میں‌ یونیٹیرین چرچ کی وائس پریزیڈنٹ کیسے بن گئی؟


کچھ مہینے پہلے الیکشن ہوئے اور یونیٹیرین چرچ میں‌ مجھے وائس پریزیڈنٹ چن لیا گیا۔ یہ میرا ایک لوکل آرگنائزیشن میں‌ لیڈرشپ کا پہلا موقع ہے اور میں‌ ابھی اس جاب کو سیکھنے اور سمجھنے کی کوشش کررہی ہوں۔ میں‌ یہاں‌ تک کیسے پہنچی؟ ہوسکتا ہے کہ یہ کہانی سن کر اور لوگوں‌ کو، خاص کر خواتین کو اپنی لوکل کمیونیٹیز میں‌ نیٹ ورکنگ سے متعلق معلومات حاصل ہوں۔

 2010 میں‌ اینڈوکرنالوجی کی فیلوشپ ختم کرنے کے بعد جب میں‌ نے نارمن ریجنل میں‌ ڈاکٹر فیم کی پریکٹس جؤائن کی تو ذیابیطس کی ایجوکیشن کے ڈپارٹمنٹ نے مجھ سے اگلی کانفرنس میں‌ لیکچر دینے کی درخواست کی۔ کتنے لوگ آئیں‌ گے؟ میں‌ نے ان سے پوچھا۔ یہی کوئی 150! ڈیڑھ سو او کیز یعنی اوکلاہوما کے لوگ۔ یہ کہتے ہوئے میرے ہونٹ سکڑ گئے اور میرے منہ سے سیٹی نکل گئی۔ مزاحیہ بات ہے کہ ویسے مجھے سیٹی بجانا آتی بھی نہیں‌ ہے۔ اس سے پہلے اتنے سارے لوگوں‌ کے سامنے کوئی لیکچر نہیں‌ دیا تھا۔ ریزیڈنسی یا فیلوشپ میں‌ چھوٹا سا ہی گروپ ہوتا ہے جس کے سامنے کیس یا گرینڈ راؤنڈ پیش کریں۔

جیسا کہ ہم جانتے ہیں‌ دنیا کے لوگ سب سے زیادہ پبلک اسپیکنگ سے ڈرتے ہیں۔ اس کے بعد موت سے ڈرتے ہیں۔ یعنی کہ اگر ہم ایک جنازے میں‌ جائیں‌ جہاں‌ ایک لاش تابوت میں‌ رکھی ہو اور پادری تقریر کررہا ہو تو لوگ اس بات کو ترجیح‌ دیں‌ گے کہ تابوت میں‌ لیٹے ہوں۔ ایک قول ہے کہ “موقع کام کی طرح‌ دکھائی دیتا ہے!’ میں‌ نے یہ لیکچر دینے کی حامی بھر لی۔ ابھی اس میں‌ ایک دو مہینے باقی تھے۔ میں‌ نے فیلوشپ کے دوران بنائی ہوئی ایک پریزینٹیشن دینے کا پروگرام بنایا۔ یہ ذیابیطس کے مریضوں‌ میں‌ کولیسٹرول کی بیماری اور اس کی دواؤں کےبارے میں‌ تھی۔ اس کے بارے میں میرے ذہن میں‌ کئی سوال تھے جن میں سے سب سے اہم یہ تھا کہ کیا یہ لیکچر عام افراد سمجھ سکتے ہیں جن کا میڈیکل کا بیک گراؤنڈ نہ ہو؟

اس وقت مجھے ٹوسٹ ماسٹرز آرگنائزیشن کا خیال آیا جن کے بارے میں‌ کچھ سال پہلے سنا تھا۔ میں نےگوگل سرچ سے ڈھونڈا کہ نارمن میں‌ یہ لوگ کہاں‌ ہیں؟ نارمن میں‌ تین ٹوسٹ ماسٹرز گروپ تھے جو مختلف دنوں‌ اور وقتوں‌ پر اکھٹے ہوتے تھے۔ سونر ٹوسٹ ماسٹرز ہر جمعرات کی شام مکفارلن چرچ کی چوتھی منزل پر اکھٹے ہوتے ہیں۔ یہ میرے اسکیجول میں‌ شامل کیا جا سکتا تھا تو میں‌ ایک دن وہاں‌ گئی۔ یہ گروپ مجھے کافی پسند آیا۔ اس میں‌ قانون دان، ٹیچرز، پی ایچ ڈی اسٹوڈنٹس، آرمی کے لوگ، کچھ لکھاری، لائبریرین، اور دیگر شعبوں‌ سے ریٹائرڈ لوگ شامل تھے۔ وہاں‌ میرے کئی لوگ بہت اچھے دوست بن گئے۔ انہوں‌ نے میری پریزینٹیشن سنی اور اچھے مشورے دیے۔

