نیروبی، اچولا صاحب اور جوش ملیح آبادی


اگست 1998 میں ایک سرکاری کام سے کراچی میں اپنے محکمے کے صدر دفتر جانے کا اتفاق ہوا۔ ایک کمرے میں یہ مسئلہ زیر بحث تھا کہ نیروبی کا لوکل اسٹیشن مینیجر Mr. Ochola ایک ماہ کی چھٹی پر جانا چاہتا ہے مگر پاکستانی عملے میں سے کوئی بھی وہاں ریلیو (ان کی جگہ) پر جانے کو تیار نہیں۔ کیوں کہ وہاں لا اینڈ آرڈر کی حالت ہمیشہ سے بہت مخدوش ہے اور جان سب کو پیاری ہے۔ آپ کا یہ خادم نجی دورے پر 1975 میں نیروبی جا چکا تھا اس لیے جب اپنا نام تجویر کیا تو سب لوگ گردنیں موڑ موڑ کر ہمیں یوں قابل رحم نظروں سے دیکھنے لگے گویا ہم گردن کٹانے جا رہے ہیں۔

کسی نے کہا، ماشاللہ جوان رعنا ہو، کیوں اپنے پیچھے پڑے ہو، کسی نے کہا کہ ابھی تمہیں اپنے بچوں کی شادیاں کرنی ہیں کیوں انہیں یتیم کیے جاتے ہو۔ غرض جتنے منہ اتنے طنز و تشنیع مگر ہم اپنی بات پر اڑے رہے۔ کیوں ہمیں وہ شہر واقعی بہت پسند آیا تھا۔ اور اب ہم نئے سرے سے اسے دیکھنے کے خواہش مند تھے۔ ساتھ ہی یہ تجسس بھی تھا کہ دیکھیں ان تئیس برس می کتنی تبدیلیاں آئی ہیں (حالانکہ وہاں تو کوئی عمران خان بھی نہیں ہے)۔ پھر جب سرکاری خرچ پر یہ سیر ہو رہی ہو تو نور علی نور، کیا ہی بات ہے۔

قصہ کوتاہ ایک ہفتے بعد مورخہ 06 ستمبر 1998، کراچی سے عازم نیروبی ہوئے۔ راستے میں بقول حضرت ابن انشا تقریباً دو گھنٹے کے لیے دبئی میں ٹھیکی لی اور وہاں سے اڑان بھر کر سیدھا نیروبی جا اترے۔ اب آپ کہیں گے کہ یہ بندہ کن زمانوں کی بات کرتا ہے، ویزہ وہاں بھی آن ارائیول تھا۔

جہاز سے اترتے ہی ایک موٹے سے صاحب نے استقبال کیا، معلوم ہوا یہی اچولا صاحب ہیں جن کی جگہ ہمیں بھیجا گیا ہے۔ خیر، ان کی معیت میں امیگریشن کسٹم اور ہیلتھ کے مراحل طے کرتے ہوئے باہر نکلے اور آفس میں جا پہنچے۔ یہاں ثریا خان سے ملاقات ہوئی۔ پوٹھوہاری نین نقش والی خوبصورت سی یہ خاتون بھی نیروبی میں ہمارے ادارے کے عملہ میں تھیں، اور اسٹیشن منیجر کی سیکرٹری کے علاوہ ائیرپورٹ کے دیگر متعلقہ امور کی دیکھ بھال پر مامور تھیں۔

کمپیوٹر شروع سے ہی ہماری کمزوری رہا ہے، آفس میں کمپیوٹر دیکھا تو فوراً اس کے آگے جا بیٹھے اور سسٹم سے چھیڑ چھاڑ شروع کر دی تاکہ متعارف ہو سکیں۔ دو تین سوال ثریا سے پوچھے کہ تم لوگ کیسے لاگ ان کرتے ہو، کس آپریٹنگ سسٹم پر کام کرتے ہو، معلوم ہوا وہاں ابھی تک DOS (ونڈوز سے پہلے کا قدیمی کمپیوٹر سسٹم) پر کام ہو رہا ہے۔ ماہرین جانتے ہیں کہ اس سسٹم میں بجائے لمبی کمانڈ بار بار لکھنے کے، آپ اس کا شارٹ کٹ بنا سکتے ہیں، تو ہم نے بیٹھے بیٹھے دو تین شارٹ کٹس بنا دئیے اور بتایا کہ پوری کمانڈ لکھنے کی بجائے اب آپ صرف Suraya لکھیں گی تو بھی کام بن جائے گا۔ وہ حسب توقع دنگ رہ گئیں کہ آپ تو کمپیوٹر کے ماہر ہیں۔ پھر جب اچولا صاحب اسی پرواز کو جس سے ہم آئے تھے، آگے بھیج کر دفتر آئے تو انہیں بڑے زور شور سے بتایا کہ جمال صاحب تو بہت Competent ہیں اور کمپیوٹر کے ماسٹر ہیں۔

