ جبکہ آج کل ماہرین نفسیات مشینی دور اور مادیت پرستی کا شکار ہوچکے ہیں۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ اس بیماری کا شکار لوگ اپنی غلطیاں تسلیم نہیں کرتے اور نہ ہی انھیں اپنے بدترین رویے یاد رہتے ہیں۔
جھوٹ کی سب سے بڑی وجہ خامیوں کو مسترد کرنا۔ برائی کو بظاہر خراب کہنا مگر چھپ کر وہی برائی اختیار کرنا یہ دوغلے رویے زندگی میں شامل ہوچکے ہیں۔ بظاہر اچھی دنیا منافقانہ رویوں کو فروغ دیتی ہے۔ پابندی دوسرے لفظوں میں برائی کی اشتھا بڑھانے کا نام ہے۔ اکثر معاشرے کو جنسی تشنگی کی دیمک چاٹ جاتی ہے ، جہاں جنس کو بظایر مسترد کردیا جاتا یے مگر پس پردہ جنسی بے راہ روی عام ہو تی ہے۔ یہ دوہرہ معیار سماج کے لئے سستی شراب کی سی حیثیت رکھتا ہے۔

دوغلے پن اور کثیر رخ شخصیت کے موضوع پر کئی دلچسپ کتابیں لکھی گئیں۔ جن میں دوستو وسکی کا ناول ”دی ڈبل” شرلے جیکسن کا ناول “Bird’s Nest” ، رابرٹ سلور برگ کی کہانی Multiples، بارکر کا ناول The Eye in the Door، سڈنی شیلڈن کا ناول Tell Me Your Dream کے ساتھ اور بھی بے شمار ناول ہیں ، جو انسانی رویوں کی الجھنوں کو عیاں کرتے ہیں۔ اس موضوع پر فلمیں بھی بنائی گئی ہیں جس میں Lizzie، The Three Faces of Eve، Color of Night قابل ذکر ہیں۔

ٹیلی ویژن فلم Sybil میں ایک عورت کی 16مختلف شخصیات کو اجاگر کیا گیا ہے۔ بہرکیف نفسیاتی موضوعات پر بنی اکثر فلمیں بیماری کو بڑھا چڑھا کر پیش کرتی ہیں۔ وہ مکمل طور پر بیماری کا احاطہ کرنے میں کامیاب نہیں ہو سکتیں۔ کئی ویڈیو گیمز اور مغربی گانے بھی افتراقی شناخت کے مرض پر بنائے گئے ہیں۔اس مرض کے علاج طریقے ہیں۔ جس میں ٹاک تھیراپی اور کاؤنسلنگ کے ذریعے مریض کے ذہن کے تضادات سلجھائے جاتے ہیں۔ گو کہ اس مرض کی کوئی خاص دوا نہیں ہے مگر اکثر ڈاکٹرز ان مریضوں کو اینٹی ڈپریشن، اینٹی اینگزائٹی اور اینٹی سائیکوٹک دوائیں تجویز کرتے ہیں۔ اس بیماری کا موثر حل متاثرہ افراد کے اہل خانہ کے رویوں میں مثبت تبدیلی سے مل سکتا ہے۔ جھوٹ سیکھنے کا آغاز گھر سے ہوتا ہے۔ عمر کے ابتدائی تین سال تک بچہ بھانپ لیتا ہے کہ والدین آپس میں اور اس کیساتھ جھوٹ بولتے ہیں۔ بچہ چھوٹی عمر میں ہی رشتوں کے درمیاں سانس لیتی منافقت کو اپنے اندر جذب کرلیتا ہے۔ کیونکہ بچے والدین کا عکس کہلاتے ہیں!

ضروری نہیں کہ ہر بہروپیا کسی شدید ذہنی بیماری کا شکار ہو۔ مگر تمام منفی رویے، جھوٹ، بے ایمانی، منافقت، غیبت وغیرہ کسی ذہنی عارضے کی طرف اشارہ کرتے ہیں۔ یہ بہروپیے معاشرتی صفوں میں ہر طرف اکثریت سے پائے جاتے ہیں۔ کیونکہ یہ وقت اور حالات کا سکھایا ہوا ہنر ہے، جو لاقانونیت سے خوب پھلتا پھولتا ہے۔

جس کی مثال قصاب، جعلی دواساز، ذخیرہ اندوز اور کئی دیگر پیشے ہیں، جو انسانیت کی آنکھوں میں دھول جھونک رہے ہیں۔ ان عارضی کامیابیوں کے پیچھے کئی المیے جنم لیتے ہیں۔ اور معاشرہ افراتفری کا شکار ہو جاتا ہے۔ گو کہ جھوٹ سدا بہار پودہ ہے اور منافقتوں کے پھل میٹھے ہوتے ہیں، مگر اس مٹھاس میں چھپے زہر کا خمیازہ کئی نسلیں بھگتتی ہیں۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).