اسلامی نظریاتی کونسل کے ناقابل قبول مشورے


\"edit\"یوں لگتا ہے کہ پاکستان کی اسلامی نظریاتی کونسل نے خود پر یہ ذمہ داری عائد کر لی ہے کہ وہ ملک کو پتھر کے زمانے میں واپس لے جانے کے لئے  ہر ممکن کوشش کرے گی، لیکن اس کے ارکان جدید دور کی تمام سہولتوں سے بخوبی فائدہ اٹھاتے رہیں گے۔ مولانا محمد خان شیرانی کی قیادت میں اسلامی نظریاتی کونسل نے ملک میں خواتین کے تحفظ کے لئے ایسا قانون بنانے کی سفارشات مرتب کی ہیں جن پر عملدرآمد سے صرف پاکستان ہی نہیں، اسلام پر عائد کئے جانے والے الزامات درست ثابت ہو جائیں گے۔ یہ شرائط چونکہ اسلام نافذ کرنے کے نام پر کونسل کے معزز اراکین نے تیار کی ہیں جو اپنے اپنے طور پر اسلام پر اتھارٹی ہیں، لہٰذا کوئی یہ کہنے کا حوصلہ بھی نہیں کر سکے گا کہ ان لوگوں نے عقیدہ کی غلط تشریح کی ہے۔ کیونکہ جواب دینے والے یہ حضرات خود ہی ممتحن کا درجہ رکھتے ہیں اور اپنے کہے کو ہی سند مانتے ہیں۔ بدنصیبی کی بات یہ ہے کہ یہ سارے کارنامے پاکستان کے غریب عوام کے ادا کردہ ٹیکس اور محاصل سے حاصل ہونے والے وسائل صرف کر کے انجام دیئے جا رہے ہیں۔ زیر بحث تجاویز کے بعد ملک کی حکومت اور پارلیمنٹ کے پاس کوئی جواز باقی نہیں رہ جاتا کہ وہ فرسودہ اور گمراہ کن سوچ رکھنے والے ان کٹھ ملاؤں کے گروہ کو دین کے تحفظ اور ترویج کے نام پر قومی وسائل فراہم کرے۔

محمد خان شیرانی احمقانہ اور متنازعہ تجاویز اور نظریات کی وجہ سے شہرت حاصل کرتے ہیں۔ خبر چھپوانے یا بحث میں رہنے کے لئے  کوئی شخص کسی بھی قسم کا طرز عمل اختیار کرنے کا حق رکھتا ہے۔ لیکن اگر یہ کام مملکت پاکستان کے وسائل صرف کر کے اسلام اور عقیدہ کے نام پر کیا جائے گا تو اس کی اجازت نہیں دی جا سکتی۔ بطور چئیرمین محمد خان شیرانی کو وزیر کے مساوی رتبہ اور مراعات حاصل ہیں۔ وہ اتنی ہی تنخواہ پاتے ہیں۔ اعلیٰ عمارت میں شاندار دفتر میں بیٹھتے ہیں۔ ایسی گاڑی میں سفر کرتے ہیں جس کا تصور بھی عام آدمی کے لئے  محال ہے لیکن اسلام کی تشریح کے نام پر جہالت اور گمراہی اور براہ راست غلط توجیہہ اور ترجمانی کی ایسی مثالیں قائم کرتے ہیں کہ انسان حیرت سے انگشت بدنداں رہ جاتا ہے۔ انہیں یہ پوزیشن ان سیاسی خدمات کے عوضانے کے طور پر حاصل ہوئی ہے جو ان کی جماعت جمعیت علمائے اسلام (ف) اور اس کے سربراہ مولانا فضل الرحمان ملک کے کسی بھی حکمران کی خدمت اور وفاداری کی صورت میں پاتے ہیں۔ آج کل جبکہ ملک بھر کی اپوزیشن اور عوام لیڈروں کی کرپشن کے خلاف سراپا احتجاج ہیں اور چاہتے ہیں کہ قومی دولت لوٹنے کے ہتھکنڈوں کا خاتمہ ہو سکے، تو مولانا فضل الرحمان وزیراعظم نواز شریف کا حق نمک ادا کرنے کے لئے  ان کے سیاسی دشمنوں پر پھبتیاں کسنے، جھوٹے سچے الزام لگانے اور کرپشن کو اسلامی لبادہ پہنانے کی کوششوں میں مصروف ہیں۔ شاید ان کے اختیار میں نہیں ورنہ وہ یہ بیان بھی جاری کر دیں کہ نواز شریف کی کرپشن کی بات کرنے والا دائرہ اسلام سے خارج ہو جائے گا۔

