قابلیت، نا اہل حسینہ اور ٹھرکی ماحول


جدید دور کی معاشی جد و جہد نے، آج ان پڑھ عورت سے لے کر اعلیٰ تعلیم یافتہ عورت کو بھی گھر کی چار دیواری سے باہر آنے اور اس معاشی دوڑ کا حصہ بننے پر مجبور کر دیا ہے، جو جدید طرز زندگی کے حصول کی جانب جاتا ہے۔ گھر کے معاشی حالات بھی عورت کو کام کے لیے اکساتے ہیں؛ یہی وجہ ہے کہ اپنے گھر کے معاشی حالات بدلنے کی جد و جہد میں جہاں ایک طرف اس کو معاشی تحفظ ملا تو دوسری طرف سماجی عدم تحفظ کا تحفہ بھی ساتھ ہی ملا۔

یہ بات سچ ہے کہ عورت کو گھر کی چار دیواری سے باہر آنے پر بہت سارے مسائل کا سامنا کرنا پڑا ہے جس میں اولین گھر سے آفس پہنچنے تک غلیظ مردانہ نظروں کے تعاقب سے لے کر جملے بازی تک سب کچھ شامل ہے ۔ آپ ایک بار بس اسٹاپ پر کھڑے ہو جائیں تو پتا چلتا ہے، کہ مذہب اور تعلیم بھی اس کلاس کا کچھ نہیں بگاڑ سکی، جسے مرد کہتے ہیں؛ جو عمر کی قید سے آزاد صرف اور صرف اپنی نظر کی تسکین چاہتے ہیں۔

مگر میرا موضوع کچھ ہے۔ مرد اور معاشرے کا گھٹیا رویہ تو ہم سب پر آشکار ہے، جو عورت گھر سے باہر نکل آئی ہے وہ بھی بے پردہ ہو تو وہ نہ تو شریف ہے اور نا ہی با حیا۔ تاہم اس وقت میرا سوال یہ ہے کہ کیا عورت کو اس معاشرے میں صرف مرد سے سابقہ پڑتا ہے؟ کیا ورکنگ ویمن کی ترقی کی راہ میں سب سے بڑی رکاوٹ مرد ہیں؟ اس حوالے سے بہت کچھ لکھا جا چکا ہے، مگر آج تک ورکنگ ویمن کے ان ایشوز کو کم کم قلم بند کیا گیا، جو حقیقی طور پر ان کی ترقی کی راہ میں رکاوٹ ہیں۔

ہر مرتبہ ہم دفاتر کا ماحول اور مرد کولیگز کے رویوں کو زیر بحث لاتے ہیں کہ باسز کے یہ مطالبات ہوتے ہیں؛ مرد کولیگز ایسی حرکات کرتے ہیں۔ نا زبیا جملے پاس کرتے ہیں مگر ابھی تک ہم ان مسائل کو سامنے لانے میں نا کام رہے ہیں، جن وجہ سے پڑھی لکھی اور باشعور خواتین کو زیادہ مسائل کا سامنا کرنا پڑتا ہے اور جو ان کے ذہنی اور روحانی کرب میں اضافے کا باعث بھی ہیں۔

چلیں کھل کر بات کرنے سے پہلے کچھ سماجی معاملات کو تھوڑا سا پرکھتے ہیں، تا کہ بات آگے بڑھانے میں اور کرنے میں آسانی رہے۔ بلاشبہ معاشی ترقی اور آسودگی ہر انسان کا بنیادی حق ہے اور تعلیم خاص طور پر اعلیٰ تعلیم وہ اسی مقصد کے لیے حاصل کرتا ہے۔ تا کہ ایک بہتر جاب حاصل کر کے اپنی معیشت کو مستحکم کر سکے ۔ یہی احوال ہماری خواتین کا ہے، وہ محنت سے تعلیم حاصل کرتی ہیں اور شادی ہونے کی صورت میں بہتر معاشی مستقبل کے لیے ملازمت جاری رکھتی ہیں اور نہ ہونے کی صورت میں اپنی معاشی بقا اور خاندان پر بوجھ نہ بنیں تب بھی ملازمت کرتی ہیں۔ دونوں صورتوں میں اصل مقصد صرف بقا کا ہے جس کے لیے وہ محنت کرتی ہیں۔

یہ ورکنگ کلاس کا وہ گروہ ہے جو رزق حلال اور اس کے لیے محنت پر یقین رکھتا ہے اور ملازمت کے تحفظ کے لیے ان سمجھوتوں کی طرف نہیں جاتا، جس کا رونا اکثر ہم لوگ اپنے کالمز میں بھی روتے ہیں کہ ورکنگ ویمن کا برا حال ہے مگر اس زاویے کو ہم ہمیشہ نظر انداز کر جاتے ہیں، کہ عورت کی سب سے بڑی دشمن عورت ہے۔

