سفارتی محاذ پر امریکی جارحیت


زبردست جدو جہد کے بعد قائم ہونے والی نئی حکومت کو ہر کوئی کارکردگی دکھانے کیلئے وقت دینا چاہتا ہے۔ 3 سے 6 ماہ تک کی مدت کا ذکر زبان زد عام ہے۔ عمران خان کی سربراہی میں بننے والی پی ٹی آئی کی حکومت کو چاہیے کہ اس دوران واقعی کچھ نیا کر کے دکھائے۔ چھوٹی موٹی غلطیوں پر اعتراضات بھی معمولی نوعیت کے ہوں گے۔ ہاں مگر بلنڈر رونما ہوتے رہے تو اسی شدت سے تنقید ہو گی۔ اب تک کیے گئے بعض اقدامات کس طور چھوٹی غلطی قرار نہیں دئیے جا سکتے۔ شاید اسی لیے نکتہ چینی وقت سے کہیں پہلے شروع ہو گئی۔ اندرون ملک جو ہو رہا ہے وہ سب کے سامنے ہے۔ خارجہ محاذ پر بھی اچھی ابتدا نہیں ہوئی۔ امریکی وزیر خارجہ مائیک پو مپیو کی وزیر اعظم عمران خان کو کی جانے والی ٹیلی فو ن کال کا معاملہ اس وقت پیچیدہ ہو گیا جب امریکی محکمہ خارجہ نے گفتگو کے مندر جات ظاہر کردئیے۔ پاکستان کا سر کاری طور پر اختیار کیا گیا موقف کہ اس بات چیت کے دوران دہشت گروپوں کے خلاف کارروائی کا کوئی ذکر نہیں کیا گیا، الٹا پڑ گیا۔ بات کو مزید نہ اچھال کر بد مزگی دور کرنے کی کوشش کی گئی۔

ابھی یہ معاملہ پوری طرح سے ٹلا نہ تھا کہ امریکی وزیر خارجہ مائیک پومپیو اور مسلح افواج کے سربراہ جنرل جوزف ڈنفورڈ کے دورہ اسلام آباد کا وقت سر پر آگیا۔ ایسے وقت میں سفارتی معاملات کو نہایت احتیاط اور پوری مہارت سے آگے بڑھانے کی ضرورت تھی۔ امریکی وزیر خارجہ نے پاکستان کا دورہ شروع ہونے سے محض چند گھنٹے قبل ہی میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے کہا ”پاکستان کا تعاون نہ ملا تو جو ہوگا وہ جنرل ملر اور جنرل نکلسن بتا چکے ہیں“ اس سے کچھ وقت پہلے ہی پینٹاگون نے پاکستان کے لئے 30 کروڑ ڈالر کی فوجی امداد منسوخ کرنے کا اعلان کر دیا تھا۔ یہ بات تو واضح کردی گئی تھی کہ امریکی حکام کسی طرح کی امداد دینے کے بجائے صرف دھمکیوں سے کام چلانے کی کوشش کررہے ہیں۔ امریکی وزیر خارجہ کا پاکستان کو انتباہ اگر سفارتی زبان میں ہوتا تو تب بھی قابل گرفت تھا اور ہمیں اس کاجواب دینا چاہیے تھا۔ مگر جب یہ کہہ دیا جائے کہ جو ہوگا وہ جنرل ملر اور جنرل نکلسن بتا چکے ہیں تو اس سے زیادہ کھلی دھمکی اور ہو ہی نہیں سکتی تھی۔ قومی غیرت کا تقاضا تو یہ تھا کہ ایسابیان نشر ہوتے ہی پاکستان دفتر خارجہ کی جانب سے باضابطہ رد عمل دیا جاتا۔ افسوسناک امریہ ہے کہ امریکی وزیر خارجہ اپنے وفد کے ہمراہ پاکستان آ کرتمام بڑوں سے ملے مگر اس حوالے سے کسی نے کوئی بات نہیں کی۔

