ٹوٹی ہوئی دیوار – ناول پہلی قسط


میں اپنی بازیافت کہوں یا خدا کہوں
جی چاہتا ہے جو بھی کہوں، برملا کہوں
(حمایت علی شاعر)

اپنے خوابوں کے نام
ایک ایسی دنیا جہاں رنگ، نسل اور مذہب کا فرق نہ ہو

پہلا باب
وقت:سہ پہر ساڑھے 4 بجے
تاریخ: 6نومبر، 2015
مقام:شاہ فیصل کالونی نمبر 5۔ کراچی

پکڑ پکڑ سالے کو، ذلیل کتا ہمارے نبیؐ کے لیے بکتا ہے، جرات کیسے ہوئی اِس مردود حرامی کی۔
ادریس پاگلوں کی طرح چیختا ہو ا سفید لٹھے کے کرتے شلوار والے شخص کو پکڑنے کے لیے بے تحاشہ دوڑا تو اُس کے نو سا لا لڑکے عثمان نے بد حواس ہوکر اپنی انگلی اُس کی مٹھی سے چھڑوائی اور پھر خوف زدہ ہوکر بھا گتا ہوا گلی کے کونے کی آدھی ٹوٹی ہوئی دیوار کے پیچھے جاکر چھپ گیا۔ دو چار منٹ کے بعد عثمان نے دیوار کی آڑ سے ڈرتے ڈرتے سر نکال کر ادھر ادھر دیکھا اور پھر دور چورنگی کے پار سڑک کے اُس جانب اُس کی نظر ٹھہر گئی جہاں اُس کا باپ، ادریس اُس شخص کو پکڑنے کے لیے اندھا دھند بھاگ رہاتھا جسے کچھ دیر پہلے ہی اُس نے چیخ کر گالی دی تھی اور گریبان پکڑ کر تھپڑ مارنے کی کوشش کی تھی مگر وہ شخص اُس کے ہاتھ کو جھٹکے سے چھڑا کر اب جان بچا کر بھاگ رہا تھا۔ عثمان ٹوٹی ہوئی دیوار کے پیچھے چھپ کر سہمی ہوئی نظروں سے اُس چوہے بلی کے منظر کو تکنے لگا۔

عثمان کے قریب ہی اُسی دیوار کے ایک کونے پر اکھڑوں بیٹھے ہوئے ادریس کے دوست رب نواز نے جونہی اسے یوں چیختے چلاتے بھاگتے ہوئے دیکھا توساتھ ہی کھڑے ہوئے اپنے یار کلو کو چیخ کر کہا :‘اوے کلو یہ ہے کون سالا حرامی جس کے پیچھے اپنا ادریس بھاگ رہا ہے؟ ابے اُدھر نہیں بے، اِدھر بے کلو۔ وہ دیکھ۔ جدھر ادریس بھاگ رہا ہے نا اُس کے آگے دیکھ ’ یہ کہہ کر رب نواز نے ایک ہاتھ سے کلو کی ٹھوڑی پکڑ کر دوسرے ہاتھ سے چورنگی کی جانب اشارہ کیا اور پھر اُس کے چہرے کا رُخ ادریس کی طرف کردیا، ’وہ دیکھ بے اُدھر سالے۔ چورنگی کی اُس جانب، اُدھر نیکو کے ہوٹل کے پاس۔ جس کے پیچھے ادریس لگا ہے۔ وہ ہے نہ سالا حرامی، سفید لٹھے کے کپڑے میں۔ ہاں ہاں و ہی۔ نظر آیا؟ ابے ابھی ابھی ادریس چیخ رہا تھا کہ سالے نے نبیؐ کی شان میں گستاخی کی ہے ’

کلو سے یہ کہہ کر رب نواز نے ادریس کی طرف دیکھ کر چیختے ہوئے کہا، ’پکڑ لے سالے کو ادریس۔ دیکھ جانے نہ پائے سالا۔ ۔ ہاتھ سے نہ نکلے۔ ‘
کلو نے بھی رب نواز کی چیخ سن کر ساتھ میں ایک دھاڑ لگائی، ’ اوے ادریس بھائی۔ جانے نہ پائے سالا۔ ‘

