اسلامی نظریاتی کونسل کی آئینی اور سیاسی حیثیت


\"wajahat\"مارچ کے پہلے ہفتے میں پنجاب اسمبلی نے خواتین کے تحفظ کے حوالے سے ایک مسودہ قانون منظور کیا۔ یہ وہ موقع تھا جب گورنر پنجاب سلمان تاثیر کے قتل کا ارتکاب کرنے پر ممتاز قادری کو پھانسی دیے جانے پر عوامی حلقوں میں اضطراب پایا جاتا تھا اور مذہبی سیاست کرنے والے حکومت پر دباﺅ ڈالنے کے لیے کسی بہانے کی تلاش میں تھے۔ چنانچہ 15مارچ 2016 ءکو جماعت اسلامی کے مرکز منصورہ میں مذہبی جماعتوں اور فرقہ وارانہ تنظیموں کے کئی درجن رہنما جمع ہوئے ۔ جہاں انہوں نے پنجاب اسمبلی کے منظور کردہ بل کو مسترد کرنے کے علاوہ متبادل قانون کا مسودہ پیش کرنے کا عندیہ بھی دیا ۔ پنجاب حکومت کو مجوزہ قانون کی حتمی منظوری سے روکنے کے لیے 27مارچ کی ڈیڈ لائن دی گئی ۔ اسے محض اتفاق کہنا چاہیے کہ 27 مارچ کو ممتاز قادری کا چہلم کرنے کا فیصلہ بھی کیا گیا۔ حکومت پنجاب نے سیاسی دباﺅ کے آگے سر جھکاتے ہوئے اسمبلی کے منظور کردہ قانون کا نوٹیفکیشن روک لیا۔ اس دوران راولپنڈی میں چہلم کے موقع پر جمع ہونے والے کچھ مذہبی گروہوں نے قومی اسمبلی کے باہر چار روز تک دھرنا بھی دیا۔ اس دھرنے سے دو نتائج برآمد ہوئے ۔ اس اجتماع میں موجود مذہبی رہنماﺅں نے اپنی تقاریر میں جو زبان استعمال کی وہ اس ملک کی عوامی تاریخ میں اپنی مثال آپ تھی ۔ دوسرے یہ کہ چار روز تک دھرنے کے بعد اس مجمع کے رہنما حکومتی نمائندوں کے پاس پہنچے جہاں انہیں سات نکات پر مبنی کاغذ کا ایک بے معنی پرزہ دے کر گھروں کو روانہ کر دیا گیا۔ ان واقعات سے مذہبی سیاست کرنے والے گروہوں کی ساکھ کو کافی نقصان پہنچا۔ اس دوران عمران خان نے اعلان کیا کہ خواتین کے حقوق کا تحفظ کرنے کے لیے ایک مثالی مسودہ قانون اسلامی نظریاتی کونسل سے مرتب کروایا جائے گا اور اسے خیبر پختونخوا میں نافذ کیا جائے گا۔ اسلامی نظریاتی کونسل نے اس مسودہ قانون کی تیاری کا بیڑا اٹھایا اور مئی کے تیسرے ہفتے میں اپنی سفارشات مرتب کرنا شروع کیں۔ یہ امر دلچسپ ہے کہ کونسل کے سربراہ نے اپنی حتمی سفارشات حکومت کو پیش نہیں کیں لیکن روزانہ کی بنیاد پر زیر بحث سفارشات ذرائع ابلاغ کو جاری کی جا رہی ہیں۔ اس کا مقصد میڈیا میں توجہ حاصل کرنا ہے۔

