عمران خان صاحب! حقیقی تبدیلی کی طرف آئیں۔۔ اور وہ یہ تین کام ہیں


ایک ہوتی ہے وقتی ریٹنگ، یعنی شعبدہ بازی، آپ کچھ ایسا کام کرتے ہیں جس سے آپ کی واہ واہ ہوجاتی ہے، مثال کے طور پر وہ ریٹنگ جو کسی اینکر کو تب حاصل ہوتی ہے جب وہ اپنے شو میں دو سیاستدانوں کی لڑائی کروا دیتا ہے۔ لیکن یہ دیرپا نہیں ہوتی، لوگ چند دن کے بعد بات بھول جاتے ہیں۔ اور دوسری ہوتی ہے مستقل ریٹنگ، جس کے لیے محنت، ریاضت اور وقت درکار ہوتا ہے، آپ دنوں میں مشہور نہیں ہو سکتے۔ مثال کے طور پر وہ ریٹنگ جو پاکستان ٹیلی ویژن کے نیلام گھر والے طارق عزیز صاحب کو حاصل ہوئی۔ یہ بات واضح ہونے کے بعدموضوع کی طرف آتے ہیں۔ جناب وزیراعظم صاحب! ہزاروں مبارکبادوں کے بعد آپ کو ایک بات بتاؤں کہ قوم کو اس سے کوئی فرق نہیں پڑتا کہ وزیر اعظم مرسڈیز گاڑی استعمال کرتا ہے یا سائیکل پر دفتر جاتا ہے۔

وزیراعظم ایک جھونپڑی میں رہتا ہے یا کنالوں پر مشتمل گھر میں رہتا ہے، سوٹ اور ٹائی پہنتا ہے یا قومی لباس زیب تن کرتا ہے، مہمانوں کو مٹن کڑاہی کھلاتا ہے یا چائے کا ایک کپ پلا کر رخصت کردیتا ہے، وزیراعظم ہاؤس میں 500ملازم ہیں یا صرف دو ملازم۔ یہ سب باتیں، یقین کریں یہ سب باتیں ثانوی ہیں۔ عام آدمی کو اپنے مسائل کے حل سے غرض ہے۔ اگر کوئی وزیراعظم عام آدمی کے مسائل حل کرتا ہے، اس کی پرفارمنس اچھی ہے تو یقین جانیں لوگ خود اس سے کہیں گے کہ جناب وزیراعظم آپ دس ملازم اور رکھ لیں۔ اگر کسی کے کرتوت اچھے ہیں تو لوگ خود ٹریفک میں کھڑے ہو کر کہیں گے کہ ہمارے لیڈر کو جانے دو، اس کا پروٹوکول برداشت کریں گے، یہ ہماری فلاح کے لیے سوچتا ہے، یہ ہماری بھلائی کے لیے کام کرتا ہے۔ لوگ اس کی عیاشیاں بھی برداشت کریں گے۔ اب وہ کون سے کام ہیں جو حقیقی تبدیلی کی بنیاد رکھ سکتے ہیں، جو عام آدمی کے مسائل ہیں۔ ویسے تو لسٹ بہت لمبی ہے لیکن 3کام ایسے ہیں جو اس ملک میں ہر عام آدمی کا مسئلہ ہیں۔

اچھا سرکاری سکول
اچھا سرکاری ہسپتال
اچھا تھانہ

یقین کریں عام آدمی کے یہی مسائل ہیں اور یہ وہ کام ہیں جو آپ کو حقیقی دیرپا ریٹنگ بھی دیں گے۔ مجھے معلوم ہے کہ یہ کام ایک دن میں نہیں ہو سکتے، ایک ماہ میں بھی نہیں ہو سکتے اور 100دن میں بھی نہیں۔ اس کے لیے آپ ایک سال کا عرصہ لیں یا اگر چاہتے ہیں کہ تو دو سال لے لیں۔ لیکن پھر اس کے بعد میں ہر اس شخص سے پوچھوں گا جو کہے گا کہ تبدیلی آئی ہے، میں اس سے پوچھوں گا کہ تمہارے بچے کہاں پڑھتے ہیں؟ اگر وہ کسی پرائیویٹ ادارے میں پڑھتے ہیں تو جان لیں کہ تبدیلی کوئی نہیں آئی۔ اس ملک کی مڈل کلاس دو انتہاؤں میں پھنس چکی ہے، ایک طرف سرکاری سکول ہیں تو دوسری طرف پرائیویٹ سکول۔ سرکاری سکول میں وہ جانا نہیں چاہتے اور پرائیویٹ سکول وہ افورڈ نہیں کر سکتے۔