جی ہاں! جب ایک جگہ پر ایک ہی پوزیشن پر ایک طرف اسی شعبے میں اعلیٰ تعلیم یافتہ اور باوقار عورت کے مقابلے میں کم پڑھی لکھی مگر سفارش اور ناجائز ذرائع سے ایک نا اہل اور کم تعلیم یافتہ عورت دُگنی چوگنی تنخواہ پر آتی ہے، تب حقیقی ورکنگ ویمن جس اذیت سے گزرتی ہے، اس کا اندازہ کوئی نہیں لگا سکتا۔ یہ وہ استحصال ہے جو ہر دفتر میں کام یابی سے جاری ہے۔ اس پر یہ دکھ بھی افسران بالا کو آسودگی دینے والی کا کام بھی اسی کو کرنا پڑتا ہے۔

محنت ہار جاتی ہے اور اعلی سیٹ پر بیٹھے مردکی جنسی آسودگی جیت جاتی ہے اور نا اہل فرد آ کر پورے دفتر کا ماحول بھی خراب کر دیتا ہے۔ لوگ پیٹھ پیچھے صرف باتیں کرتے ہیں اور جب وہ نا اہل حسینہ سامنے آتی ہے، تو نظریں سینکنے والے، اس کے آگے پیچھے نادیدہ دم ہلاتے نظر آتے ہیں، اور وہ کس طرح ان سے کام نکلواتی ہے، اس کا تجربہ ہم سبھی کو رہا ہو گا۔ یہ رویے صرف ہمارے یہاں نہیں ہے، بلکہ ایسے سستے سودے تقریباً دُنیا کے ہر دوسرے ملک اور معاشرے میں ہوتے ہیں، جہاں نا اہل افراد سفارش اور پیسے کے بل بوتے پر اہل افراد سے آگے بڑھ جاتے ہیں۔ اعلیٰ کلاس میں مامے چاچے ہوتے ہیں، جب کہ چھوٹی کلاس میں جسمانی سفارش اس راہ کی ہم سفر بن جاتی ہے۔

یہاں بھی ایک بات واضح ہو جائے جو ایک بار بک جائے اسے لت لگ جاتی ہے، کہ چلو یہی آسان راستہ ہے؛ پھر اس راستے پر چلنے والوں کو کوئی نہیں روک سکتا۔ ڈگری پاس نہیں اور کوئی دوسری قابلیت نہیں، دھندے میں جاتی ہیں تو بدنامی الگ اور ملازمت کی صورت میں پوچھنے والا کوئی نہیں کہ کہاں سے آ رہا یہ پیسا۔ حالاں کہ ایک ایف اے بی اے پاس لڑکی جب فیلڈ میں آتی ہے، بغیر کسی اعلیٰ تعلیم اور تجربے کے تو اسے سیکھنے کے لیے موقع دیے بغیر اعلیٰ تنخواہ پر ملازمت دینا ہی کرپشن کی بنیاد ہے، اور اس کرپشن کا سب سے بڑا شکار وہ اعلیٰ تعلیم یافتہ خواتین ہیں جو تجربے اور ڈگری کے باوجود ایک بہتر ملازمت کے حصول میں نا کام رہتی ہیں اور کم تنخواہ پر کام کرتی ہیں۔

اعلیٰ تعلیم یافتہ عورت اعلیٰ سماجی مقام تک اس لیے نہیں پہنچ پاتی کہ وہ گندے سمجھوتوں کے حق میں نہیں اور اکثر و بیش تر کم پڑھی لکھی وہ مقام و مرتبہ حاصل کر جاتی ہے، جس کی وہ حق دار بھی نہیں ہوتی۔ ان سارے معاملوں میں اس نا اہل عورت کے ساتھ ساتھ وہ مرد بھی مجرم ہے جو ایسی خواتین کی حوصلہ شکنی کرنے کی بجائے ان کی حوصلہ افزائی کرتے ہیں۔ انھیں مواقع فراہم کرتے ہیں، جس سے حقیقی ٹیلنٹ سرد خانے میں چلا جاتا ہے ۔ جس کا نقصان یہ بھی ہے کہ معاشی ترقی کی رفتار متاثر ہوتی ہے۔

یہ ایک عالمی مسئلہ ہے کہ نا اہل افراد کی تعیناتی ملک و قوم کے ساتھ وہ ظلم ہے؛ جس سے ملک، معاشرہ اور معیشت سبھی تباہ ہو جاتے ہیں۔ پڑھی لکھی اور اپنے شعبے میں مہارت رکھنے والی خواتین کی تعداد میں اضافہ ہو رہا ہے اس لیے انھیں ان کی قابلیت کی بنیاد پر اسی شعبے میں جگہ نہ ملنا ان کے ساتھ ساتھ اس شعبے پر بھی ظلم ہے۔ ہمارے میڈیا میں اکثر ایسا ہی ہوتا ہے۔ اس لیے میرا یہ ماننا ہے کہ ملک میں تبدیلی نظام بدلنے سے کہیں پہلے سوچ اور رویے بدلنے سے آئی گی۔ اس لیے ہر جگہ ایسے افراد کی حوصلہ شکنی ہونی چاہیے، جو نا اہل ہیں اور صرف مخصوص بنیادوں پر آگے آنے ہی کو کام یابی کا ضامن سمجھتے ہیں۔

’ہم سب‘ کا مصنفہ کی سوچ سے کلی اتفاق نہیں۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).