برصغیر میں عورتوں کے تحفظ کے لیے قانون سازی کی روایت دو صدی پرانی ہے۔ راجہ رام موہن رائے نے 1829 ءمیں ستی پر پابندی کا قانون منظور کرایا تھا۔ اس کے ٹھیک سو برس بعد قائداعظم محمد علی جناح نے ہندوستان کی مجلسِ قانون ساز سے ایک بل بعنوان ’قانون امتناع ازدواج بچگان‘ منظور کرایا جس کی رو سے کمسن بچوں کی شادی کو غیرقانونی قرار دیا گیا تھا تاہم مسلمان مذہبی پیشواؤں کا ایک غول خم ٹھونک کے میدان میں آ گیا اور اس قانون کی مخالفت کرتے ہوئے سیکڑوں کمسن بچوں کے زبردستی نکاح پڑھوائے گئے۔ اس ضمن میں مسلم علماءکا ایک وفد قائداعظم کے پاس آیا اور کہا کہ یہ قانون مذہب کے منافی ہے ۔ قائداعظم نے اس پر کیا جواب دیا۔ اس کے لیے ملک محمد جعفر کی کتابJinnah as a Parliamentarian سے رجوع کرتے ہیں ۔ ملک محمد جعفر کیمبل پور سے تعلق رکھنے والے ایک معروف ماہر قانون اور بااصول سیاست دان تھے۔ وہ ذوالفقار علی بھٹو کی حکومت میں وزیر ثقافت بھی رہے۔ جنرل ضیاالحق نے سیاست دانوں کی بدعنوانیوں کے خلاف احتساب کی مہم شروع کی تو سرکاری طور پر اعلان کیا گیا تھا کہ ملک محمد جعفر ایسے سیاست دان ہیں جن کے خلاف کسی بدعنوانی یا لاقانونیت کا کوئی ثبوت نہیں مل سکا۔ انہیں ضیاالحق کی مجلس شوریٰ میں شمولیت کی دعوت دی گئی تھی لیکن انہوں نے غیر جمہوری عمل میں شریک ہونا جائز نہیں سمجھا۔ ملک محمد جعفر نے قائداعظم کی تقاریر کی بنیاد پر یہ قابل قدر کتاب اس زمانے میں مرتب کی تھی جب پاکستان میں پارلیمنٹ معطل تھی اور سیاسی جماعتوں کو کالعدم قرار دیا جا چکا تھا۔ ملک صاحب لکھتے ہیں کہ \”قائداعظم نے ملاقات کے لیے آنے والے وفد سے کہا کہ کیا آپ نے مجھے دینی امور کے لیے منتخب کیا ہے۔ میں اس پابندی پر یقین نہیں رکھتا اور قانون کی تائید کرتا ہوں۔ اگر آپ مجھ سے اتفاق نہیں کرتے تو میں استعفیٰ دے دیتا ہوں ۔ آپ کسی ایسے آدمی کو منتخب کر لیں جو آپ سے اتفاق کرتا ہو۔ اگر آپ لوگوں نے مجھے مذہبی معاملات کے لیے قانون ساز اسمبلی میں بھیجا ہے تو میں آپ کی نمائندگی سے دستبردار ہوتا ہوں۔\” پاکستان اور بھارت مین یہ قانون آج بھی کتاب قانون کا حصہ ہے اور اس دعوے کی دلیل ہے کہ قائد اعظم محمد علی جناح قانون سازی میں مذہبی پیشواؤں کی بالدستی کو تسلیم کرنے پر تیار نہیں تھے۔ قائد اعظم اور مذہبی سوچ مین فرق کا ایک ثبوت یہ کہ مذہبی پیشواؤں نے کم سنی کی شادی کے خلاف قانون سازی کو آج تک تسلیم نہیں کیا۔

پاکستان کے آئین کی دفعات 228 ، 229 اور 230 میں اسلامی نظریاتی کونسل کے قیام ، طریقہ کار اور مقاصد پر روشنی ڈالی گئی ہے۔ 1973ء کے آئین میں اس مشاورتی ادارے کو اپنی حتمی رپورٹ پیش کرنے کے لیے سات برس کی مدت دی گئی تھی۔ درمیان میں 1977 ءکا مارشل لاءآ گیا چنانچہ 1985 ءمیں پارلیمنٹ بحال ہونے کے بعد اسلامی نظریاتی کونسل کو باقی ماندہ مدت دی گئی اور اس ادارے نے 1996ء میں اپنی حتمی سفارشات حکومت کو پیش کر دیں۔ جن پر حکومت نے دو برس کے اندر حتمی اقدام کرنا تھا۔ یہ سوال موجود ہے کہ گزشتہ اٹھارہ برس سے یہ ادارہ کس آئینی مینڈیٹ کے تحت کام کر رہا ہے۔ اس کے لیے وفاقی بجٹ میں فنڈ کس اختیا ر کے تحت تفویض کیے جا رہے ہیں۔ چونکہ یہ ادارہ آئین کے تحت قائم ہوا تھا اس لیے اس ادارے کے خاتمے کا اعلان بھی من مانے طریقے سے نہیں کیا جا سکتا۔ آئین تقاضا کرتا ہے کہ پارلیمنٹ اس پر باقاعدی فیصلہ دے کہ گزشتہ اٹھارہ برس کے دوران اسلامی نظریاتی کونسل کی کارروائی اور اس پر اٹھنے والے مالی اخراجات کو آئینی تحفظ دیا جائے گا یا وہ رقم واپس لی جائے گی۔