اس بیچارے کا کمپیوٹری علم واجبی سا تھا، حسب توفیق خاصا متاثر ہوا، سمجھیے ہم نے “گربہ کشتن روز اول” والا کام کر دیا۔

ثریا نے پوچھا کہ آپ ہوٹل میں قیام کریں گے یا دوست کے ہاں، اس پر ہمیں پہلی دفعہ نیروبی آنے کا قصہ یاد آ گیا، آئیے آپ کو فلیش بیک میں لے چلتے ہیں۔ 1975میں ملتان کے اسٹیشن منیجر صاحب کا تبادلہ نیروبی ہوا اور انہوں نے جاتے ہوئے الوداعی دعوت میں سب عملے کو نیروبی آنے کی رسماً دعوت دے دی۔ انہیں کیا معلوم تھا کہ اس دعوت پر ایک شیر کا بچہ پہلے ہی عزم صمیم کیے بیٹھا ہے کہ نیروبی، جانا ضرور ہے!

دنیا کی تمام ائیر لائنز کے سٹاف کو یہ سہولت حاصل ہے کہ جہاں اس کی اپنی ائیر لائن کی پرواز نہیں جاتی وہاں کسی دوسری ائرلائن سے مفت ٹکٹ لی جا سکتی ہے۔ ان دنوں ہماری ائرلائن تو جدہ سے نیروبی نہیں جاتی تھی اور ہمارا پروگرام پہلے عمرہ ادا کرنے کا تھا اس لیے جدہ سے نیروبی کے لیے ایسٹ افریکن ائرویز کی ٹکٹ لی اور جولائی 1975 میں عازم جدہ ہوئے۔ عمرہ کی ادائیگی کے بعد چند دن جدہ میں قیام کیا اور وہاں سے ایسٹ افریکن پر نیروبی پہنچ گئے۔

ہماری خوش قسمتی سے ان دنوں ملتان کے بہت مشہور سیاسی راہنما جو نیروبی میں سفیر بھی تھے والد صاحب کے واجبی سے جاننے والے نکلے۔ تو سفیر صاحب کے ایک جگری دوست سے ان کے نام خط لیا کہ رقعہ حامل ہذا میرا انتہائی عزیز برخوردار ہے اور اس کا خیال رکھیں۔ اس کارروائی کا مقصد صرف یہی تھا کہ نیروبی میں رہائش کا مسئلہ نہ ہو اور سفیر محترم کہیں ٹھہرانے کا انتظام کر دیں۔

نیروبی ائرپورٹ پہنچ کر سیدھے اپنے اسٹیشن مینیجر صاحب کے کمرے میں پہنچے، وہ انتہائی تپاک سے ملے، خاطر تواضع کی اور اپنے ہاں ٹھہرنے کی پیشکش کی۔ ہمیں تو معلوم تھا کہ سفیر صاحب کے زیرانتظام کسی اچھی سی جگہ پر ہمارا قیام ہو گا، سوچا کیوں خواہ مخواہ ان کے ہاں ٹھہرا جائے، ان کی فیملی کو بھی مشکل ہو گی، ہم بھی آزادی سے نہیں رہ سکیں گے۔ ان کے حسن سلوک کا شکریہ ادا کیا، رکنے سے معذرت کی اور انہیں بتایا کہ سفیر صاحب ہمارے والد کے دوست ہیں، آپ بس ہمیں سفارت خانے پر ڈراپ کر دیں، باقی انتظام ہو جائے گا۔

