محترم عمار مسعود کا جیل کی دنیا میں پہلا قدم!


عمار مسعود صاحب نے بڑے ہی دکھ سے اپنے ساتھیوں کے ساتھ جیل میں نواز شریف سے ملاقات کی تفصیل بیان کی ہے۔ کہ وہ کتنا پیدل چلے پھر کہاں ان کا اور ان کے ساتھیوں کا موبائل جمع ہوئے، رجسٹر میں اندراج اور اس کے بعد دھوپ میں انتظار کرنا پڑا پھر پرچی اندر گئی اور وہ ایک انتظار گاہ میں ایک مریل پنکھے کے نیچے کرسیوں پر بیٹھ گئے۔ سوال یہ ہے کہ تین بار وزیر اعظم بنے والے نواز شریف صاحب جیل ریفارم کی طرف اتنی سی بھی توجہ نہ دے سکے کہ نئے پنکھے ہی لگوا دیتے؟ جب کہ حال ہی میں نہال ہاشمی اڈیالہ جیل میں ن لیگ کے دور میں ہی ماہ گزار کے آئے ہیں۔

صحافی ٹولہ پسینہ پونچھتے نواز شریف کی راہ دیکھتے رہے، پھر ایک اے سی روم میں مریم، کیپٹن صفدر اور نوز شریف سے ملاقات کے چند منٹ ملے، سب ملنے والے دکھ اور درد میں ڈوبے اپنے لیڈر کی طرف دیکھتے رہے اور وہ تینوں صرف دعا کا کہتے رہے، پورا وقت سپاہی ستاتا رہا اور وقت بتاتا رہا اور یوں تیس منٹ ختم ہو گئے۔ جب ٹولہ باہر آیا تو موبائل واپسی کے وقت سپاہی نے بھی دعا کے لیے کہا اور پھر سب دھوپ میں جلتے جیل سے باہر آئے۔

آئیں میں آپ کو جیل کی سیر کا اصلی احوال سناتی ہوں۔

میں نے اپنے کام کا آغاز ہی جیل سے کیا۔ پانچ سال قبل میں پہلی بار جیل گئی، ہمیں کراچی سینٹرل جیل کے بچوں کے حصے میں بیرکوں میں جا کے بچوں سے باتیں کرنا تھیں کھیلنا تھا۔ ہماری ٹیم صبح سویرے ہی جیل پہنچ گئی سب کچھ پہلے سے طے شدہ تھا پھر بھی ہمیں دو گھنٹے دھوپ میں انتظار کروایا گیا اور تین گھنٹے کی ٹریننگ ایک گھنٹے میں ہی لپیٹ دی گئی۔

دوسری بار اکتوبر دو ہزار سولہ سے آج تک۔ جیل میں ملاقاتیوں کی تین اقسام ہوتی تھیں لیکن اب کچھ عرصہ سے صرف دو اقسام ہیں، آپ تو بہت خوش نصیب ہیں کہ تیسری قسم یعنی ” ماڑی ملاقات ” کر آئے۔ جیل میں بی کلاس اور سی کلاس دو کیٹیگریز ہوتی ہیں۔ جو تعلیم کے حساب سے ہیں یعنی گریجویٹ بی کلاس اور کم تعلیم یافتہ سی کلاس۔

سارے ملاقاتی دھوپ میں ہی چلتے ہیں تقریباً آدھا کلو میٹر جیسے آپ چلے پھر لائن میں لگتے ہیں سی کلاس کے ہوئے تو لسٹ میں نام گیا۔ بی کے ہوے تو فارم جمع ہوا۔ سی کلاس میں آنے والے عام طور پر غریب غربا ہوتے ہیں سارے ہفتے پیسے جمع کرنے کے بعد وہ کچھ اچھا کھانا بنا کہ اپنے عزیز سے ملاقات کے لیے آ پاتے ہیں۔ ہر جگہ لائن میں لگتے پسینہ پونچھتے گرمی میں جلتے۔ بی کلاس والے بھی اسی طرح ذلیل ہوتے ہیں بس ان کو بات کرنے کے لیے کیوبکل میں جگہ ملتی ہے جہاں بیٹھ کر بات کی جاتی ہے شیشے کی موٹی اور گندی دیوار قیدی اور ملاقاتیوں کے درمیان کھڑی ہوتی ہے ۔

بیس سے پچیس منٹ ایک دوسرے کو حسرت سے دیکھتے ہیں کچھ باتیں کرنے کی کوشش کرتے حلق میں آنسوؤں کو گھونٹتے باہر آ جاتے ہیں۔ صرف ایک بات کا شکر ادا کرتے کہ جیل میں ہے لیکن زندہ ہے یہی خدا کا شکر ہے۔ باہر آ کے کھانا جمع کروانے کی لائن میں لگتے ہیں اور پھر دکھی دل کے ساتھ واپسی کا سفر اختیار کرتے ہیں۔ دو گھنٹے کے اس مشن میں بمشکل آدھ گھنٹہ ملاقات ہو پاتی ہے۔

امید ہے اب آپ کو جیل کا اصلی ذائقہ پتا چل گیا ہو گا۔

ایک اہم بات تو بتانا ہی بھول گئی، اگلی بار جب آپ جیل جانے لگیں تو موبائل گاڑی میں ہی رہنے دیجئے گا اور ایک ہزار کے کھلے کروا کہ رکھ لیجئے گا، دروازے پے دربان کو سو روپے دیں گے تو گاڑی اندر ہی لگوا دے گا، پھر اسی طرح سب کو سو سو روپے تھماتے جائیں ملاقات بھی 45 منٹ کی ہو جائے گی۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).