پاکستان کے آئین میں شق آٹھ یہ بیان کرتی ہے کہ بنیادی حقوق کے باب میں دی گئی حقوق اور ضمانتوں پر آئین کی کوئی دوسری شق اثر انداز نہیں ہو سکتی۔ چنانچہ پاکستان کے آئین کی شق 25 اس آئینی تحفظ کے دائرے میں آتی ہے جس کے ذیلی جز 2 میں واضح طور پر کہا گیا ہے کہ پاکستان کے تمام شہری مساوی رتبہ رکھتے ہیں اور ان کے ساتھ جنس کی بنیاد پر کوئی امتیاز نہیں برتا جا سکتا۔ چنانچہ ریاست اپنی قانون سازی میں اور ریاست کے ادارے اپنے تمام اقدامات میں پابند ہیں کہ جنس کی بنیاد پر کوئی امتیاز کیے بغیر تمام شہریوں کے ساتھ ایک جیسا سلوک کیا جائے۔ اسلامی نظریاتی کونسل کے تصور عالم میں عورت اور مرد دو الگ مخلوق ہیں اور اسلامی نظریاتی کونسل کے غیر منتخب ارکان کو یہ حق حاصل ہے کہ وہ عورتوں کے بارے میں تحکمانہ اور سرپرستانہ انداز میں سفارشات پیش کریں۔ پاکستان کے آئینی بندوبست میں رہتے ہوئے کسی ادارے کا یہ رویہ قطعی طور پر ناقابل قبول ہے۔

فیلڈ مارشل ایوب خان نے 1962ء میں اسلامی نظریاتی کونسل کے نام سے ایک ادارہ تشکیل دیا ۔ اس ادارے کا مقصد یہ بیان کیا گیا کہ قانون سازی کو قرآن و سنت سے ہم آہنگ کرنے کے بارے میں مسلم علماسے مشاورت کی جا ئے گی۔ تاریخی تناظر یہ تھا کہ ایوب خان نے 1961ءمیں مسلم عائلی قوانین نافذ کیے تھے اور ان پر مذہبی حلقوں کی طرف سے سخت تنقید ہو رہی تھی۔ ایوب خان اپنی افتاد طبع اور تربیت کے اعتبار سے نیم انگریز تھے اور ہمارے تاریخی تناظر، تمدنی حساسیت اور مقامی روایات سے زیادہ آشنا نہیں تھے۔ مولوی حضرات نے عائلی قوانین کے ضمن میں بال کی کھال اتارنا شروع کی، کبھی یتیم پوتے کی وراثت کا سوال اٹھایا گیا تو کبھی پدرسری معاشرے میں مردوں کو عقد ثانی کی ترغیب دی گئی۔ ایوب خان نے نظریاتی کونسل کے نام پر مشاورتی ادارہ تشکیل دے کر سوچا کہ اب ملا سے جان چھوٹ جائے گی۔ ایوب خان نے ڈاکٹر فضل الرحمن کو نظریاتی کونسل کا پہلا سربراہ مقرر کیا ۔ روشن خیال فضل الرحمن اپنے تعلیمی پس منظر اور اصلاحی رجحان کے باعث کیسے قابل قبول ہو سکتے تھے۔ ان کی مخالفت میں طوفان کھڑا کیا گیا تو وہ مستعفی ہوگئے اور کینیڈا جا کر اپنے علمی مشاغل میں منہمک ہو گئے۔ خیال رہے کہ قبل ازیں لیاقت علی کے دور میں ڈاکٹر حمید اللہ نے اسلامی تعلیمات بورڈ سے استعفیٰ دیا تھا اور انہوں نے باقی ماندہ زندگی فرانس میں بسر کی۔ 1970ء کے انتخابات میں جنرل شیر علی خان کے پروردہ عناصر نے نظریہ پاکستان کے نام پر اس قدر گرد اڑائی کہ انتخابات میں کامیابی کے باوجود بھٹو صاحب مذہب پسند حلقوں کو خوش کرنے کی فکر میں رہے۔ انہوں نے اسلامی نظریاتی کونسل کو باقاعدہ آئین کا حصہ بنا دیا۔ یہ ایک مشاورتی ادارہ ہے اور اس کے ارکان عوام کے منتخب نمائندے نہیں ہوتے۔ پارلیمنٹ اسلامی نظریاتی کونسل کی سفارشات تسلیم کرنے کی پابند نہیں ہے لیکن پاکستان کے سماجی اور سیاسی تناظر میں ارکان پارلیمنٹ دائیں بازو کی اشتعال انگیزی کی تاب نہیں لا سکتے۔ دوسری طرف اسلامی نظریاتی کونسل کی سفارشات کا بنیادی اثر یہ ہے کہ ہمارا سیاسی بیانیہ اور تمدنی مکالمہ رجعت پسندی کا شکار ہو گیا ہے۔

