فریال تالپور اور عبدالعزیز عرف حقے والا پیر


سندھ کے علاقے کوٹ غلام محمد میں نفسیات کے رٹائرڈ پروفیسر ڈاکٹر جمیل حسین کے رشتہ دار ایاز شاھ، جو کہ فریال تالپور کے خاص گھریلو ملازم ہیں، ان کی سرپرستی میں عبدالعزیز عرف حقے والا پیر کا میلہ منعقد کیا گیا ہے جس میں عبدالعزیز عرف حقے والا پیر کی باطنی کرامات کو خراج تحسین پیش کرنے کے لیے ختمہ و درود کے علاوہ غریبوں میں خیرات کا سلسلہ جاری ہے پاکستان میں پیری مریدی اور گادی نشینوں کا سلسلہ صدیوں سے چلا آ رہا ہے اور اس سلسلے کے لاکھوں عقیدت مند مزاروں اور گادی نشینوں کی دعائیں اور من کی مرادیں پانے کے لیے مقررہ تاریخوں پر جا کر روحانی محفلوں اور میلوں میں شریک ھوتے ہیں لیکن جنرل ضیاء کے دور میں پورے پاکستان میں مذہبی عقیدت مندی کو خوب فروغ ملا اور مذہب کو جنرل ضیاء اور اس کے ساتھیوں کے مفاد کے لیے غلط طریقوں سے استعمال کیا گیا۔ مختلف فرقوں کو فروغ دیا گیا حتیٰ کہ سائنس کے مضامین میں بھی مذہب کو شامل کیا گیا اور ایک مخصوص طبقے کی حکمرانی کے لیے مذہب کو عوامی نفسیات میں شامل کیا گیا جو کہ پیپلز پارٹی کے جمہوری دور میں بینظیر بھٹو اور ان کے شوھر آصف علی زرداری کی سرپرستی میں اور بھی زیادہ پروان چڑھا۔

سندھ میں ڈگری تعلقہ کے ایک گاؤں میں لالڻ لغاری نامی ایک شیزوفرینیا کے مریض کو درویش اور روحانی بابا ماننے کے لیے نا صرف عام لوگ جاتے تھے ایک ڈاکٹر کی اس سادہ لوح شخص کی اتنی تشہیر ہوئی کہ بینظیر اور اس کی انتظامیہ ھیلی کاپٹر میں سوار ہو کے خود لالڻ فقیر کی خدمت میں حاضر ہوئیں اور پھر اسکے بعد یہ سیدھا سادہ نفسیاتی مریض پورے سندھ کے بڑے افسران اور بڑے بڑے لوگوں کا مرشد بن گیا۔ اس طرح سے اس سادہ شخص کی کاھنی کرامات کی باتیں دور دور تک پھیل گئیں یہاں تک کہ لالڻ فقیر کو آصف علی زرداری کے گھر میں خصوصی طور پر رہایش دی گئی۔ پھر بس اس کے بعد ہزاروں بڑے لوگ دعائیں حاصل کرنے کے لیے اس سادہ لوح شخص کو اپنے اپنے گھروں اور شہروں میں لے کر جانے لگے جب کہ اس سادہ لوح شخص میں نہ دنیا داری تھی نہ چالاکی تھی اور نہ ہی خود اپنا ھی پتہ تھا۔ وہ خود سے باتیں کرتا تھا اور ہوا میں گھورتے ہوئے سگریٹ پھونکتا تھا پھر بھی بڑے لوگ اور ضیاء کے دور کے نفسیاتی ڈاکٹر بھی اسے مرشد ماننے لگے۔