ایسی خدمت کے عوض حاصل ہونے والے عہدے کی بنیاد پر مولانا شیرانی “حقیقی اسلام“ نافذ کروانے سے پہلے اس بات کا جواب دیں کہ کیا سیاسی رشوت میں ملے ہوئے عہدوں سے حاصل ہونے والی آمدنی حلال ہو جاتی ہے۔ ان لوگوں نے شریعت کو موم کی ناک بنا لیا ہے جو ان کی خواہشات اور ضروریات کے مطابق مروڑی جا سکتی ہے لیکن ان حرکتوں سے ملک کے عام لوگ عقیدہ کے بارے میں گمرہی کا شکار ہوتے ہیں۔ یہی رویہ کسی نہ کسی شکل میں انتہا پسندی کا سبب بنتا ہے۔ اور ایک ایسے مزاج کو جنم دیتا ہے جہاں دلیل اور حجت سے کام نہیں لیا جا سکتا بلکہ عقیدہ کا نام لے کر حکم جاری کئے جاتے ہیں۔ جو ان احکامات سے سرتابی کا حوصلہ کرے اس کے واجب القتل ہونے کا فتویٰ صادر ہو جاتا ہے۔

اسلامی نظریاتی کونسل کے معزز ارکان ائر کنڈیشنڈ عالیشان دفاتر میں بیٹھ کر تجاویز تیار کرنے کی بجائے اگر کھلے میدان میں کسی درخت کے سائے میں بیٹھ کر یا گارے مٹی سے بنی کسی اندھیری مسجد میں جمع ہو کر یہ تجاویز تیار کرتے، ان کے تن پر تہبند اور سر پر معمولی کپڑے کی ٹوپیاں یا پگڑیاں ہوتیں تو یہ مانا جا سکتا تھا کہ گئے وقتوں کے یہ لوگ عہد جدید کی تبدیلیوں سے آگاہ نہیں ہیں۔ اس لئے ان کی کل بصیرت اس ماحول تک محدود ہے جس میں وہ سانس لیتے ہیں۔ لیکن ان ملاؤں کی عملی زندگی میں وہ تمام سہولتیں موجود ہیں۔ انہیں ان میں کسی بھی راحت سے انکار نہیں ہے ۔۔۔۔۔ خواہ وہ امپورٹڈ موٹر سے چلنے والے ائر کنڈیشنر ہوں، غیر محرم ہاتھوں سے تیار کردہ نرم و نازک موبائل فون ہو یا پرتعیش قیمتی گاڑیاں ہوں جو غریب کے ادا کردہ ٹیکس سے جمع کئے ہوئے وسائل سے خرید کر ان رہنماؤں کے حوالے کر دی جاتی ہیں۔۔۔۔ لیکن جب معاشرے میں انصاف قائم کرنے، ظالم کا ہاتھ روکنے، استحصال کو ختم کرنے، عقیدے کی مقدس کتاب کا حوالہ دے کر قانون شکنی کرنے، اور مظلوم طبقوں یا اقلیتوں کو مساوی حقوق دلانے کا سوال سامنے آتا ہے تو فوری طور سے قرآن کی کوئی آیت یا حدیث کی من چاہی تشریح ان سب فیصلوں کے راستے میں دیوار بن کر کھڑی ہو جاتی ہے۔ اگر ان علما کی دین پر دسترس کا یہی عالم ہے تو حیرت ہے کہ اسلامی نظریاتی کونسل ’’اجتہاد‘‘ کے نام سے جو جریدہ شائع کرتی ہے، اس میں کون سے نئے پہلو تلاش کئے جاتے ہوں گے یا بدلتے وقت کے مطابق قرآن کو سمجھنے کا کون سا راستہ بتایا جاتا ہو گا۔

