امریکہ کی چند اچھی بری باتیں


سیاسی، سماجی اور آئینی ارتقا بارے پروگرام میں دنیا کے 20 ممالک کے لوگوں کو دوماہ کے لیے امسال امریکہ مدعو کیاگیا۔ پاکستان کی طرف سے راقم الحروف ایک مقابلے کے بعد منتخب ہوا۔ میزبان اداروں نے پروگرام کو علمی اور تکنیکی طور پر بہترین انداز میں ترتیب دیا۔ ایشیا، مشرق وسطی، لاطینی امریکہ، روس، وسط ایشیا، یورپ، ا افریقہ کے مختلف ممالک کے ابھرتے ہوے نوجوان لیڈروں کے ساتھ قریباً دو ماہ تک ساتھ کام کرنے اور بحث ومباحثہ کا ایک نہایت ہی مفید تجریہ رہا۔ مشترکہ سیاسی مشقیں، مباحثے، لیکچرز، مذاکرے، سیمینار، ، تدریسی سیشن، ثقافتی دورے سیکھنے کا زبردست موقع تھا۔ ، ایوان بالا اور ایوان زیریں میں منتخب نمائندوں ے ملاقاتیں، مشہور امریکی تھنک ٹینک، سیاسی اور سماجی طور پر اہمیت کی حامل جگہوں کے دورے، تحقیق اور باقاعدہ امریکی صدارتی الیکشن لڑنے کی مشق، اس پروگرام کا نمایاں حصہ تھیں۔

پروگرام کا بنیادی مقصد دنیا بھر سے آئے سکا لرز کو امریکی سیاسی، سماجی اور معاشرتی ارتقا کے بارے تفصیلی مطالعہ اور عملی سیاست بارے ان کی استعداد بڑھانا تھا۔ دوسرا امریکی سیاست کے پیچ و خم بارے بہترین پروفیسرز، سیاسی ماہرین، تحقیق کار، سیاستدان، اور متحرک لوگوں سے تفصیلی مذاکرے اور بات چیت کے ذریعے ایک دوسرے سے سیکھنے کا موقع فراہم کر نا تھا۔ مجموعی طور پر، 55 سے زائد سیشنز معروف جامعات میسا چوسٹٹس یونیورسٹی، یونیورسٹی آف ییل، ہارورڈ یونیورسٹی، ورجینیا یونیورسٹی، شیفڈڈ یونیورسٹی اور جارج واشنگٹن یونیورسٹی میں منعقد ہوے۔ مزید برٓاں نیو ہیووین، کنیکٹک، نیو یارک شہر، واشنگٹن ڈی سی، ہارسبرگ، پنسلوانیا، شپنپنبر، شہر میں دو ہفتوں پہ شتمل مختلف سیاسی اور سماجی شخصیات سے ملاقاتیں شامل تھیں۔ شیفڈ ٹاؤن، اور ورجینیا میں اہمیت کے مختلف سیاسی اور ثقافتی سائٹس کا دورہ کیا۔

پروگرام کے دوران متعلقہ شعبوں کے بہترین امریکی ماہرین کے ساتھ بات چیت سیکھنے کا ایک بڑا مفید تجربہ تھا جس نے امریکی معاشرے، سیاسی نظام، اور سیاسی ارتقا، کو سمجھنے کا بھر پور موقع فراہم کیا۔

مضامین میں فیڈرلزم، آئینی حیثیت، آزادی کا اعلان، امریکی صدر، کانگریس، سپریم کورٹ، وفاقی، سیاسی جماعتیں، قانون سازی اور انتخابات، موجودہ صدارتی انتخابات، شہری حقوق اور آزادی، امیگریشن، خارجہ پالیسی اور بین الاقوامی معاملات، لابیز، سیاست میں سرمائے کا کردار، سیاسی نظریات اور امریکی سیاسی سوچ، سماجی تحریکیں، عسکری پالیسی، میڈیا، سیاست اور مذہب شامل تھے۔ اس کے علاوہ متعدد ریاستوں میں مقامی کونسلروں سمیت منتخب نمائندوں کے ساتھ تفصیلی بات چیت کا موقع ملا جس میں امریکی کانگریس کے نمائندے بھی شامل ہیں۔

امریکہ مختلف النسل اقوام کا ملک ہے۔ امریکہ کی ترقی کا راز اس کا تنوع ہے۔ دنیا بھر سے مارے بھٹکے لوگوں کو اس ملک نے ٹھکانہ فراہم کیا۔ شناخت دی، احترام اور عزت نفس بحال کی۔ یہ سب کچھ حاصل کرنے کے لیے بہت بڑی سماجی اورسیاسی جدوجہد کی گئی جس کا تذکرہ آنے والے مضامین میں تفصیل سے کیا جائے گا۔ امریکہ کا کوئی اپنا کھانا مقامی نہیں۔ زیادہ تر اطالوی، یورپین اور ایشیائی کھانے مشہور ہیں۔ سینکڑوں سال گزرنے کے باوجودآج بھی امریکہ میں رنگ و نسل موضوع بحث بن ہی جاتا ہے۔ امریکہ کی بنیادی اقدار میں انسان کی شخصی آزادی اہم ہے۔

میسیچیوسٹس میں ہمارا پڑاؤ قدرے زیادہ تھا۔ یہ ایک لبرل سٹیٹ ہے (لبرل کے معانی ہمارے ہاں کے معانی سے کافی مختلف ہیں) یہ ڈیمو کریٹس کی ریاست ہے۔ یہاں لوگ مذہب سے گہرا لگاؤ رکھتے ہیں۔ 88 فیصد خدا کے ماننے والے اور باقاعدگی سے چرچ، مسجد، اور باقی عبادتگاؤں میں جاتے ہیں۔