‘چل بے چل ’ یہ کہہ کر رب نواز اور کلو نے ایک دوسرے کے ہاتھ کھینچے اور ادریس کی طرف چیختے چلاتے ہوئے بھا گنے لگے، ’ابے پکڑ ادریس۔ سالے نے پیارے نبیؐ کے لیے بُرے لفظ بولے ہیں، اس کافر کی اولاد کو چھوڑنا نہیں ہے۔ پکڑو اوئے سالے کو۔ ‘ کلو اور رب نواز نے ساری چورنگی کو مخاطب کرتے ہوئے نعر ے لگاتے ہوئے پہلے پہل تو سڑک کی طرف بھاگے تاکہ چورنگی کے ساتھ ساتھ لگے ہوئے فٹ پاتھ پر دوڑ لگائیں مگر پھر اچانک شارٹ کٹ کے خیال سے چورنگی کی چھ اینٹوں والی دیوار کو پھلانگ کر پارک کے بیچوں بیچ دوڑنے لگے تاکہ پورے سرکل سے بچ کر صرف آدھا چوتھائی ہی کو کراس کر کے ادریس تک پہنچ جائیں اور کیسے بھی اُس شخص کو دبوچ لیں، جس نے نبیؐ کے لیے شاید کوئی بُری بات کہی تھی اورادریس کو بھڑکا دیا تھا۔ چاروں جانب پارک میں بیٹھے ہوئے لوگ اس ساری بھگد ڑ سے ڈسٹرب ہوکر کھڑے ہوہو کر رب نواز اور کلو کو بھاگتے ہوئے دیکھنے لگے۔

یکایک چورنگی میں لیٹا ہوا فارغ ما لیشیا، گھانس پر آلتی پالتی بیٹھے ہوئے دو نوں مولوی اور وہ چار چھ مزدور بھی جو صبح سے چورنگی کی دیوار پر بیٹھے ہوئے دیہاڑی کا انتظار کر رہے تھے، رب نواز اور کلو کے پیچھے پیچھے ادریس کی طرف بھاگنے لگے۔ کچھ ہی دیر میں ایک ایک کرکے کم و بیش ساری ہی چورنگی کے اور اطراف کے لوگ اور راہگیر ادریس کی طرف تیز تیز قدموں سے جانے لگے۔ رب نواز اور کلو نے تو خیرکچھ ہی دور بھاگتے ہوئے سڑک چھوڑی اور پھر چورنگی کی دیوار پر سے جست لگائی اور چورنگی کے بیچ سے دوڑ تے ہوئے سڑک کی اُس طرٖف پہنچ گئے جہاں ادریس اور دو چار قدم پر سفید لٹھے والا شخص ایک دوسرے کے پیچھے دوڑ رہے تھے۔
‘ پکڑ سالے کے ماں کی۔ ۔ ۔ ’ کلو نے دوڑتے ہوئے پھر چلایا۔

سفید لٹھے والے شخص نے وحشت سے جو اپنے پیچھے ایک ہجوم کو آتے ہوئے دیکھا تو بدحواس ہو کر پہلے تو سامنے کھڑے ہوئے کیلے کے ٹھیلے سے ٹکرا یا اور سر کے بل گرا اور پھر سے اُٹھ کر بھاگنے کی کوشش کی مگر اس بار اُس کا پاؤں کچھ اس طرح سے پھسلا کہ وہ خود پر قابو نہ کرسکا اور دوتین قلابازیاں کھا تا چلا گیا۔ اس سے پہلے کہ وہ سنبھل کر اُٹھ پاتا پیچھے سے آنے والے ادریس نے اُس پر چھلانگ لگائی اور اُسے کسی کتے کی طرح دبوچ لیا اور پھرپوری طاقت سے ایک لات اُس کے پیٹ کے نیچے لگائی جس سے لٹھے والے شخص کی شلوار اچانک سفید سے سرخ ہوگئی اور وہ دوبارہ قلابازیاں کھاتا ہوا بجلی کے کھمبے سے ٹکرایا، مگر اس بار اٹھنے کے بجائے وہی زمین پر کسی پلے کی طرح تکلیف کی شدت سے تڑپنے لگا۔

‘کیوں بے بھڑوے کیا بولا تھا تو ؟ ’ ادریس کے منہ سے جانوروں کی طرح جھاگ نکل رہا تھا، اُس نے اُس کی ایک ٹانگ کو پکڑا اور گھسیٹتا ہو ا بیچ چوراہے پرکھینچ لایا۔ اِس سے پہلے کہ لٹھے والے شخص کے منہ سے ایک لفظ بھی نکلتا کلو اور رب نواز بھاگتے ہوئے اُس کے سر پر پہنچ گئے اور پھر اُنہوں نے آؤ دیکھا نہ تاؤ، گھونسوں لاتوں اور تھپڑوں کی بھرمار شروع کر دی کہ پل بھر میں وہ آدھ موا ہوگیا اور سسک سسک کر رونے لگا۔