فروری میں پنجاب اسمبلی نے خواتین کے تحفظ کا قانون منظور کیا تھا۔ عورتوں کے لئے دنیا میں تیسرے خطرناک ترین ملک کی شہرت پانے والے پاکستان میں یہ خبر تازہ ہوا کا جھونکا محسوس ہوئی تھی۔ لیکن ملک کے وسائل پر پلنے والے ملاؤں پر مشتمل اسلامی نظریاتی کونسل نے اسے غیر اسلامی قرار دیتے ہوئے مسترد کر دیا۔ اس ناگوار تجربہ کی روشنی میں خیبر پختونخوا کی حکومت نے پنجاب کے قانون سے ملتا جلتا بل اسمبلی سے منظور کروانے سے قبل اسلامی نظریاتی کونسل کو بھجوانے کا فیصلہ کیا تو اسے بھی اسلامی احکامات کے خلاف قرار دیا گیا۔ اب 163 نکات پر مشتمل جو مسودہ تیار کیا گیا ہے، اسے عورتوں کے تحفظ کے لئے  مثالی قانون کا نام دیا گیا ہے، کیونکہ ان شقات کی روشنی میں یہ ملا ملک کے مردوں کو عورتوں کو اپنی وراثت سمجھنے کا اختیار دینا چاہتے ہیں۔ رسول پاک صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے اپنے پیغام اور عمل کے ذریعے رحمت، تحفظ اور احترام کا جو پیغام عام کیا تھا، آج کے مولوی اسی رحمت العالمین صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے اسوۃ کی آڑ میں وہ چلن عام کرنا چاہتے ہیں جو زمانہ جاہلیت کی یاد دلاتا ہے۔

اسلامی نظریاتی کونسل کی تجاویز اگرچہ خواتین کے تحفظ کے نام سے پیش کی جا رہی ہیں لیکن ان میں اہم ترین شرط یہ ہے کہ شوہر، بیوی کو مارنے کا شرعی حق رکھتا ہے۔ عورت کو خلع حاصل کرنے کا مساوی حق حاصل نہیں ہے۔ بالغ عورت اپنی مرضی سے نکاح کر سکتی ہے لیکن نابالغ بچیوں کی شادیاں کرنے والے وارث باپوں اور بھائیوں پر کوئی پابندی بھی عائد نہیں ہے۔ بلکہ اگر مولانا شیرانی کی بات مان لیں تو لڑکیوں کو گیارہ بارہ سال کی عمر میں بیاہ دینے کی روایت فروغ پا سکتی ہے۔ ان نکات میں ایسی باتیں بھی شامل کی گئی ہیں جو فی زمانہ غیر متعلقہ ہیں۔ مثال کے طور پر جنگ میں عورتوں کو مارنا منع ہے۔ گویا اسلامی مملکت کی فوج جو بم پھینکتی ہے اس پر اسلامی نظریاتی کونسل کا یہ حکم نامہ ثبت کر دیا جائے گا کہ یہ بم عورتوں کو ہلاک نہیں کر سکتا۔ ان تجاویز کے مطابق عورتوں پر تیزاب پھینکنا، غیرت کے نام پر قتل، کاروکاری اور ونی جیسی رسوم غیر اسلامی ہوں گی۔ لیکن ان علتوں میں مشغول لوگوں کو کیا سزا دی جائے گی اور معاشرہ کو ایسے بے حس اور غیر انسانی کام کرنے والوں سے کیسے محفوظ بنایا جائے گا، اس بارے میں اسلامی نظریاتی کونسل اپنے لب سی لیتی ہے۔

