چندہ مہم ۔۔۔حب الوطنی جگانے کا ایک ذریعہ


اقوام کے پاس کبھی بھی اتنا سرمایہ نہیں ہوتا کہ جن سے بڑے پراجیکٹ بنائیں جا سکیں یہ ڈیم بنانے کی ساری تجاویز بشمول چندہ سمیت ایسے ہی ہے کہ ہم سب مل کر ہارٹ سرجری کے طریقے دریافت کرنا شروع کردیں۔ دنیا جہان میں سرمایہ دار موجود ہوتے ہیں جو کسی بھی منافع بخش پراجیکٹ پر سرمایہ لگانے کے لئے تیار ہوتے ہیں ان کی راہنمائی دنیا جہان کے فنائینشل ادارے کرتے ہیں۔ سرمایہ ہمیشہ وہیں کا رخ کرتا ہے جہاں سرمایہ بڑھتا ہے۔ بھاشا ،دیامیر ڈیمز پر کیا کوئی شک ہے کہ یہ ناقابل عمل منصوبے ہیں؟

اس پر قرض کیوں نہیں ملے گا؟

منافع بخش پراجیکٹ ہونے کے باوجود اس پر کوئی کیوں سرمایہ کاری نہیں کرے گا؟

اگر یہ طے کر ہی لیا ہے کہ ڈیم ہم نے چندے پر ہی بنانا ہے تو انشا ء اللہ یہ ڈیم اگلے چالیس پچاس سالوں میں بن جائے گا۔ اگر یہ ڈیم قرض لے کر بنے گا تو چند سال بعد ڈیم کی تعمیر کے فوری بعد ہم اس کے قرضے واپس کرنا بھی شروع کر سکتے ہیں اس سے پیدا ہونے والی بجلی ملک کی ضرورت ہے اور اس کا گاہک بھی موجود ہے ایسا تو نہیں ہو گا کہ ہمارے پاس بجلی تو ہے لیکن خریدار نہیں ہے لیکن یہ بھی ذہن میں رکھنا چاہہے کہ یہ ڈیم صرف بجلی بنانے کے منصوبے نہیں ہیں یہ واٹر ریزروائر بھی ہیں جس سے ہماری پانی کی ضرورتیں بھی پوری ہونا ہے۔ یہ ڈیم ہمیں فوری چاہیئں ہم ان ڈیمز کے لئے چالیس پچاس سال انتظار نہیں کر سکتے۔

چندہ چندہ کر کے ہمیں ٹرک کی بتی کے پیچھے لگا دیا گیا ہے ۔

آخر ہمیں یہ بھی بتایا جائے کہ انٹرنیشنل ادارے یا حکومتیں ہمیں قرض دینے سے یا ملک میں سرمایہ کاری کرنے سے کیوں انکاری ہیں یا کیوں گریز کر رہی ہیں ؟

ایک وجہ تو ایف اے ٹی ایف نے بتائی ہوئی ہے جس کی وجہ سے ہمیں انہوں نے گرے لسٹ میں ڈالا ہوا ہے تو ہم وہ وجہ دور کرنے کے لئے کیوں تیار نہیں ہیں اور وہ وجہ ہے دہشت گردوں کو فنڈنگ۔۔۔

سرمائے کے بغیر کوئی بھی پراجیکٹ نہیں بنایا جا سکتا ۔میں نے اکنامکس کا یہی ایک بنیادی اصول بیان کیا ہے اگر ایسا ممکن ہوتا تو دنیا میں کوئی شخص بھوکا نہ ہوتا نہ ہی کوئی شخص بے گھر ہوتا ۔ ابھی میں نے جانا ہے کہ امریکی حکومت نے کسی ایک معاملے کے لئے چندہ اکٹھا کیا ہے تو اس سے صاف ظاہر ہے کہ حکومت کے پاس پیسے نہیں تھے ۔ امریکہ کی حکومت بھی قرضوں پر چلتی ہے ۔ انفرادی طور پر لوگوں یا اداروں کے پاس سرمایہ ہونا الگ بات ہے۔ اگر تمام ملکی دولت کو زبردستی قانون بنا کر اکٹھا کر لیا جائے تو شاید ایسا ممکن ہو جائے۔ ذوالفقارعلی بھٹو کے دور میں انڈسٹڑی کو نینشنیلائز کر کے یہ ہم دیکھ چکے جس کا ہمیں قومی طور پر ایک خمیازہ بھگتنا پڑا۔روس میں سوشلسٹ نظام ناکام ہو چکا ۔ ایک حل سرمایہ کاری ہو سکتا ہے کہ ملکی طور پر ہم خود سرمایہ اکٹھا کریں لیکن اس کا نقصان یہ ہوتا ہے کہ اس سرمائے کو اکٹھا کرنے کے لئے بہت طویل وقت درکار ہوتا ہے جب کہ قرض لے کر یہی پراجیکٹ جلد بنائے جا سکتے ہیں۔ جب پراجیکٹ جلد تکمیل پزیر ہو جاتے ہیں تو اس کا فائدہ بھی ہم جلد اٹھانا شروع کر دیتے ہیں ۔ اگر میں ابھی گھر بنانا چاہوں تو نہیں بنا سکتا ہاں یہ ہو سکتاہے کہ میں اپنے کچھ پیسے ڈالوں اور کچھ پیسے قرض لوں اور وہ پیسے جو میں کرائے کی مد میں دیتا ہوں اسے قرض کی قسط کے طور پر دینا شروع کر دوں تو یہ گھر بن سکتا ہے۔ ایسے ہی ملکی پراجیکٹ ہیں کہ جن کے لئے ہمیں غیر ملکی سرمایہ کاری درکار ہوتی ہے۔

قرض لینے میں حرج نہیں ہے حرج اس بات پر ہے کہ کن شرائط پر قرض لیا جا رہا ہے۔ کیا وہ شرائط قابل قبول ہیں۔ جب ہم گورنمنٹ ٹو گورنمنٹ قرض لیتے ہیں تو ان کی شرائط بہت آسان ہوتی ہیں قرض بیس سے پچیس سال کی مدت میں واپس کرنا ہوتا ہے اور انٹرسٹ ریٹ بھی ایک سے دو فیصد ہوتا ہے اور یہ انٹرسٹ ریٹ انفلیشن کے مقابلے میں بہت کم ہوتا ہے۔ ایک کہاوت ہے کہ کمتر سطح کے لوگ واقعات کو دیکھتے ہیں اوسط سطح کے لوگ شخصیات کو دیکھتے ہیں اور اعلی سطح کے لوگ نظریات کو دیکھتے ہیں۔ مجھے عمران خان سے کوئی مسئلہ نہیں ہے ۔ مجھے اس کی پالیسیوں سے اختلاف ہو سکتا ہے۔ یہ ایک آپشن ہو سکتا ہے کہ لوگوں کی حب الوطنی جگانے کے لئے اس ڈیم کے لئے چندہ بھی اکٹھا کر لیا جائے ۔ یہ ایک ٹوکن ہو سکتا ہے۔

قرض نہ ملنے کی ایک وجہ گلگت بلتستان کا متنازعہ علاقہ ہونا بھی ہو سکتا ہے لیکن اگر یہ وجہ ہے تو بھی کھل کر عوام کو بتانا چاہئے اور چندہ مہم کے لے علاوہ سرمایہ کاری کا کوئی نظام وضح کیا جائے تا کہ ڈیم واقعی بن سکے نہ کہ یہ ڈیم سیاسی پوائینٹ سکورنگ کا ذریعہ ہی بنے رہیں.


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).