کلدیپ نیئر کا پاکستانی پیر


انڈیا اور پاکستان کے درمیان امن کی خواہش رکھنے والوں اور اس خواہش کے اظہار کے طور پر واہگہ بارڈر کے دونوں طرف کھڑے ہو کر شمعیں روشن کرنے والوں کو ہمارے کچھ بھائی موم بتی مافیا کہتے ہیں۔ اگر مافیا ہو گی تو ڈان بھی ہو گا اور اس بھولی بھالی مافیا کا اصلی تے وڈا ڈان کلدیپ نیئر تھا۔

وہ 95 برس کی عمر میں فوت ہوئے ہیں۔ جسے پنجابی میں کہتے ہیں کھا ہنڈا کر گئے ہیں یا جسے اردو میں کہتے ہیں کہ ایک بھرپور زندگی گزاری۔ دھڑلے کے صحافی اور لکھاری تھے۔ حکومت کے چہیتے بھی رہے اور اسی حکومت نے انھیں جیل میں بھی ڈالا لیکن آخری دنوں تک انھیں اپنی جنم بھومی سیالکوٹ نہیں بھولا۔

ان کی سیالکوٹ سے محبت کا ایک مختصر سا قصہ ہندوستانی لکھاری اور شاعر گلزار نے لکھا ہے۔ وہی گلزار جنھیں جہلم میں اپنا آبائی گاؤں دینہ کبھی نہیں بھولا۔ کلدیپ نیئر اور گلزار ایک کار میں سوار 14 اگست کی شام واہگہ بارڈر کی جانب رواں دواں ہیں۔ مشن وہی کہ واہگہ پہنچ کر موم بتیاں جلائی جائیں، امن کے کچھ گیت گائے جائیں۔ کلدیپ کہتے ہیں کہ یہ سڑک اگر یونہی چلتی جائے اور رستے میں بارڈر چیک پوسٹ نہ آئے تو ہم میرے آبائی گھر پہنچ جائیں گے سیالکوٹ میں۔ اگر مجھے جانے دیں تو میں وہاں سے کیا چرا لوں گا۔ کیا اس طرف چوروں کی کمی ہے۔ کیا ہماری طرف چوروں کی کمی ہے۔

پھر وہ گلزار کی تحریک پر سیالکوٹ میں اپنے بچپن کا حال سناتے ہیں۔ سارے رشتہ داروں کے گھر آس پاس تھے۔ بیچ میں ایک خالی میدان تھا جس میں پیپل کا ایک قدیم درخت تھا جس کے نیچے ایک پرانی قبر تھی۔ کوئی نہیں جانتا تھا کہ یہ کس کی قبر ہے لیکن میری ماں کو یقین تھا کہ یہ ان کے پیر صاحب کی قبر ہے۔ وہ پیپل کے درخت کے نیچے پوجا پاٹھ کرنے کے بعد قبر پر دیا جلاتیں۔ گھر میں کوئی مسئلہ ہوتا تو پیر صاحب کی قبر پر جا کر روتیں اور انھیں اپنا مسئلہ بتاتیں۔

گھر میں کوئی خوشی، کوئی غم ہو پیر صاحب کو چڑھاوا ضرور جاتا۔ میرے سکول کے امتحان ہوتے تو اماں کہتیں پہلے پیر صاحب کو ماتھا ٹیکو پھر سکول جاؤ۔ مجھ سے تو پیر صاحب نے کبھی کچھ نہیں کہا لیکن میری والدہ کے خوابوں میں آتے تھے اور ان سے باتیں بھی کرتے تھے۔

گلزار پوچھتے ہیں کہ کیا آپ کی والدہ نے آپ کو بتایا کہ پیر صاحب کی شکل و صورت کیسی ہے۔ کلدیپ مسکراتے ہیں اور کہتے ہیں ساری عمر انویسٹیگیٹو رپورٹر رہا ہوں، میں نے بالکل اپنی اماں سے پوچھا اور میری اماں نے جو بتایا وہ بالکل سچ نکلا۔ پیر صاحب بالکل ویسے ہی تھے جیسا میری والدہ نے بتایا تھا۔

گلزار نے ہکا بکا ہو کر پوچھا، آپ نے پیر صاحب کو کہاں دیکھا؟

کلدیپ بتاتے ہیں کہ جب ایمرجنسی لگی تو اندرا گاندھی کی حکومت نے کئی سیاستدانوں اور صحافیوں کو جیل میں ڈال دیا۔ میں نے جیلر سے پوچھا، مجھے کس نے بند کیا ہے اس نے کہا میڈم نے لیکن آپ چند ہی دنوں میں چھوٹ جائیں گے۔ دن پر دن گزرتے گئے اور میری تہاڑ جیل سے رہائی کی کوئی صورت نہ تھی۔

کلدیپ نیر

پھر ایک دن خواب میں پیر صاحب آئے۔ جیسا والدہ نے بتایا تھا بالکل ویسے ہی تھے۔ لمبی سفید داڑھی، سبز رنگ کا جبہ۔ میں نے پوچھا کہ پیر صاحب میری جیل سے رہائی کب ہو گی؟ انھوں نے کہا اگلی جمعرات کو۔ پھر انھوں نے کہا کہ بیٹا مجھے بہت سردی لگ رہی ہے اپنی چادر مجھے دے دو۔ میری آنکھ کھل گئی اور میں سوچتا رہا کہ پیر صاحب کی بات کا مطلب کیا ہے۔

میں جمعرات کا انتظار کرتا رہا، جمعرات آئی اور گزر گئی۔ میں بہت مایوس ہوا۔ جمعے کی صبح جیلر آیا تو اس نے کہا آپ کی رہائی کا حکم آ گیا ہے۔ پھر اس نے بتایا کہ حکم تو جمعرات کی رات ہی آ گیا تھا لیکن میں نے آپ کو ڈسٹرب کرنا مناسب نہیں سمجھا۔

کلدیپ نیئر نے گھر آ کرپیر صاحب والا خواب اپنی والدہ کو سنایا۔ وہ بہت بےچین ہوئیں۔ انھوں نے وعدہ لیا کہ یم کسی کسی طریقے سے سیالکوٹ پہنچو اور پیر صاحب کی قبر پر چادر چڑھاؤ کیونکہ مجھے لگتا ہے کہ ان کی روح کو مکتی نہیں ملی۔ کلدیپ نیئر کو پاکستان کا ویزہ والدہ کے انتقال کے بعد ملا۔ وہ دہلی سے ایک چادر لے کر سیالکوٹ پہنچے۔ ان کا محلہ تو موجود لیکن نہ پیپل کا درخت نہ کوئی قبر۔ کچھ دن ادھر اُدھر پوچھتے رپے کوئی سراغ نہ ملا۔ پھر ایک دکاندار نے اعتراف کیا کہ جب ہم بٹوارے کے بعد یہاں آئے تو ہمارے پاس چھوٹی سی دکان کے سوا کچھ نہیں تھا۔ یہاں پر ایک قبر تھی اس پر ہم نے گھر بنا لیا اور تب سے یہیں رہ رہے ہیں۔

کلدیپ نیئر واپس دہلی گئے اور وہی چادر نظام الدین اولیا کی درگاہ پر چڑھا کر پیر صاحب کی مکتی کے لیے دعا کی۔ دعا کی جا سکتی ہے کہ کلدیپ نیئر صاحب کی روح کو مکتی ملے اور اب ان کی آتما بغیر کسی ویزے کے جب چاہے سیالکوٹ آ سکے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).