ارادہ تو ہے کہ انشاء اللہ ان تینوں مسائل پر علیحدہ علیحدہ لکھوں گا لیکن آج چاہتا ہوں کہ آپ کو کچھ جھلک دکھاؤں۔ گزشتہ دنوں میرے ایک دوست نے بتایا کہ اس نے اپنے بیٹے کو ایک پرائیویٹ سکول میں داخل کروانا ہے۔ 80 ہزارروپے ایڈمیشن فیس ہے اور 20 ہزار روپے ماہانہ فیس۔ دوسری طرف سرکاری سکول ہیں۔ ان کے بینچ ٹوٹے ہوئے ہیں۔ عمارتیں گرنے کے قریب ہیں، آخر کیا ہوگیاہے؟ وہی سنٹرل ماڈل سکول جہاں سے لاہور شہر کے بے شمار سرکاری افسرز، پروفیسرز اور ڈاکٹرز خود پڑھے ہیں لیکن آج وہ اپنے بچوں کو وہ اس سنٹرل ماڈل سکول میں داخل نہیں کروانا چاہتے، آخر کیوں؟

سرکاری ہسپتالوں کی حالت اتنی بری ہے کہ کوئی بندہ سوچ بھی نہیں سکتا کہ وہ وہاں بیڈ پر لیٹ کر اپنا علاج کروائے گا۔ ہسپتال گندگی کا ڈھیر ہیں۔ آپریشن تھیٹرز انفیکشن کا سب سے بڑا سورس ہیں۔ ایم این ایز، ایم پی ایز، سرکاری افسر، سب اپنا اور اپنے عزیزو اقارب کا علاج کہاں کرواتے ہیں؟ ان کی میٹنگ بلائیں اور ان سے پوچھیں اور یہ بھی پوچھیں کہ سرکاری ہسپتال سے علاج کیوں نہیں کرواتے؟ عام آدمی تو پرائیویٹ ہسپتال جانے کا سوچ بھی نہیں سکتا، لاکھوں روپے فیس ہے۔ اور رہی بات تھانوں کی، ان پر تو کچھ بھی نہ لکھوں تو بہتر ہے۔ بس اتنا کہوں گا کہ عام آدمی کو اتنا ڈر چور سے نہیں لگتا جتنا پولیس والے سے لگتا ہے۔

خان صاحب، دو سال بعد قوم نے آپ سے ان باتوں کا حساب مانگنا ہے۔ آپ سے یہ گلے شکوے اس لیے کر رہا ہوں کہ آپ سے کچھ امید ہے، آپ کی باتوں سے لگتا ہے کہ آپ کچھ کرنا چاہتے ہیں، لیکن اگر کچھ کرنا چاہتے ہیں تو خدارا اس بات کی فکر نہ کریں کہ آج سوشل میڈیا اور الیکڑانک میڈیا پر آپ کی کتنی ریٹنگ آتی ہے۔ بلکہ اس بات کی فکر کریں کہ کیا دو سال بعد آپ اس پوزیشن میں ہوں گے کہ اپنے چاہنے والوں سے کہہ سکیں کہ اپنے بچے پرائیویٹ سکولوں سے سرکاری سکولوں میں لے آئیں۔ کیا آپ کے چاہنے والے یہ کہہ سکیں گے کہ آج ہم نے اپنا علاج سرکاری ہسپتال سے کروایا اور ہم مطمئن ہیں۔ اور کیا پولیس والے کو دیکھ کر لوگ احساس تحفظ محسوس کریں گے


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).