جس دن مجھے یہ لیکچر دینا تھا، میں‌ کافی نروس تھی، ہاتھ بار بار ٹھنڈے پڑ جاتے اور گلا خشک ہوگیا اور بار بار کھانسی ہو رہی تھی۔ میں‌ نے یہ بھی سوچا کہ فون کرکے کینسل کر دوں‌۔ گرتے ہیں شہسوار ہی میدان میں! سوچ کر میں ہمت کر کے گئی۔ لیکچر دینا کچھ اتنا مشکل بھی نہیں تھا۔ ایک لحاظ سے عام انسانوں سے بات کرنا اپنے میڈیکل کولیگز یا پروفیسروں سے بحث کرنے سے زیادہ آسان ہوتا ہے۔ اس بات سے میری کافی ہمت بندھی کہ آڈینس میں‌ کچھ لوگ باقاعدہ سو رہے تھے۔ لیکچر اچھا رہا۔ اس کے آخر میں‌ لوگوں‌ نے اچھے سوال کیے۔ بلکہ جب میں‌ گھر واپس جانے والی تھی تو ایک بوڑھی خاتون نے رک کر مجھے بتایا کہ ان کی پوتی اور میری بیٹی اچھی سہیلیاں‌ ہیں۔

ٹوسٹ ماسٹرز تقریبا دو تین سال جاتی رہی۔ اب بھی جب بھی میرے اسٹوڈنٹس دوسرے ملکوں‌ سے آتے ہیں تو ان کو بھی لے جاتی ہوں۔ یہ ایک کمیونیٹی بیسڈ پروگرام ہے جس کی شاخیں دنیا کے کافی ممالک میں پھیلی ہوئی ہیں۔ اس بات سے کچھ فرق نہیں پڑتا کہ ہم کس فیلڈ میں‌ کام کرتے ہوں، پبلک اسپیکنگ ، کمیونیکیشن، اور لیڈرشپ اسکلز ہمیں اپنا کام بہتر طریقے سے کرنے میں مدد دیتے ہیں۔ میں‌ نے ٹوسٹ ماسٹرز سے کافی سیکھا ہے اور وہاں‌ سیکھے ہوئے سبق آج بھی استعمال کرتی ہوں۔ ٹوسٹ ماسٹرز جاتی رہی تو مسٹر ہال اسپیک سے دوستی ہوگئی۔ وہ اب ریٹائرڈ ہیں لیکن ان کی تقاریر سے میں‌ ہمیشہ متاثر ہوتی تھی جن میں‌ ان کا مطالعہ اور ذہانت جھلکتے تھے۔ خاص طورپر ان کے دنیا کے مختلف ممالک میں‌ موجود امریکی ایمبیسیوں‌ میں‌ کام کرنے کے دوران پیش آئے ہوئے واقعات کافی دلچسپ لگتے تھے۔

ہال اسپیک سے مجھے معلوم ہوا کہ وہ نارمن کے یونیٹیرین چرچ کے پریزیڈنٹ ہیں اور وہاں ہر اتوار کی صبح 10 بجے بک کلب ہوتا ہے جس میں‌ وہ لوگ مختلف کتابیں‌ پڑھتے ہیں۔ میں‌ نے وہاں‌ جانا شروع کیا۔ پہلی کتاب جو مجھے یاد ہے وہ رضا اسلان کی لکھی ہوئی زیلٹ تھی۔ اس بک کلب میں جا کر مجھے بہت اچھا لگا۔ سارے ممبر مختلف مذہبی اور ملکی پس منظر سے تعلق رکھتے تھے، وہ اعلیٰ‌ تعلیم یافتہ تھے اور کوئی بھی سوال پوچھا جاسکتا تھا اور کوئی بھی اعتراض اٹھایا جا سکتا تھا اور تنقید کی جا سکتی تھی۔ الفاظ کے ذریعے اختلاف رائے بھی مہذب انداز میں‌ پیش کرنا ہمارے بک کلب کی سب سے بہترین کوالٹی ہے۔