مانا کہ امریکہ سپر پاور ہے اور اس کی جنگی مشینری کا مقابلہ کرنا کسی طور پر آسان نہیں لیکن ملکوں اور قوموں کی اپنی عزت ہوا کرتی ہے۔ جب بھی کوئی کھلی دھمکی دے تو اس کا جواب دیا جاتاہے اور جواب بھی سفارتی زبان میں تاکہ مزید کشیدگی پیدا نہ ہو۔ پومپیو کے اس بیان کو تو افسوسناک ہی کہہ دیا جاتا تو کچھ نہ کچھ مداوا ہو جا تا۔ مگر سب نے اسے اس طرح سے نظر انداز کیا کہ جیسے کچھ ہوا ہی نہیں۔ دفتر خارجہ میں باضابطہ مذاکرات اور پھر وزیراعظم ہاﺅس میں پاکستان کی ٹاپ قیادت سے بات کے بعد جو ہوا اس حوالے سے وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی نے پریس کانفرنس کی۔ ائیر پورٹ آمد سے لے کر روانگی تک امریکی وفد کا دورہ 5 گھنٹے پر محیط تھا۔ وفد کی وزیراعظم عمران خان کے ساتھ ملاقات جس میں آرمی چیف جنرل قمر جاوید باجوہ، ڈی جی آئی ایس پی آر لیفٹیننٹ جنرل نوید مختار، وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی بھی موجود تھے، میں اس وقت دلچسپ صورتحال پیدا ہوگئی جب انتہائی حساس مقام پر ہونے والے اعلیٰ ترین مذاکرات کے دوران اچانک ایک امریکی صحافی کانفرنس ہال میں داخل ہوگیا۔ اس نے وزیر اعظم سے پاک امریکہ تعلقات کے مستقبل کے حوالے سے سوال بھی کر ڈالا۔ یہ ایک حیرت انگیز اور نا قابل یقین منظر تھا۔ امریکی صحافی کو وزیر اعظم ہاﺅس اور پھر اس اہم اور حساس ملاقات تک رسائی کس نے دی؟ امریکی وفد دورہ مکمل کرکے سیدھا بھارت روانہ ہوگیا، یہ تکلف بھی گوارا نہیں کیا گیا کہ دونوں ممالک کے وزرائے خارجہ مشترکہ پریس کانفرنس ہی کر لیں۔ اگرچہ میڈیا کو پہلے یہی اطلاعات دی گئی تھیں کہ پاک امریکہ وزرائے خارجہ مشترکہ پریس کانفرنس کریں گے۔ شاہ محمود قریشی نے تن تنہا پریس بریفنگ کی ذمہ داری سنبھالی تو ان کی باڈی لینگوئج سے کچھ زیادہ اعتماد ظاہر نہیں ہورہا تھا۔ ایک موقع پر انہوں نے کہا کہ ملاقات میں ڈومور کا مطالبہ نہیں کیا گیا بلکہ مل کر آگے بڑھنے کا ماحول تھا۔ اس پر فوری تبصرہ کیا گیا کہ شاہ صاحب ڈو مور کا مطلب ہی آگے بڑھنا ہے۔

شاہ محمود قریشی نے یہ کریڈٹ لینے کی بھی کوشش کی کہ امریکی حکام سے امداد کا قطعاً کوئی مطالبہ نہیں کیا گیا۔ اس سے انکار ممکن نہیں کہ حکومت پاکستان نے امریکی وفد سے امداد کا مطالبہ نہ کر کے بہت اچھا پیغام دیا مگر یہ بات بھی نہیں بھولنی چاہیے کہ اس سے پہلے شاہ محمود قریشی خود یہ کہہ چکے تھے کہ ہم امریکہ سے کوئی امداد نہیں مانگ رہے بلکہ 30 کروڑ ڈالر کی رقم واجب الادا ہے۔ دہشت گردی کے خلاف جنگ میں جو اخراجات ہوئے، انہیں پورا کرنا امریکہ ہی کی ذمہ داری ہے۔ اگر ایسا ہی ہے تو پھر مطالبہ کرنے میں کوئی حرج بھی نہیں تھا۔