‘میں نے کچھ نہیں بولا۔ میں نے کچھ نہیں بولا۔ ’ وہ ہسٹریائی انداز میں چیخنے لگا، ’بھائی صاحب، بھائی صاحب، میں نے تو۔ میں نے تو، ان صاحب کو صرف اتنا ہی بولا تھا کہ محمد میرے نبیؐ نہیں ہیں۔ میں کرسچن ہوں بھائی میرے نبیؐ تو حضرت عیسیٰ ہیں۔ ’

‘سالے۔ پھر نام لیتا ہے تو کتے۔ وہ نبیؐ ہیں ساری دنیا کے، سب کے نبیؐ ہیں۔ تیری جرات کیسے ہوئی یہ بکنے کی۔ ِ تیری تو ؟ ’ کلو نے چیخ کر کہا ا ور دیا ایک اور گھونسا لٹھے والے کے پیٹ میں۔
‘سالا بلاسفیمی کر رہا ہے یہ۔ ’ دونوں مولویوں میں سے لمبے قد والے نے چلا کر مجمع سے کہا،
‘اور بھائیوں اسلام میں سزا موت ہے اس کی۔ مارو سالے کو۔ ایسے حرامی بہت ہوگئے ہیں اب ہر طرف۔ ’
‘یہودیوں کا اجنٹ ہے ذلیل سالا۔ بھنگی۔ کرسچن کی اولاد۔ ’ ادریس نے چیخ کر کہا

کچھ ہی دیر میں سارا مجمع گھونسو ں لاتوں اور جوتوں کے ساتھ سفید لٹھے والے شخص پر ٹوٹ پڑا، ادریس اُن سب میں آگے تھا۔ اُس نے اُٹھا کر ایک اینٹ دی لٹھے والے کے سر پر اور چیخ کر کلو سے بولا، ‘ابے کلو۔ جا پیڑول لا۔ سالے کو ابھی جہنم میں پہنچا دیتے ہیں۔ ’
کلو بھاگتا ہوا قریب کی میکنک کی دوکان سے مٹی کے تیل کا ڈبا اُٹھا لایا تو ادریس نے چیخ کر کہا، ’ہٹو بہنو۔ ۔ سب، دور ہٹو۔ اس کتے کی نسل کو آگ لگانی ہے، حرامی۔ آگے سے پھر کسی کو جرات نہیں ہوگی نبیؐ کو اپنا نبیؐ نہیں بولنے کی۔ ’

کلو نے مٹی کا تیل پھینکا لٹھے والے شخص پر اور ادریس نے ماچس جلا کر اُس پر تین چار جلتی ہوئی تیلیاں پھینک دیں۔ لٹھے والے شخص نے خوفزدہ نظروں سے لوگوں کو دیکھا اور دونوں ہاتھ جوڑ کر کہا، ’ اوہ بھائی مجھے چھوڑ دو، اللہ کے واسطے رسول کے واسطے مجھے چھوڑ دو، پیارے نبیؐ کے واسطے چھوڑ دو۔ ‘ ’ اور پھر وحشت سے اٹھ کر بھاگنے کی کوشش کی مگر آگ یک لخت بھڑک گئی اور پھر اُس کی چیخنے اور کراہنے کی درد ناک آوازیں زور زور سے گونجنے لگیں، وہ بدحواس ہوکر جلتا ہوا ادھر ادھر بھاگنے لگا مگر بھاگنے سے آگ نے اور بھی شدت اختیار کرلی اور اُس کو پوری طرح اپنے لپیٹے میں لے لیا، وہ چیختا ہوا زمین پر لوٹنے لگا مگر آگ بھڑکتی ہی چلی گئی اور پھر دیکھتے ہی دیکھتے زندہ گوشت کے جلنے کی بو دھوئیں کے ساتھ چاروں جانب پھیلنے لگی اور کچھ ہی دیر میں ہی اُس کی آوازیں کراہٹوں سے بدل کر ختم ہو نے لگیں۔

