گلگت بلتستان میں اعلیٰ افسروں کے لئے تاحیات مراعات کا کڑوا فیصلہ


عوام میں غیر مقبول فیصلے ہمیشہ چھپ کے کئے جاتے ہیں، تاکہ عوام کا ردعمل سامنے نہ آسکے لیکن باوجود اس کے ،ساری دنیامان چکی ہے، کہ جدید دور میں معلومات کو صرف چند لمحات کے لئے ہی دبایا جاسکتا ہے جلد یا بدیر ایسے فیصلے عوام تک پہنچ ہی جاتے ہیں۔ گلگت بلتستان حکومت نے بھی ایک ایسافیصلہ شاید رات کی تاریکی میں ہی کردیا ہے کیونکہ اب تک جتنے بھی کابینہ اجلاس ہوئے ہیں ان کے بعد صحافیوں کو باقاعدہ بریفنگ دی گئی ہے ، جن میں کابینہ اجلاس میں منظور ہونے والے تمام فیصلے سامنے لائے جاتے ہیں اس کے باوجود اب تک یہ فیصلہ حکومت گلگت بلتستان نے عوام کے سامنے نہیں لایا ہے اور نہ ہی کسی کابینہ اجلاس کی پریس بریفنگ میں اس قسم کا موضوع سامنے آیا ہے ۔

حکومت گلگت بلتستان میں چیف سیکریٹریز کے لئے ملنے والے مراعات کے نوٹیفکیشن کو تبدیل کرکے تاحیات مراعات کی منظوری دیدی ہے ۔ چیف سیکریٹریز کے لئے اس سے قبل بھی مراعات موجود تھیں لیکن تاحیات مراعات نہیں تھیں۔ 2013 میں اس عہدے پر آنے والے آفیسران کے لئے معمول کے مراعات کی منظوری دی گئی تھی لیکن مسلم لیگ ن کی صوبائی حکومت نے اس میں تبدیلی کرکے تاحیات مراعات کی منظوری دیدی ہے اور وہ بھی صرف حاضر سروس چیف سیکریٹریز کے لئے نہیں بلکہ 2009 سے اب تک جتنے بھی چیف سیکریٹریز گزرے ہیں ان سب کے لئے مراعات ۔ گیسٹ ہاﺅسز، ریسٹ ہاﺅسز، سرکٹ ہاﺅسز میں مفت وی آئی پی سہولیات ، سیکیورٹی ، گن مین اور ڈرائیورکی ہر وقت موجودگی ، اسلام آباد اور گلگت بلتستان کے مابین تمام سفری اخراجات ، باقاعدہ پروٹوکول ، پک اینڈ ڈراپ ۔ گلگت بلتستان ہاﺅس اسلام آباد میں قیام کے دوران گاڑی اور سٹاف ان کے احکامات پر لبیک کے لئے ہر وقت تیار ۔ گلگت بلتستان کی حکومت اور وزیراعلیٰ گلگت بلتستان ابتدائی ایام اور دو سال تک قوم میں مثبت تبدیلی لانے اور قومی بیانیہ کی تشکیل کے لئے کام کررہے تھے ، اور ان کا اپنا بیانیہ تھا کہ ہمیں اپنے پاﺅں پر کھڑے ہونے کے لئے ، اپنی شناخت حاصل کرنے کے لئے اور قومی سطح پر اپنی پہچان بنانے کے لئے ‘کڑوے فیصلے ‘ کرنے ہونگے۔ وزیراعلیٰ گلگت بلتستان جگہ جگہ اس بات کی ترویج اور تبلیغ کرتے رہے کہ ‘کڑوے فیصلوں’ کے بغیر ہم اپنے اہداف کے حصول میں ناکام ہونگے ۔ ‘کڑوے فیصلوں کے خلاف عوامی یا سماجی سطح پر کسی بھی حلقے سے رکاوٹ میرے علم میں نہیں اور صوبائی حکومت کے پاس وقت بھی تھا کہ کڑوے فیصلے کرلیتے اور ان پر عملدرآمد کراتے۔ دو سالوں تک کڑوے فیصلے اخباری بیانات تک محدود رہے اور سرکاری و دفتر ی سطح پر اس حوالے سے کسی قسم کی لب کشاہی یا قلم کی جنبش عمل میں نہیں لائی گئی ۔

گلگت بلتستان حکومت کی مضبوطی کا اسے خود علم ہے کہ آسان فیصلے کرنے کے لیئے بھی صرف تین سال ہوتے ہیں، اب تین سالوں میں بھی آسان فیصلے اگر نہیں ہوئے تو مشکل فیصلوں کے لئے اگلے دو سالوں کا انتخاب انتہائی احمقانہ فعل ہے ۔ دو سالوں تک ‘کڑوے فیصلوں’ کی ترویج کے بعد کیسے فیصلے کئے گئے ہیں غور کیجئے کہ چیف سیکریٹریز کو تاحیات مراعات کی منظوری ، ڈیڑھ ارب روپے مالیت کے لگژری گاڑیاں، سالانہ ایک ارب کے قریب رقم سے صرف پٹرول، ڈیزل اور گاڑیوں کی مرمت ، وزرائ، ممبران اور دیگر حکومتی عہدیداروں کے تنخواہوں میں تین سو فیصد اضافہ، ماضی کی حکومت کے مقابلے میں 8 غیر منتخب افراد کا اضافہ وہ بھی تین گنا اضافی تنخواہ و مراعات کے ساتھ۔ گلگت بلتستان حکومت بھی عجیب ہے جب ان سے کسی معاملے پر سوال اٹھائے تو جواب اعداد و شمار میں آتا ہے جیسے کہ برجیس طاہر گورنر رہنا کیوں ضروری تھا؟ جی اس کی وجہ سے سالانہ کئی لاکھ روپے کی بچت ہورہی ہے کیونکہ اسلام آباد میں وہ اپنی ہی دفتر اور رہائش گاہ کو استعمال کرتے ہیں۔