کلاس ختم ہونے کے بعد میں‌ گھر چلی جاتی تھی۔ ایک اتوار کو میں‌ نے سوچا کہ آج ٹھہر کر چرچ کا سرمن سنتی ہوں۔ یہ کیسا سرمن تھا؟ نہ غصے میں‌ آگ بگولا پاسٹر، نہ نفرت، نہ دنیا کے لوگوں‌ کے لیے بدترین فیصلے! خواتین اور مرد ممبران ہی لیکچر دے رہے تھے۔ دو چار اتواروں‌ میں‌ مجھے پتا چل گیا کہ یہ میرا گروہ ہے۔ ایک لیکچر فیوڈلزم، کیپیٹلزم اور بادشاہت کے بارے میں‌ تھا، دوسرا امریکہ میں‌ امیراور غریب کی تقسیم، تیسرا اوکلاہوما میں‌ جیل میں‌ بند خواتین کی تشویش کن صورت حال کے بارے میں‌ اور چوتھے اتوار میں باور پرندے کی بایولوجی اور رویہ ڈسکس کیا گیا۔ مجھے یہ بہت دلچسپ لگا کہ باور چڑا گھر سجاتا ہے اور باور چڑیاں ان گھروں‌ کو دیکھتی ہیں اور جو گھر ان کو سب سے زیادہ پسند آئے اس میں‌ چلی جاتی ہیں۔ اس دن سے لے کر آج تک میں‌ ہر اتوار کو کچھ نیا سیکھا ہے۔ دنیا میں‌ ایسے بھی ادارے ہیں جہاں پانچ سال میں‌ ایک مرتبہ جانا کافی ہے۔ جو پچھلے سال کہہ رہے تھے وہی آج بھی دہرا رہے ہیں۔ اس طرح ہم پیچھے رہ جائیں گے۔ آج کل ہم سدھارتا مکھرجی کی ایمپیرر آف آل میلاڈیز پڑھ رہے ہیں۔

چاہے ماحولیات کی تبدیلی ہو، تیل کی کمپنیوں‌ کا لالچ، انسانی حقوق کا استحصال یا ٹرمپ کے تباہ کن فیصلے، ان سالوں‌ میں‌ یونیٹیرین ہمیشہ درست سمت دکھائی دیئے۔ پہلے مجھ سے ایک بورڈ ممبر نے پوچھا تھا کہ بورڈ ممبر بننے کے لیے الیکشن میں‌ حصہ لیں۔ میں‌ نے حامی بھری۔ دو دن بعد اس نے میسج کیا کہ بورڈ ممبر بننے کے لیے کئی امیدوار ہیں لیکن وائس پریزیڈنٹ بننے کے لیے صرف ایک صاحب ہیں۔ اس لیے آپ وائس پریزیڈنٹ بننے کی امیدوار بن جائیں تاکہ کچھ تو مقابلہ ہو۔ یہ الیکشن سے صرف بمشکل ایک یا دو ہفتے پہلے کی بات ہے۔ جس دن الیکشن ہوا، میرا نام پکارا گیا اور سب لوگ تالیاں بجانے لگے تو میں نے حیرانی سے سر گھما کر سب کو دیکھا۔ کچھ بک کلب کے ممبرز ہیں، کچھ ٹوسٹ ماسٹرز کے اور کچھ لکھاریوں‌ کے گروپ کے۔ کچھ خود میرے مریض‌ تھے، کچھ کے بچے یا دیگر فیملی ممبرز۔ انہوں‌ نے میرے ووٹ مانگے بغیر مجھے اپنا لیڈر بنالیا تھا۔ اصل کام تو اب شروع ہوا! اتوار کی چھٹیاں ختم! With great power comes great responsibility.


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).