اسلامی نظریاتی کونسل کی سفارشات میں ایک رجحان واضح ہے کہ یہ سفارشات معاشرتی اور معاشی طور پر طاقتور کے حق میں اور کمزور کے خلاف ہوتی ہیں۔ ریپ کا نشانہ بننے والی خاتون کے لیے زمین تنگ کی جاتی ہے جبکہ توہین مذہب کا جھوٹا الزام لگانے والے کو چھوٹ دی جاتی ہے۔ یتیم پوتے کو محرومی کی دلدل میں دھکیلا جاتا ہے۔ ایک سے زیادہ شادیوں کی فکر ہے، بڑھتی ہوئی آبادی کے عواقب پر کبھی توجہ نہیں دی۔ اس کی ایک اور مثال لیجئے۔ اس وقت قانون سازوں کے سامنے ایک اہم مسئلہ یہ ہے کہ ایسے لاوارث بچوں کے لیے جن کے ماں باپ نامعلوم ہیں ، شناختی کارڈ کیسے جاری کیے جائیں۔ پاکستان کے سابق صدر آصف زرداری نے تجویز پیش کی تھی کہ ایسے تمام بچوں کے باپ کے طور پر ان کا نام لکھ دیا جائے۔ معروف سماجی کارکن عبدالستار ایدھی بھی ایسی ہی پیشکش کر چکے ہیں۔ کیا آپ جانتے ہیں کہ اس قانون سازی میں اسلامی نظریاتی کونسل رکاوٹ ڈال رہی ہے اور ان کمزور ، غریب اور لاوارث بچوں کے لیے قانونی شناخت کی راہ میں رکاوٹ بن رہی ہے ۔ 2006ء میں قانون برائے تحفظ خواتین پارلیمنٹ میں پیش ہوا تو نظریاتی کونسل نے سفارش کی کہ عورتیں ولی کی اجازت کے بغیر شادی نہیں کر سکتیں۔ اب ارشاد ہوتا ہے کہ عاقل بالغ عورت ولی کی اجازت کے بغیر شادی کر سکتی ہے۔ حال ہی میں ارشاد ہوا کہ ڈی این اے ٹیسٹ کو زنا بالجبر میں بنیادی شہادت کے طور پر قبول نہیں کیا جا سکتا۔ پھر فرمان آیا کہ آپریشن کے ذریعے جنس کی تبدیلی غیر اسلامی ہے۔ اتنا نہیں جانتے کہ طبی طور پر عورت کو مرد اور مرد کو عورت نہیں بنایا جا سکتا۔ یہ تکمیلی سرجری تو صرف غیر واضح جنس کو متعین کرنے کے کام آتی ہے۔ مشکل یہ ہے کہ عصری علوم سے نا آشنا ملا حضرات نے قوم کی رہنمائی کا خبط پال رکھا ہے۔ کسی ہنر سے بہرہ مند نہیں۔ اخلاقی کردار موہوم ہے۔ انسانی ہمدردی سے خالی ہیں۔ بزرگان مذہب کی بصیرت اور استقامت کا شائبہ نہیں۔ اس پہ لغت ہائے حجازی کے یہ قارون چاہتے ہیں کہ قوم بلکہ دنیا بھر کی رہنمائی انہیں سونپ دی جائے۔ سب سے اہم یہ کہ اسلامی نظریاتی کونسل مذہب کی بہترین روایات اور اقدار کو آگے بڑھانے کی بجائے لفظی تشریح اور قدامت پرستی میں یقین رکھتی ہے۔ اس نے معاشرے میں رواداری ،آسودگی اور سماجی ترقی کے حق میں کبھی آواز نہیں اٹھائی۔ یہ ادارہ ملائیت کے لیے راستہ ہموار کرنے کا آلہ کار بن چکا ہے۔ اسلامی نظریاتی کونسل ایک غیر منتخب ادارہ ہے جس کی آئینی حیثیت محل نظر ہے۔ یہ ادارہ حکومتوں کی طرف سے مذہبی گروہوں کو بالواسطہ رشوت دینے کا ایک ذریعہ بن چکا ہے ۔ اس ادارے کے ارکان کو پاکستان کے شہریوں کے رہن سہن ، قانونی حقوق ، معاشی امکانات اور سیاسی فیصلہ سازی پر اثر انداز ہونے کا کوئی حق نہیں ہے۔

 


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
2 Comments (Email address is not required)
Oldest
Newest Most Voted
Inline Feedbacks
View all comments