اسی طرح گلگت بلتستان حکومت نے انتہائی ‘بولڈ’ فیصلہ کرکے سپریم اپیلٹ کورٹ جی بی کے چیف جسٹس کے لئے پنشن و مراعات کا خاتمہ کردیا اور کہا کہ گلگت بلتستان آرڈر2018مالی فوائد کے پیش نظر لاگو کردیا ہے ، جس میں سب سے زیادہ چیف جسٹس ہی متاثر نظر آئے جس پر انہوں نے اپنے اختیارات سے بھی تجاوز کرکے حکم امتناعی جاری کیا بعد ازاں نئے آرڈر کو بھی منسوخ کردیا اور علاقے میں آئینی بحران کی کیفیت پیدا کردی ، اس دوران ہمدردی یقینا نئے جی بی آرڈر اور صوبائی حکومت کے ساتھ تھی کیونکہ سب کو نظر آرہا تھا کہ چیف جسٹس سپریم اپیلٹ کورٹ نے اپنے ذاتی مالی مفادات کی خاطر اس کہانی کو اپنی ٹیبل پر سجایا ہے۔ اب جب علاقے کے پیسے بچانے کے لئے اس حد تک کسی ادارے سے ٹکرانے کی صلاحیت موجود ہے تو سابق چیف سیکریٹریز کے نام پر کروڑوں بلکہ اربوں روپے ضائع کرنے کی کیا ضرورت ہے ؟ اگر یہی کڑوے فیصلے ہیں تو اس سے نہ کسی قسم کی مثبت تبدیلی آسکتی ہے اور نہ ہی علاقے کے مفاد میں کوئی قدم اٹھایا جاسکتا ہے؟

چیف سیکریٹریز کے لئے اربوں روپے کا مالیاتی پیکج کی منظوری نے ایک بار پھر صادق اور امین کی بحث کو بھی چھیڑدیا ہے ۔ اگر چیف سیکریٹریز کے لئے مراعات کی منظوری کابینہ نے دی تھی تو کابینہ اجلاس کی پریس بریفنگ کے دوران اب تک یہ کہانی سامنے کیوں نہیں لائی جاسکی ؟ اگر کابینہ نے منظوری دی ہے اور اجلاس پر بریفنگ دینے والوں نے اس کو چھپایا ہے تو کیا ان پر صداقت اور امانت کا سوال نہیں اٹھ سکتا ہے ؟ اگر اٹھ سکتا ہے کوئی ایساادارہ ہے جو نوٹس لے سکے ۔

اس سے قبل بھی لکھا جاچکا ہے کہ فیصلے کرنے کا وقت دیکھنا کم از کم گلگت بلتستان حکومت کی مجبوری ہے کیونکہ اس حکومت کے سر پر صرف تین سال کے لئے والدین کا سایہ ہوتا ہے اور دو سال یتیمی کی زندگی گزارنا پڑتا ہے ۔ اب یتیمی کے دوران ہجوم سے ٹکرانا سراسر بیوقوفی نہیں تو اور کیا ہے ؟ وزیراعلیٰ گلگت بلتستان نے دورہ سکردو میں بھی ہجوم سے ٹکرانے کی کوشش کرتے ہوئے چھومک ہوتو تنگ و دیگر علاقوں کے بارے میں بیان جاری کیا کہ یہ ‘خالصہ سرکار زمینیں ہیں’ ، وہی پر وزیراعلیٰ نے اہلیان بلتستان کو کچھ نصیحتیں بھی کیں کہ حق ملکیت کی باتیں کرنے والے بڑے منصوبوں کو روکنا چاہتے ہیں لہٰذا تعصبات سے بالاتر ہوکر خطے کے مفادات کو دیکھا جائے ۔ گزشتہ تین سالوں میں لینڈ ریفارم کمیشن نامی مردہ گوڑھے کا بار بار زکر کیا جاتارہا لیکن اس پرروح نہیں پھونکی جاسکی ۔ اب پھر ہوامیں تیر چلانے کی کوشش کی جارہی ہے کہ تین ماہ میں اس کمیشن کی رپورٹ سامنے آئے گی ۔ اگر لینڈ ریفارم کمیشن کی رپورٹ اب سامنے آتی ہے تو اس پر شدید مزاحمت کا سامنا کرنا پڑے گا اب تو صرف بقاءکی جنگ رہ چکی ہے حکومت کرنے کا وقت گزرچکا ہے ۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).