یہ بات الگ ہے کہ امریکی وفد کے دورہ سے فوری پہلے پینٹا گون نے 30کروڑ ڈالر کی امداد منسوخ کرکے اپنی نیت اور ارادہ واضح کر دیا تھا۔ شاہ محمود قریشی نے امریکی حکام کے دورے کو تعطل ٹوٹنے اور برف پگھلنے کے مترادف قرار دیا اور یہ دعویٰ بھی کیا کہ دونوں ملکوں نے تعلقات کی از سر نو تجدید پر اتفاق کر لیا ہے۔ گویا ہمارے وزیر خارجہ کے نزدیک سب معاملات بھی اچھے انداز میں طے ہوگئے۔ نئی دہلی روانگی سے قبل نور خان ائیر بیس پر میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے امریکی وزیر خارجہ نے ایک بار پھر وہی باتیں دہرا دیں جو وہ مسلسل کرتے آئے ہیں۔ اس کے ساتھ ہی امریکی دفتر خارجہ نے سرکاری طور پر بیان جاری کردیا کہ پاکستانی قیادت سے ملاقات میں پومپیونے واضح کیا کہ پاکستان کو خطے کے امن و استحکام کے لیے خطرہ بننے والے دہشت گردوں اور انتہا پسندوں کے خلاف مستقل اور فیصلہ کن اقدامات کرنا ہونگے۔ فیصلہ کن اقدامات کی تشریح صرف اتنی ہے کہ امریکہ ہمیں وقت دینے پر آمادہ نہیں۔ سٹیٹ ڈیپارٹمنٹ کے بیان میں فیصلہ کن اقدامات کا ذکر ڈومور کے روایتی مطالبے سے کہیں بڑھ کر ہے۔

امریکہ نے یہ بات بھی دہرائی ہے کہ ماضی میں بہت سی باتیں ہوئیں جن پر عمل درآمد نہیں کیا گیا۔ اب ایسے تمام نکات پر عملی طور پر کام کرنے کا وقت آ گیا ہے۔ امریکی وفد کے دورے کے حوالے سے ہمارا بیان کچھ اور تھا جبکہ امریکی حکام اور کچھ کہہ رہے ہیں۔ دیکھنا یہ ہے کہ پوری دنیا اس حوالے سے کیا کہہ رہی ہے۔ اپنی ہی قوم کے سامنے اپنا موقف پیش کر کے تالیاں بجوانے کی خواہش پالنے کی بجائے ہمیں سچ سامنے لانا ہوگا۔ عوام کو بتانا ہو گا کہ امریکہ ہمارے بارے میں کیا سوچ رہا ہے، قومی سوچ اور قومی اتفاق رائے اسی طریقے سے جنم لیتے ہیں۔ خود کو دھوکہ دینے سے محض نقصان ہی اٹھانا پڑے گا۔

پوری دنیا میں پاکستان کے بارے میں جو تاثر پایا جاتا ہے اس کو مد نظر رکھ کر سفارتی محاذ پر کام کرنا پڑیگا۔ امریکہ خطے میں بھارت کو اپنا علانیہ اتحادی بنا چکا ہے۔ افغانستان میں اسے ہماری ضرورت ہے مگر اس کے لیے اب وہ سفارتی آداب کے مطابق بات کرنے کی بجائے جارحانہ رویہ اپنانے پر اتر آیا ہے۔ صورت حال ہر لحاظ سے پیچیدہ ہے۔ لگتا ہے کہ امریکہ پاکستان سے اپنا مطلب نکلوانے کے لیے دباﺅ کا سلسلہ نہ صرف جاری رکھے گا بلکہ اس میں اضافہ بھی کرتا جائے گا۔ فوجی امداد کی منسوخی ایک کھلا اعلان ہے۔ پاکستان کو امریکی دھمکیوں کا سامنا نہایت تدبر اور احتیاط سے کرنا ہوگا، خصوصاً ایسے وقت میں کہ جب سی پیک کے تناظر میں پہلے ہی معاملات خرابی کی طرف جاتے نظر آ رہے ہیں۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).