کہیں عدم برداشت کا سبق استادوں سے تو نہیں مل رہا؟



میں اپنی عمر کی بارہ بہاریں دیکھ چکی تھی جب ہم حیدرآباد سے کراچی منتقل ہوئے۔ کچی عمر کے شوق تھے، بڑے شہر کے بڑے خواب کچھ میں نے بھی سجا لیے، نیا اسکول نیا بستا اور نئے دوست سوایک طویل انتظار کے بعد میرا داخلہ نئے تعلیمی ادارے میں کروا دیا گیا پر شومئی قسمت داخلے کے فوراََ بعد مجھے ٹائیفائڈ ہو گیا اور تقریبا ایک ماہ میں اسکول حاضر ہونے سے قاصر رہی۔ دل تو اداس رہا ہی پر پڑھائی کا بھی کافی حرج ہوگیا۔

ایک ماہ کی علالت کے بعد جب میں اسکول گئی تو سب سے پہلی کلاس حساب کی تھی۔ چونکہ حساب میں میری ذاتی دلچسپی تھی اور مجھے کبھی حساب کا مضمون مشکل نہیں لگا تو کلاس کے بعد استانی کو آگاہ کرنے کی غرض اور وقت کا ضیاع نہ کرنے کے احساس کی وجہ سے میں نے ہم جماعت سے اردو کا کام مانگ کر نقل کرنا شروع کر دیا۔

کچھ بچپن کی نادانی کچھ نئے ماحول سے ناواقفیت مجھے کسی استانی کے مزاج کا اندازہ نہیں تھا تب تک۔ میں اپنی دھن میں کام جلدی ختم کرنے کی کوشش کر رہی تھی کے مجھے احساس ہوا کہ کوئی سایہ عین میرے سر پر مسلط ہے نظر اٹھا کر دیکھا تو استانی تمتماتے چہرے کے ساتھ عین میرے ڈیسک کے پاس کھڑی تھیں۔ کیا کر رہی ہو؟ انہوں نے برف کے سے ٹھنڈے لہجے میں پوچھا۔۔ ان کے چہرے کے بدلتے زاویے بتا رہے تھے کہ ان کو میرے جواب میں کوئی دلچسپی نہیں تھی۔

خوف کا یہ عالم تھا کے الفاظ ساتھ نہیں دے رہے تھے۔ زبان سے ایک لفظ ادا ہونے سے قاصر تھا۔ میں بکری کی طرح سہم کے منمنا ہی رہی تھی کہ ایک زور دار آواز کے ساتھ ایک تھپڑ میرے گال پر جڑ دیا گیا جس کی تپش سے میرا چہرہ گرم ہوگیا اور میرے ریڑھ کی ہڈی تک سنسناہٹ دوڑ گئی۔ آنسوؤں کا گولا میرے حلق میں پھنس گیا جس کی کڑواہٹ آج تک میرے ساتھ ہے۔ تضحیک، تذلیل اور ندامت کی گھری چوٹ نے میری عزتِ نفس پہ ایسا وار کیاجو تاحال مدہم نہ ہوسکا۔

آج زندگی کے کئی سال گزر جانے کے باوجود بھی اپنی کسی بھی کامیابی کے اوپر بجنے والی تالیوں کی گونج میں بھی میں اس تھپڑ کی گونج اور اس کی وجہ سے ذلت کا احساس تک نہیں بھول پاتی۔ اس سال حساب کے پرچے میں تو پورے نمبر آئے لیکن پوری عمر کے لیے اپنے پسندیدہ مضمون سے دل اچاٹ ہوگیا۔

غور طلب امر یہ ہے کہ ہمارا تعلیمی نظام کس سمت جارہا ہے؟ آج بھی تعلیمی اداروں میں کسی بچے کو ہوم ورک مکمل نہ کرنے پہ مار پڑتی ہے، تو کسی کو کلاس میں بے وجہ بولنے پہ۔ حد تو یہ ہے کہ سوال پوچھنے پہ بھی غصیلی نظروں سے دیکھ کر بچے کو یہ باور کرا دیا جاتا ہے کہ وہ وہاں سیکھنے نہیںآیا بلکہ ایک دن کا مخصوص وقت گزارنے آیا ہے سو جتنا پڑھایا جاتا ہے اتنا پڑھے اور جتنا سکھایا جاتا ہے اتنا سیکھ کر گھر جائے۔ صد افسوس کہ والدین کو بھی اساتذہ کی جانب سے کیے گئے جسمانی تشد د پر کوئی اعتراض نہیں بلکہ وہ یہ سوچ لیتے ہیں کہ ان کے بچوں کی بھلائی اسی میں ہے۔ حالانکہ اس امر سے نہ صرف بچوں کو جسمانی تشدد کا سامنا کرنا پڑتا ہے بلکہ ذہنی اور اخلاقی پستی کا شکار ہونے کے بھی پورے امکانات ہوتے ہیں۔

گھریلو زندگی سے لے کر تعلیمی اداروں تک جسمانی تشدد ہمارے معاشرے کا لازمی جزو بن چکا ہے۔ جس کی وجہ زندگی میں نظم و ضبط بتائی جاتی ہے۔ لیکن یہی تشدد کئی سوالوں کو جنم دیتا ہے۔ کیا ہمارے معاشرے میں نئی نسل کی بے راہ روی، نفرت اور تعلیم سے دوری جسمانی تشدد کا نتیجہ ہے؟ کیا اسی تشدد کے خوف کی وجہ سے بچے اکثر اہم باتیں والدین کو بتانے سے گریز کرتے ہیں؟ کیا عدم برداشت کا سبق ہمیں ہمارے بڑوں اور استادوں سے نہیں مل رہا؟


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).