حیاتیاتی تنوع اور فکری رنگا رنگی ہی زندگی کی ضمانت ہے


یلو سٹون نیشنل پارک نہ صرف امریکا کا قدرتی وسائل کے تحفظ کا سب سے پرانا علاقہ ہے بلکہ اس کو دنیا کا سب سے قدیم نیشنل پارک ہونے کا اعزاز بھی حاصل ہے۔ درحقیقت کسی خاص علاقے کو محفوظ کر کے وہاں کے قدرتی وسائل کو تحفظ دے کر اس کو تحقیقی، تفریحی اور تعلیمی مقاصد کے لیے استعمال کرنے کی کاوش کی ابتدا بھی یلو سٹون نیشنل پارک کے 1878ء میں کے قیام کے بعد ہی ہوئی۔ دنیا میں اب کرہ ارض کا ایک خاصہ تناسب ہے جو ایسے مقاصد کے لیے محفوظ کیا گیا ہے۔

اس نیشنل پارک اور اس کے حدود میں موجود حیاتی تنوع کو محفوظ کرنے کی کوشش کی گئی ہے جس میں یہاں کے پہاڑی بکرے، ہرن، امریکی بھینسے (امریکن بائسن)، ریچھ سمیت کئی چرند، پرند اور درند کی اقسام ہیں۔ اس نیشنل پارک میں جنگلی حیات کے قدرتی ماحول میں نظارہ کرنے، یہاں سیر و تفریح کرنے اور سائنسی اور تحقیقی مطالعہ کرنے کے لیے دنیا بھر سے آنے والوں کی اتنی بھیڑ لگی رہتی ہے کہ داخلہ فیس کی رقم سے ہی نہ صرف اس پارک کے اپنے اخراجات پورے ہوتے ہیں بلکہ وہ امریکا کی قومی آمدنی کا بھی ایک اہم ذریعہ بن چکا ہے۔

1878ء میں اس پارک کے قیام کے بعد سے ہی حکام کو تشویش لاحق تھی کہ ہر طریقے سے تحفظ حاصل ہونے کے باوجود بھی یہاں جنگلی حیات کی نمو میں مثبت فرق نہیں پڑا کیونکہ کچھ جانور بہت زیادہ ہوجاتے ہیں اور کچھ جانور انتہائی کم ہونے کے علاوہ لاغر اور جسمانی طور پر تندرست بھی نہیں ہوتے۔ حکام کو پریشانی لاحق ہو گئی کہ جنگلی بھینسے اور ہرنوں کی تعداد بہت زیادہ ہوگئی مگر دریاؤں میں بند باندھ کر بید اگانے والا بیور غائب ہوگیا ہے۔

دہائیوں کے مشاہدے اور تحقیق کے بعد ماہرین اس نتیجے پر پہنچے کہ اس نیشنل پارک کی حدود میں کوئی ایسا جانور نہیں جو خوراک کے قدرتی زنجیر کی سب سے اوپر والی کڑی پر بیٹھا دوسرے جانورں کا شکار کرتا ہو اور جس کی وجہ سے خوراک تقسیم کرنے کا فطری عمل جاری رہتا ہے۔

پتہ یہ چلا کہ یہاں کبھی بھیڑیا ہوا کرتا تھا مگر انسانوں نے اس قدر نسل کشی کی کہ وہ نا پید ہو گیا۔ بھیڑیے کی غیر موجودگی میں چرندوں خاص طور پر جنگلی بھینسوں اور ہرن کی تعداد بے تحاشہ بڑھ جاتی ہے جو یہاں خوراک کا بڑا حصہ کھا جاتے ہیں جس کی وجہ سے دوسرے چرند خاص طور پر بیور یہاں سے غائب ہو گئے۔ اس حقیقت کے افشا ہونے کے بعد حکام نے یہاں بھیڑیوں کی دوبارہ افزائش پر کام شروع کیا جو ابھی تک جاری ہے۔

بھیڑیوں کی دوبارہ افزائش بھی انتہائی کھٹن کام ثابت ہوا کیونکہ پنجرے میں پیدا ہونے والے بھیڑیے کے بچے جنگل کے قدرتی ماحول میں اپنی خوراک پیدا کرنے میں ناکام رہتے تھے۔ جس طرح بنگال میں پنجرے سے جنگل میں چھوڑے گئے شیر وں کو آوارہ کتے کھا گئے تھے اسی طرح یہاں بھی پنجروں میں پیدا ہونے والے بھیڑیے کے بچے ریچھ اور جنگلی بھینسوں کا مقابلہ نہیں کرسکے۔ کئی سالوں کی کوششوں کے بعد اب کہیں جاکر یہاں بھیڑیوں کی ایک خاصی تعداد مستحکم ہو پائی ہے جس کے بعد اب یہاں سے غائب ہوئے جانور خاص طور پر بیور پھر سے نمودار ہوگئے ہیں۔