انہوں نے اپنی کار نکالی اور ہمارے ساتھ سفارت خانے جا کر خود بھی سفیر صاحب سے ملاقات کی اور ہمیں ان کے حوالے کر کے چلے گئے۔ سفیر صاحب مل کر اور رقعہ پڑھ کر بہت خوش ہوئے، ملتان کے بارے میں پوچھتے رہے، پھر فرمانے لگے اب کیا پروگرام ہے، حرف مدعا ہماری زبان پر آ گیا، کہ بس اب کہیں رہائش کا سوچ رہا ہوں۔ کہنے لگے کوئی مسئلہ نہیں، ایک نائب کو آواز دی اور کہا بھئی ان کو کسی اچھے ہوٹل میں ٹھہرانے کا بندوبست کریں۔ انہوں نے پوچھا، سر Emsley کیسا رہے گا (ہماری یادداشت کی داد نہیں دیں گے)، سفیر بولے، ہاں ٹھیک ہے۔ لیجیے صاحب ہم خوشی خوشی سفیر صاحب کا شکریہ ادا کر کے سفارت خانے کی گاڑی میں ہوٹل پہنچے، بہت اعلی چار ستارہ ہوٹل تھا۔ اہلکار صاحب نے کمرہ بک کروایا، وہ تو جب ایڈوانس مانگا گیا اور پیسے دینے کی باری آئی تو معلوم ہوا کہ ہمارے ساتھ ہاتھ ہو گیا ہے۔ سفارت خانے کے خرچے پر نہیں بلکہ ہم اپنے ہی خرچے پر قیام کریں گے۔ اسٹیشن مینیجر صاحب کی پیشکش بے طرح یاد آئی، خیر جیسے تیسے عزت رکھنے کو ایک رات کا ایڈوانس دے دیا۔ اگلے دن صبح اٹھتے ہی پہلا کام یہ کیا کہ ایک سستا سا یوتھ ہوسٹل ڈھونڈ کر اس میں رکنے کا انتظام کیا۔

یہاں سے راوی دوبارہ اصل سفرنامہ کی طرف پلٹتا ہے۔ ثریا نے پوچھا کہ آپ کہاں قیام کریں گے (اس میں بھی رمز پوشیدہ تھی، بعد میں بتائیں گے)۔ ہم نے بتایا کہ ہمارا یہاں کوئی واقف نہیں ہے اس لیے ہوٹل میں ہی ٹھہریں گے۔ خیر، اس دفعہ کوئی پریشانی نہیں تھی۔ سرکاری ڈالر مل رہے تھے اس لیے بہترین سے ہوٹل میں قیام و طعام کا بندوبست کروا دیا گیا اور ہم وہاں شفٹ ہو گئے۔

نیروبی میں برصغیر کے لوگ ہزاروں کی تعداد میں آباد ہیں۔ یہ ہوٹل بھی آغا خانی فرقے سے تعلق رکھنے والے ایک صاحب کا تھا، اس لیے کوئی خاص تکلیف نہیں ہوئی۔ کھانے وغیرہ بھی اپنے جیسے ہی تھے بلکہ کھانے کے ساتھ ایک مقامی اردو اخبار بھی آیا جس میں پہلی مرتبہ جوش صاحب کی یہ الہامی رباعی پڑھی اور دل پر ایسی اثر انداز ہوئی کہ ایک بے خودی کی سی کیفیت طاری ہو گئی۔ آپ بھی پڑھیے اور ذرا گہرائی میں جا کر سوچیں تو صحیح لطف اندوز ہوں گے۔ عجیب پراسرار سی رباعی ہے۔

یاں چمپئی دھوپ ہے گلابی سایا

رہتا ہے سحاب ابدیت چھایا

جوش آؤ کہ منتظر ہے بزم ارواح

آیا۔ یاران رفتہ آیا آیا

اوائل دسمبر، عصر کے بعد کا وقت، پیلی سی دھوپ اور آسمان پر ہلکے ہلکے بادلوں کے پرے جن پر غروب ہوتے وقت سورج کی روشنی پڑ رہی ہو، تصور کریں کہ ایسے سماں میں عالم بالا کے مکین اکٹھے بیٹھے ہیں اور اپنے زندہ دوستوں کو یاد کر رہے ہیں۔ منظر کشی کی انتہا ہے۔ ساری رات اس رباعی کے سحر میں گرفتار، سوتے جاگتے گذری۔ صبح اچولا صاحب نے ہوٹل سے لیا اور ائیرپورٹ لے جا کر دفتر کا چارج باقاعدہ ہمارے حوالے کر دیا، کام شروع کر دیا گیا۔ اس طرح تقریباً چھتیس روز وہاں گذرے، بہت اچھے تجربات ہوئے، وہ سب یادیں اب کتاب حیات کے مانوس اور خوشگوار صفحات میں بدل چکیں۔۔۔ یاں چمپئی دھوپ ہے گلابی سایا۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments