تین ماہ میں 64 ارب ڈالر کیسے حاصل کئے جائیں؟


پاکستان کی معاشی صورتحال کے پیش نظر چند تجاویز پیش کر رہا ہوں۔ خیال ہے کہ اگر ان کو قابل عمل بنا لیا جائے تو ملک و قوم کے لیے مفید ثابت ہونگیں۔

1۔ اس وقت حکومت وقت کو جو سب سے بڑا مسئلہ درپیش ہے وہ معاشی ہے۔ اس کا حل میرے خیال میں اس طرح کیا جا سکتا ہے کہ حکومت قومی اور بین الاقوامی سطح پر ایک سکیم متعارف کرواۓ کہ ایک ایسے بونڈ کا اجراء کیا جائے جس کے ایک یونٹ کی قیمت پندرہ ہزار پاکستانی روپے ہو مگر حکومت پاکستان اس یونٹ کو دس ہزار کی رعایتی قیمت پر فروخت کے لیے پیش کرے۔ جو شخص ایک یونٹ آج کی تاریخ میں خریدے گا ٹھیک تین سال بعد حکومت پاکستان اس یونٹ کو پندرہ ہزار پاکستانی روپے میں خریدے گی۔ اس سکیم سے میرے مطابق دسیوں ارب ڈالر حاصل کیے جا سکتے ہیں۔ یہ کیسے ممکن ہے اور اس رقم کی واپسی کس طرح ممکن ہو گی؟ اس ملین ڈالر سوال کا جواب بھی ملاحظہ فرمائیں۔ پہلا مرحلہ جو رقم کا حصول ہے اس کے لیے جب عمران خان جو اب وزیراعظم پاکستان ہیں خود اپیل کریں گے کہ سب لوگ اس سکیم میں شرکت کریں اور وہ حکومتی سطح پر گارنٹی دیتے ہیں کہ رقم ہر صورت مقررہ مدت میں واپس ہو گی تو ہر شخص اس سکیم سے نفع حاصل کرنے کے لیے کوشش کرے گا۔ کتنی رقم حاصل کی جا سکتی ہے؟ اس کا محتاط اندازہ یہ ہے۔

اگر ہمارے ملک کی پندرہ فیصد آبادی اس قابل ہو کہ ایک یونٹ خرید سکے تو تین کروڑ یونٹ خریدے جائیں گے۔ ان پندرہ فیصد میں سے دس فیصد ایسے ہیں جو دو یونٹ خریدتے ہیں تو ٹوٹل پانچ کروڑ یونٹ خریدے گئے۔ اگر ان دس فیصد میں سے پانچ فیصد ایسے ہیں جو بیس یونٹ خرید سکتے ہیں تو ٹوٹل تئیس کروڑ یونٹ خریدے گئے۔ اگر ان پانچ فیصد میں سے ایک اعشاریہ پچیس فیصد ایسے ہیں جو سو یونٹ خرید لیں تو ٹوٹل تینتالیس کروڑ یونٹ خریدے گئے۔

اب چلتے ہیں بیرون ملک مقیم پاکستانیوں کی طرف۔

تقریباً اسی لاکھ پاکستانی بیرون ملک مقیم ہیں۔ بیرون ملک اس یونٹ کی قیمت تقریباً اسی ڈالر بنتی ہے۔ اسی طرح خلیجی ریاستوں کی کرنسی کے مطابق تقریباً تین سو پچاس ریال یا درہم بنتی ہے۔ اگر ان اسی لاکھ پاکستانیوں میں سے پچاس فیصد ایسے ہوں جو دس یونٹ خریدیں تو یہ چار کروڑ یونٹ خریدے گئے۔ اگر ان پچاس فیصد میں سے پچیس فیصد ایسے ہوں جو پچاس یونٹ خریدیں تو ٹوٹل بارہ کروڑ یونٹ خریدے گئے۔ اگر ان پچیس فیصد میں سے ساڑھے بارہ فیصد ایسے ہوں جو سو یونٹ خریدیں تو ٹوٹل سترہ کروڑ یونٹ خریدے گئے۔ اگر ان ساڑھے بارہ فیصد میں سے سوا چھ فیصد ایسے ہوں جو پانچ سو یونٹ خریدیں تو ٹوٹل سینتیس کروڑ یونٹ خریدے گئے۔
ان کا اگر ٹوٹل کیا جائے تو اسی کروڑ یونٹ ہوتا ہے۔ جو پاکستانی روپے میں اسی ہزار ارب بنتا ہے۔ یہ رقم امریکی ڈالر میں چونسٹھ ارب ڈالر بنتی ہے۔ اگر اتنی رقم پاکستان کی حکومت کو حاصل ہو جائے تو آپ خود سوچ سکتے ہیں کہ ملک و قوم کو کتنے فواید حاصل ہو سکتے ہیں۔ افراط زر کی شرح کم ہو گی۔ ڈالر کی قیمت کم ہو گی اور اسکے نتیجے میں مہنگائی میں کمی واقع ہو گی۔

2۔ اب دوسرے ملین ڈالر سوال کی طرف آتے ہیں کہ اس رقم کو ڈیڑھ گنا کر کے کیسے تین سالوں میں واپس کرنا ہے؟

حکومت نے جیسے پہلے مردم شماری کروائی تھی ویسے ہی فوج کی نگرانی میں آمدن شماری کروائی جائے۔ گلی محلے کی سطح سے لے کر زراعت، لائیو سٹاک اور ہر طرح کی صنعت کی آمدن شماری کروائی جائے۔ اس وقت آپ کے ملک میں تقریباً ساڑھے سولہ لاکھ افراد ٹیکس دیتے ہیں۔ جب فوج کی ہر ٹیم کے ساتھ ایک محکمہ مال کا ملازم، ایک تخمینہ لگانے والا ہو گا جو حکومت کی طرف سے دیے گئے فارم کو درست معلومات سے پر کرے گا تو یقینی طور پر آپ کے ملک کے ٹیکس دینے والے کم ازکم تین گنا اضافی ہو گا۔ اس وقت چار ہزار ارب روپے ٹیکس جمع ہوتا ہے۔ جب تین گنا ٹیکس دینے والے ہوں گے تو ٹیکس بھی تین گنا یعنی بارہ ہزار ارب روپے ہو جائے گی۔ اس وقت ملک کا بجٹ تقریباً پانچ ہزار ارب ہے۔ یہ سارا تخمینہ پینتالیس سے پچاس دن میں مکمل ہو سکتا ہے جس سے ہر سال ٹیکس آمدن میں یہ انقلابی اضافی ممکن ہے۔ اگر ہر سال ملک کا بجٹ چھ ہزار ارب روپے ہو تو چھ ہزار ارب اضافی حاصل ہوں گے۔ تین سال میں اٹھارہ ہزار ارب جبکہ آمدن سکیم کے ذریعے حکومت کو آٹھ ہزار ارب روپے حاصل ہوۓ تھے۔ بارہ ہزار ارب روپے واپس کرنے کے بعد بھی حکومت پاکستان کے پاس چھ ہزار ارب روپے بچ جائیں گے جو قرض اتارنے کے کام آئیں گے۔ ہر سال بجٹ منافع میں ہو گا۔ جو سولہ، سترہ سو ارب روپے سود کی مد میں ادا کیا جاتا ہے اس سے نجات ملے گی۔ پانچ سال کے بعد قرض یا تو مکمل طور پر ختم ہو چکا ہو گا یا آخری مراحل میں ہو گا۔

3۔ ٹیکس نیٹ کو بڑھانے کا ایک طریقہ یہ بھی ہے کہ تمام بینکس سے معلومات حاصل کی جائیں کہ جن اکاؤنٹس میں دس لاکھ روپے کی ٹرانزیکشن ایک سال کے عرصہ میں ہوئی ہے ان کی تفصیلات فراہم کی جائیں۔ اس طریقے سے بھی حکومت پاکستان کو لاکھوں افراد کا ڈیٹا حاصل ہو جائے گا۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).