ایسے ہی حکومتی سرپرستی میں فقیری اور پیری مریدی پروان چڑھائی گئی۔ میکاولی کی لکھی ہوئی کتاب پرنس ہر دور میں عملاً پڑھنے اور اسے عمل میں لانے کا سلسلہ چلتا آ رہا ھے جس میں لکھا ہوا ھے کہ عوام کو قابو کرنے کے لیے ان کو درویشوں اور مزاروں کی طرف مائل کیا جائے تاکہ وہ حکمران طبقے کے خلاف کوئی بغاوت نہ کرسکیں یہ جو کچھ بیان کیا گیا ہے وہ کچھ ماضی کے ان دیکھے درویشوں اور کرداروں کے قصے اور کرامات کی کھانیاں اور میلے ٹھیلے ہیں مگر موجودہ دور اور موجودہ نسل کے دیکھے ہوئے ایک سادہ لوح شخص کو کیسے ایک نفسیات کے پروفیسر کی سرپرستی میں پیر و مرشد اور روحانی رھنما بنایا جارہا ہے۔

اس پر علاقے کا ہر باشعور شخص حیران ھے کہ عبدالعزیز نامی ایک سادہ لوح شخص جس کو چلتے پھرتے ھوے ہر شخص نے دیکھا تھا اور صرف حقہ پینے کی وجہ سے مشھور تھا اس نے اپنی زندگی میں نہ کوئی کرامات یا معاشرتی نفسیات سے ماورا کوئی چیز دکھائی تھی اس شخص میں کوٹ غلام محمد سے تعلق رکھنے والے ایک نفسیات کے پروفیسر جمیل حسین کو نہ جانے کیا نظر آیا کہ حقہ اور چرس پینے والے سادہ لوح شخص کو کاھنی کرامات کا مالک مانتے ھوے نہ صرف مرید بن گیا بلکہ عبدالعزیز حقے والا پیر کے نام ایک کتاب لکھ ڈالی اور لوگوں میں مفت تقسیم کردی گئی۔ یاد رہے کہ نفسیات کے پروفیسر ڈاکٹر جمیل حسین نے محنت سے پڑھائی کر کے نفسیات میں پاکستان کی سب سے بڑی ڈگری حاصل کی جس میں میجر سبجیکٹ سماجی نفسیات بھی ہے۔ ڈاکٹر جمیل حسین سب سے پہلے نوابشاه میں نفسیات کے اسسٹنٹ پروفیسر لگے اور ساتھ ہی ساتھ پرائیویٹ ھسپتال میں بھی لوگوں کا نفسیاتی علاج کرنے لگے۔ وقت کے ساتھ ساتھ وہ نفسیات کے پروفیسر ھو گئے اور آخر میں حیدر آباد کے مشھور سرسی جی مینٹل ھاسپیٹل (گدو ھسپتال) کے ہیڈ آف ڈپارٹمنٹ بنے اور کئے شاگردوں کو پڑھایا اور وہ اب رٹائرڈ ھونے کے بعد حیدرآباد میں اپنی ذاتی ھسپتال میں مریضوں کا سائکو تھراپی کے ذریعے علاج کر رہے ہیں۔

ان کی نفسیاتی کتاب حقے والا پیر ایک بحث طلب کتاب ہے اس کتاب میں چند غیر اھم لوگوں کے حقے والا پیر سے منسوب کچھ قصے اور کہانیوں کے علاوہ کوئی بھی سائنسی یا پیرا سائیکالوجی کی دلیل یا تشریح نہیں ملتی مگر چونکہ یہ کتاب نفسیات کے ڈگری یافتہ پروفیسر کے لکھی ہوئی ھے جس کا اثر عقیدہ پرست لوگوں کے عقیدوں کو اور بھی مضبوط کر رہی ھے اور دوسری طرف زندگی کی آسائشوں سے محروم اور سیاسی دھارے سے کٹے ہوئے لوگوں کے لیے اب عبدالعزیز حقے والا پیر کا میلہ کشش اور امیدوں کا سھارا بننے میں مددگار اور آخری سہارا ہو رہا ہے کیونکہ کے عبدالعزیز حقے والے ایک عام شخص کی زندگی پر سند یافتہ نفسیات کے پروفیسر کی مہر لگی ہوئی ھے اور اس میلے میں پیپلز پارٹی سندھ کے ایک وزیر بھی آخری دن حقے والے پیر کو عقیدت پیش کرنے کے لیے آ رہے ہیں


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).