کچھ ایسا ہی یورپ سے براعظم امریکا، آسٹریلیا اور نیوزی لینڈ پہنچنے والے لوگوں نے مقامی آبادی کے ساتھ بھی کیا تھا۔ نئے مفتوح علاقوں میں مقامی لوگوں کی نسل کشی کی گئی جس کے نتیجے میں علم و دانش کا وہ سلسلہ ٹوٹ گیا جو یہاں کی تہازیب کا ورثہ تھا۔ اہل یورپ نے اپنی زبان اور ثقافت کو فروغ دیا اور مقامی زبانوں اور تمدن کو مسمار کرد یا۔ براعظم ہائے امریکا میں رہنے والے انسانوں کے ماضی، علم و دانش، عقائد و مذاہب کے بارے میں آگاہی بہت کم ہے کیونکہ وہاں اب مشرق وسطیٰ یعنی بابل اور مصر کی تہازیب سے اٹھی مذاہب، عقائد اور علم و فن کا راج ہے۔ ہزاروں سال سے یہاں بسنے والے لوگوں کے علم و حکمت، فہم و فراست کو محفوظ کرنے کی ضرورت اب محسوس تو کی گئی مگر بہت دیر ہوچکی ہے۔

ہزاروں سال قبل یورپ کے آریاؤں کا ہندوستان پہنچنے سے پہلے یہاں بھی لوگ رہتے تھے جو گنتی جانتے تھے اور پہیہ کے استعمال سے بھی آشنا تھے۔ نئے آنے والے آریاؤں نے نہ صرف اپنا دھرم نافذ کیا بلکہ مقامی لوگوں کو اچھوت اور شودر کا درجہ دے کر ان سے جینے کا حق بھی چھین لیا۔ ہندوستان کے مقامی لوگوں کے علمی ورثے اور فکری میراث کو نیچ قرار دے کر اس کو پنپنے کا موقع نہیں دیا۔ جب دنیا کو معلوم ہوا کہ ہندوستان جہالت کی نہیں بلکہ علم و دانش کی سر زمین رہی ہے تو بہت دیر ہو چکی تھی۔ اب تو یورپ سے آئی قدیم آریائی تہذیب اور ہندوستان کی اپنی میراث میں فرق کرنا بھی مشکل ہوگیا ہے۔ ہم جس ہندوستان کی بات کرتے ہیں وہ مغرب سے آئے تصور مذہب سے قبل کا وہ معاشرہ ہے جو فکری آزادی کا مسکن تھا جس کا تسلسل قائم نہ رہ سکا۔ مذاہب اور عقائد کی تنگ نظری اور بطور ریاستی ہتھیار اس کی چیرہ دستیوں سے فرار اختیار کر کے دنیا اب جس فکری آزادی کی بات کرتی ہے وہ ہزاروں سال پہلے ہندوستان میں موجود تھی مگر وہ مفقود ہوچکی ہے۔ جس طرح قدرتی طور پر خوراک کی زنجیر میں ہر سطح پر تمام کردار ضروری ہیں اسی طرح انسانی معاشرے میں بھی ہر تہذیب، ثقافت اور تمدن کا کردار اہم ہے۔ اگر کہیں گنتی کرنا سکھایا گیا، کہیں حروف ضبط تحریر میں لانے کی ترکیب ایجاد کی گئی تو کہیں کاغذ ایجاد کر کے علم و دانش کے دریا کا بہاؤ جاری و ساری رکھا گیا۔ یہ کسی ایک تمدن اور تہذیب کا ورثہ نہیں بلکہ تمام انسانی تہذیبوں اور تمدنوں کا مشترکہ میراث ہے کہ انسان نے سمندر کہ گہرائیوں اور خلا کی وسعتوں کو مسخر کرنا شروع کیا ہے۔ اگر علم و دانش کے اس میراث میں سے کسی ایک تہذیب یاتمدن کا ورثہ نکال دیا جائے تو شائد ترقی کا دائرہ ادھورا رہ جائے۔

انسانی معاشرے کی بقا اور ترقی کے سفر کے لیے لازم ہے کہ اس میں تنوع موجود رہے اور تغیر کا عمل جاری رہے۔ اس گونا گونی کے لیے ایک دوسرے کو برداشت کرنا اور ترقی کے لیے وقت کے تقاضوں کے مطابق تبدیلی اور اس کی قبولیت لازمی ہے۔ اگر تغیر اور تکثیریت کو روکنے کی کوشش کی گئی تو معاشرہ گھٹن کا شکار ہوگا۔ بالکل اسی طرح جیسے بہتے پانی کے بہاؤ کو روکنے سے وہ زہریلا ہوجاتا ہے اس میں زندگی مفقود ہو جاتی ہے۔

علی احمد جان

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

علی احمد جان

علی احمد جان سماجی ترقی اور ماحولیات کے شعبے سے منسلک ہیں۔ گھومنے پھرنے کے شوقین ہیں، کو ہ نوردی سے بھی شغف ہے، لوگوں سے مل کر ہمیشہ خوش ہوتے ہیں اور کہتے ہیں کہ ہر شخص ایک کتاب ہے۔ بلا سوچے لکھتے ہیں کیونکہ جو سوچتے ہیں, وہ لکھ نہیں سکتے۔

ali-ahmad-jan has 278 posts and counting.See all posts by ali-ahmad-jan