مجمع پہلے تو کچھ دیر کھڑا اُس کے جلتے ہوئے جسم کے تڑ پنے کا منظر دیکھتا رہا مگر جب لٹھے والے کی جلی ہوئی لاش کی آخری حرکت بھی ختم ہوگئی تو پھر لوگ ایک ایک کرکے چھٹنے لگے سوائے کچھ لوگوں کے جو ایک طرف کھڑے ہوئے سیل فون کے کیمرے سے اُس کے آخر تک جلنے کا وڈیو بناتے رہے۔ کچھ ہی دیر میں ادریس بھی مجمع سے نکل گیا مگر نکلتے نکلتے اُس نے لٹھے والے کی جلی ہوئی لاش پر تھوک کر کلو اور رب نواز سے کہا، ’سالا کتے کی نسل۔ ابھی وہاں اپنے نرک میں جلے گا سا لا حرامی۔ چل بھئی کلو۔ نکل یہاں سے، ابھی یہاں پولیس کیس ہونے والا ہے۔ ’

یہ سن کر کلو نے چیخ کر کہا، ’کاہے کا پولیس کیس سالے۔’ تھانے کو آگ لگا دیں گے کسی نے اگر کچھ کیا۔ اسلام میں بلاسفیمی کی سزا موت ہے۔ کیا ان سالے پولیس کے کتوں کو نہیں پتہ ؟ ‘
‘اچھا چل چل۔ ابھی تو چل نکل یہاں سے۔ ’ ادریس نے ادھر ادھر دیکھا اور پھر کچھ یاد کرتے ہوئے کہنے لگا :
‘ابے اوے، یہ عثمان کدھر ہے ؟ ’
‘عثمان کون ؟ ‘ کلو نے ادریس سے پوچھا۔

‘ابے میرا لونڈا اور کون۔ وہ میرے ساتھ تھا۔ جب میں اُس کتے کے تخم سے بات چیت کر رہا تھا اور اُس حرامی نے بکواس کی تھی اور سارا دماغ اُلٹ دیا مادر۔ نے، مگر یہ بتا بے عثمان کو دیکھا تو نے؟ ’
‘ ابے دیکھتے ہیں یار۔ یہی کہیں ہوگا، کہاں جائے گا ؟ اچھا یہ تو بتا سالے، یہ بھڑ۔ تھا کون؟ ‘ رب نواز نے ادریس سے پوچھا۔

‘بتاؤں گا یار۔ لمبا قصہ ہے۔ ’ ادریس نے آسمان کی طرف دیکھا، ’ یہ پھڈا کئی دنوں سے چل رہا تھا اور مجھے پتہ تھا اس کی پھینٹی لگے گی۔ پر اس بار اس حرامی نے تو حد ہی کر دی۔ ‘
‘اسی لیے تو مرا سالاجل کر۔ ’ کلو بولا
‘ ابے وہ رہا عثمان۔ اُدھر۔ ’ اچا نک رب نواز نے ادریس کا شانہ ہلا کر چورنگی کی دوسری طرف، گلی کے کونے کی طرف اشارہ کر کے کہا، ‘ ’ادھر اُس طرف، وہ رہا نہ۔ اُدھر ٹوٹی ہوئی دیوار کے پیچھے۔ ۔ ‘

‘اوئے عثمان ابے ادھر آ۔ ’ ادریس نے عثمان کو دیکھ کر چیخ کر کہا اور ہوا میں ہاتھ ہلانے لگا۔
مگر عثمان دیوار کے پیچھے سے چھپ کر یونہی وحشت اور خوف سے سے لٹھے والے شخص کی جلتی ہوئی لاش کے دھویں کو دیکھتا رہا۔ جب ادریس نے دیکھا کہ عثمان اُس کی طرف دیکھنے کے بجائے مسلسل دوسری طرف دیکھ رہا ہے تو اُس نے پھر سے زور سے آواز لگائی،

‘اوئے عثمان ادھرآ بے۔ ادھر آ۔ ‘ ادریس کی آواز سُن کر عثمان یک لخت پلٹا اور کھوئی ہوئی نظروں سے اپنے باپ کو تکنے لگا اور پھر اچانک اُس کو ایک زور کی ابکائی آئی اور اُس نے ٹوٹی ہوئی دیوار کے پیچھے ایک لمبی سی قے کر دی۔

ناول ٹوٹی ہوئی دیوار۔ دوسری قسط اگلے ہفتے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).