عمران خان کو پاکستان کا ٹرمپ کہیں یا ٹرمپ کو امریکا کا عمران خان


عمران خان کو پاکستان کا ٹرمپ کہیں یا ٹرمپ کو امریکا کا عمران خان دونوں کو ہی برا لگتا ہے اور ان کے چاہنے والے اس پرغم وغصے کا اظہار بھی کرتے ہیں لیکن کیا کریں کہ اس بات پر دل خوش گماں کو اعتبار سا آنے لگتاہے۔

زیادہ پرانی بات نہیں جب امریکی کامیڈین ٹریور نوح نے اپنے ایک پروگرام میں دونوں کی مماثلتیں اور مشابہتیں بیان کی تھیں امریکی اینکر کے بقول دونوں کو حکمرانی کا کوئی تجربہ نہیں اور دونوں ایک ہی تقریرمیں دو متضاد باتیں کہہ جانے کی بھی یکساں قدرت رکھتے ہیں اور پھر ایسی تقاریر کے ویڈیو شواہد بھی دکھا ئے۔

سیاست سے قبل ٹرمپ کی پیزا کے اشتہار میں اداکاری ا ور عمران خان کی پیپسی کولا کے لئے یہی خدمت کو بھی قدرمشترک بیان کیا گیا۔ دونوں کی تین تین شادیاں ایک اور حسن اتفاق تو انتخابات سے قبل دونوں پرجنسی ہراسانی کے الزامات حسن پرستی اور دل پھینک ہونے جیسی یکساں کمزوری کی دلیل بتائی گئی۔

ٹرمپ کے صدارتی انتخاب کے دوران تشدد اور سوشل میڈیا پر ٹرولنگ کے واقعات میں اضافہ ہوا پاکستان میں تحریک انصاف کے حمایتی سوشل میڈیائی گروپس پربھی ایسی کارروائیوں اور حرکتوں کے لئے انگلیاں اٹھتی رہیں۔

ٹرمپ اور عمران خان کی خودپسندی یا خود ستائشی کی عادات بھی قدر مشترک ہے ’بدنام ہوں گے تو کیا نام نہ ہو گا‘ کے مصداق اگرچہ دونوں مقبول ہیں لیکن ان کا گمان ہے کہ وہ اس سے بھی کہیں زیادہ مقبول ہیں۔

اپنے سیاسی مخالفین پر رقیق حملوں اورکرپشن کے الزامات کے حوالے سے بھی دونوں کے بیانات ایک جیسے رہے ہیں۔
امریکی کامیڈین نے جب یہ پروگرام کیا تب عمران خان نے الیکشن جیتا تھا ابھی حکومت نہیں سنبھالی تھی ورنہ ہوسکتا ہے کہ انہیں حکومت کرنے سے متعلق دونوں میں اس سے بھی زائد مماثلتیں مل جاتیں۔

عمران خان حکومت کے ابتدائی ایام ٹرمپ حکومت کےابتدائی ایام سے گہری مشابہت رکھتے ہیں۔ ٹرمپ نے جس رفتارسے ابتدائی فیصلے کیے اورہزیمت اٹھائی اس کی پیروی کرنے میں عمران خان پیچھے نہیں رہے۔

ٹرمپ نے مختلف ممالک پر ویزہ پابندیوں، تارکین وطن سے متعلق پالیسی، ایران جوہری معاہدے کو ختم کرنے، چین کے ساتھ تجارتی تنازع، غزہ کی امداد معطل کرنے، یروشلم میں سفارتخانہ کھولنے جیسے فیصلوں سے اپنی ناتجربہ کاری کا ثبوت دیا۔

عمران خان نے حکومت سنبھالتے ہی بھارت اورامریکا کے ساتھ تعلقات پر جگ ہنسائی کرائی اورایک تجربہ کار وزیرخارجہ کے ہاتھوں انتہائی حساس سفارتی زبان کے بے دریغ استعمال سے اپنی ناتجربہ کاری پرمہرتصدیق ثبت کرائی۔

امریکی صد ر ڈونلڈ ٹرمپ نے شمالی کوریا کے معاملے پرسخت زبان استعمال کی، کھلی دھمکیاں دیں۔ الفاظ کی دوطرفہ گولہ باری کے بعد ٹرمپ کو اس امر پر یوٹرن لینا پڑا۔
عمران خان کو بھی حکومت سنبھالتے ہی اپنے منشورکے اولین وعدوں کفایت شعاری، پروٹوکول نہ لینے، وزیراعظم ہاؤس میں نہ رہنے، گورنرہاؤسز کو یونیورسٹیوں میں تبدیل کرنے جیسے اعلانات پر یوٹرن لینے پڑے۔

امریکی اخبارنیویارک ٹائمز نے اپنے ایک مضمون میں ٹرمپ انتظامیہ کے اہلکارکے حوالے سے دعویٰ کیا ہے کہ انتظامیہ میں ایسے لوگ شامل ہیں جو ملک کو صدر ٹرمپ کی ’بدترین پالسیوں‘ سے بچانے کے لیے ان کے ایجنڈے میں رکاوٹیں پیدا کرنے کی کوشش کر رہے ہیں۔ یہ مضمون، باب ووڈورڈ کی اس کتاب کے صرف ایک دن بعد شائع ہوا جس میں یہ کہا گیا تھا کہ ٹرمپ وائٹ ہاؤس کے اہلکار ملک کو صدر سے بچانے کے لیے ایک انتظامی مزاحمت کا حصہ ہیں۔

پاکستان میں عمران خان حکومت کے وزیرریلوے شیخ رشید احمد کی جانب سے ریلوے کے سینئرافسرکوشٹ اپ کہنے پر ’یوشٹ اپ‘ کا جواب ملنا،
ڈی سی چکوال کی جانب سے سرکاری امور میں سیاسی مداخلت پر تحریک انصاف کے ایم این اے ذوالفقار علی خان کیخلاف چیف سیکرٹری کو خط اورراجن پورکے ڈی سی کی جانب سے ایم این اے سردار نصر اللہ دریشک کی تقرریوں وتبادلوں میں مداخلت کیخلاف مراسلہ بھی عندیہ دے رہا ہے کہ پاکستان کی افسرشاہی میں پی ٹی آئی کیخلاف مزاحمتی رویہ پروان چڑھ رہا ہے۔
صدربننے کے باوجود ٹرمپ کا میڈیا سے رویہ بدلا نہ ہی وزیراعظم بن کرعمران خان کے تنقید کرنے والے صحافیوں کے ساتھ رویے میں کوئی تبدیلی آئی۔ دونوں ہی آج بھی تنقید پر ہتھے سے اکھڑ جاتے اور صحافیوں کے لتے لیتے ہیں۔

ایک ہی جیسے چہرے مہرے، لہجے، قدکاٹھ اوراندازکے جڑواں بھائیوں میں بھی کچھ چیزیں بہرحال مختلف بھی ہوتی ہیں امریکی صدر ٹرمپ کا حکومت سنبھالتے ہی پہلا ٹاکرا عدلیہ اوراسٹیبلشمنٹ کے ساتھ ہوا لیکن پاکستان میں صورتحال بالکل برعکس ہے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).