عورتوں کو تحفظ دینے کے نام پر ’’فحش اشتہارات‘‘ میں عورتوں کے کام کرنے پر پابندی ہو گی مگر مرد شاید اس پابندی سے مستثنیٰ ہوں گے کیونکہ ان کا ان تجاویز میں ذکر نہیں ہے۔ ماں بننے والی ہر عورت دو برس تک بچے کو دودھ پلانے کی پابند ہو گی اور اسے اس پر مجبور کرنے کے لئے  ملک میں بچوں کے دودھ کی فروخت پر پابندی لگائی جائے گی۔ مخلوط تعلیم کو اسلام کے برعکس قرار دینے کے علاوہ یہ باریک نکتہ بھی سامنے لایا گیا ہے کہ خواتین نرسیں مرد مریضوں کی دیکھ بھال نہیں کر سکتیں۔ یہ الگ بات ہے کہ چاروں فقہ کے امام عورت کا کسی مرد ڈاکٹر سے معائنہ کروانا اور کسی خاتون ڈاکٹر کا مریض مردوں کو دیکھنا جائز قرار دیتے ہیں۔

ملک میں اسلام نافذ کرنے کے شوقین یہ ملا اگر عورتوں اور اقلیتوں پر ہونے والے ظلم کے بارے میں آواز اٹھاتے، ان مذہبی تنظیموں کا ذکر کرتے جو اقلیتوں کی کمسن لڑکیوں کو اٹھا کر انہیں زبردستی مسلمان کرنے کا اعلان کرنے والے غنڈہ عناصر کی سرپرستی کرتی ہیں، کمزور عورت پر ہاتھ اٹھانے والے مردوں کی تنبیہ کا کوئی راستہ نکالتے، غیرت کے نام پر نابالغ بہنوں کو قتل کرنے والےبھائیوں کو لگام ڈالنے کی بات کرتے، شادی سے انکار کرنے والی خاتون کا چہرہ جھلسنے والوں کو پابند کرتے یا مظلوم و مجبور لڑکیوں کو زبردستی اپنی ہوس کا نشانہ بنانے والوں کو سماج کا دشمن قرار دیتے ہوئے ایسے درندوں کے خلاف قانون سخت اور موثر کرنے کی بات کرتے تو شاید یہ مانا جا سکتا کہ ان کی نیت میں فتور نہیں ہے اور یہ معاشرہ میں اصلاح کے نقطہ نظر سے بات کر رہے ہیں۔ اور سب سے بڑھ کر اگر نظریاتی کونسل کے زعما یہ تسلیم کرتے کہ سوال کرنا ہر کسی کا حق ہے اور اس کا راستہ روکنے والا اصل گمراہ ہے تو ان کی کوتاہیوں کی اصلاح کے لئے  بات کی جا سکتی تھی۔ لیکن مولانا محمد خان شیرانی کی قیادت میں اس اہم قومی ادارے نے بہتری کے لئے  کام کرنے اور مستقبل میں قدم رکھنے کی بجائے معاشرے کو قرون وسطیٰ میں لے جانے کا عزم کیا ہے۔ سوال کرنے کا راستہ بند کیا ہے۔

پرانے زمانے میں بھی ظلم کے خلاف آواز اٹھانے کے لئے  کسی فتویٰ اور کسی مولوی کی ضرورت نہیں پڑتی تھی۔ آج کے زمانے میں ہمارا مولوی کسی ظلم کے خلاف آواز اٹھانے کی بجائے ظالم کو درست ثابت کرنے میں اپنا علم اور صلاحیت صرف کرتا ہے۔ کوئی مولوی کبھی کسی اقلیتی گروہ پر حملہ کے بعد مذمت کرنے کے لئے سامنے نہیں آتا اور نہ متاثرین سے ہمدردی کرتا ہے، عورتوں کے ساتھ ظلم کے کسی واقعہ کو مسترد نہیں کرتا بلکہ کوشش کرتا ہے کہ ایسے سانحات کی ذمہ داری عورتوں کی بے پردگی پر ڈال کر معاملہ ختم کر دیا جائے۔ یہ لوگ کیوں کر ایک ایسے پیغام کو عام کر سکتے ہیں جو سب کے لئے  انصاف، مساوات، تحفظ اور بھلائی کے لئے  آیا تھا۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

سید مجاہد علی

(بشکریہ کاروان ناروے)

syed-mujahid-ali has 2750 posts and counting.See all posts by syed-mujahid-ali

Subscribe
Notify of
guest
4 Comments (Email address is not required)
Oldest
Newest Most Voted
Inline Feedbacks
View all comments