19 ویں صدی کے وسط میں چینی باشندوں کی ایک بہت بڑی تعداد نے امریکہ ہجرت کی جو برطانیہ کے قبضے کے باعث مالی مشکلات کی وجہ سے کیلیفورنیا آئے اور محنت کی مثال قائم کی۔ امریکہ ان کے لیے مالی آسودگی کا ذریعہ تو تھا پر سب سے بڑھ کر آزادی اور عزت نفس کا منبع بنا۔

امریکہ کی بنیاد میں پسے ہوئے اور مظلوم لوگوں کی حمایت موجودہے جو امریکی معاشرے کا اب اہم جزو ہے۔ لگ بھگ 58 ملین امریکی جرمن نژاد ہیں۔ دنیا کے ہر خطے کے باشندوں کا مسکن، لوگوں کے لیے عجیب طمانیت رکھتا ہے۔ تمام تارکین میں اس وقت قریباً بارہ فیصد سیاہ فام ہیں جو امریکی معاشرے کا اہم حصہ ہیں۔ نسل پرستی اور بالخصوص سیاہ فام باشندوں کی تحریک اور آٓج کے امریکہ پہ اس کا اثر انتہائی اہم موضوع ہے نسلی امتیاز آج کے امریکہ کا اہم سیاسی موضوع ہے جس کے لیے ایک الگ کالم تحریر کروں گا۔ باقی تارکین میں مشرقی اور جنوبی ایشیائی باشندے قریباً انتیس اور میکسیکو کے چھبیس فیصد لوگ آبادہیں۔ یورپ اور کینیڈا کے قریباً تیرہ فیصد اور وسطی اور جنوبی امریکہ کے باشندے بھی قریباً اتنی تعداد میں موجود ہیں۔

ہندوستانی اور پاکستانی کافی تعداد میں امریکہ میں آباد ہیں۔ دونوں ملکوں کے لوگوں کی دوستی دیکھ کر خوشی بھی ہوتی ہے اور حیرت بھی۔ ورجینیا کے ایک ہندوستانی ریسٹورنٹ میں میرے ساتھ بیس ملکوں کے لوگ پاکستانی ہندوستانی کھانا کھانے کو بیٹھے تو ریستوران کے مالک نے سلام کیا اور دوسرے نے نمستے کہا۔ اسی اثنا میں نیپالی ویٹر آیا اور ہمارے ہندوستانی دوست سے محو گفتگو ہو گیا۔ ہندوستانی مالک نے حسب معمول پوچھا آپ پاکستان کہاں سے ہیں۔ میں نے کہا آپ بتائیے، بولا دہلی سے۔ پرانی یا نئی۔ چونک کے بولا آپ گئے ہیں میں نے کہا اچھی جگہ ہے۔ غالب کامرقد، نظام لدین اور میں نے اورنگزیب روڈ کا نام لیاتو بولا نئے صاحب (مودی حکومت) نے وہ نام بدل دیے۔ دل دکھی ہوا۔ پھر سوچا کیا پوچھوں ہم نے بھی تو سب کچھ بدل ڈالا۔ ہندوستان اور پاکستان کی سرکاروں میں اس معاملے میں کافی یکسانیت پائی جاتی ہے۔

مجھے دوستوں کے چہرے پہ سوالات کی بھنک پڑھ چکی تھی میں نے جھٹ سے کہا مالک ہندوستانی اور پاکستانی ہیں، میں پاکستانی مالک سےبات مکمل کر ہی رہا تھا کہ اچانک سے میوزک کی آواز اونچی ہو گی اور سامنے بیٹھے ہندوستانی اور بنگالی دوست نے بھی اونچی آواز میں گانا شروع کردیا۔ روس کے دوست نے پوچھا کیا میوزک بنگالی ہے میں نے کہا یہ عاطف اسلم پاکستانی گلوکار ہیں۔ یہ سنتے ہی میرے یونانی دوست نے ہم تینوں (میری، ہندوستانی، اور بنگالی) کی جانب اشار ہ کرتے ہوے کہا کہ آٓپ پہ افسوس ہی کیا جا سکتا ہے کب تک بین الاقوامی قوتوں کے کہنے پہ تگنی کا ناچ ناچتے رہو گے میں نے کہا جارج کھانا کیسا ہے اور موضوع بدل ڈالا پر بدلنے والا کہاں!

اس دورے میں میرا نقطہ نظر تھا کہ ہمارے خطے کی ترقی کا پہیہ کشمیر سے چلے گا۔ اس کا منصفانہ اور قابل عمل حل خطے کو یکسر بدل دے گا۔ بحث کا موقع پاتے ہی سوالات کا سلسلہ چل نکلا۔ ہماری یورپین ساتھی اور گس نے کہا کیا آپ تینوں اس کے بعد وہاں ملاقات کا سلسلہ ٹوٹنےنہ دیں۔ میں نے کہا ہمارے ہاں فی الحال ایسے ملنے ملانے کی کوئی روایت نہیں۔ ویزا کا حصول ناممکن ہے۔ اس کو حیرت تب ہوئی ہمارے بنگالی دوست نے کہا ملنے کے بعد ہم نے اپنے ملکوں میں رہنا بھی ہے۔ یہ ہمارے بس کا روگ نہیں۔ اس شام مجھے احساس ہو کہ نفرت اور ہیجان کی کیفیت ہمارے معاشروں میں کس حد تک سرایت کر گئی ہے۔ یہ خطہ شاید ہی کبھی امن دیکھ پائے۔

بات امریکہ کی ہو رہی تھی، پاکستانی کمیونٹی کسی حد تک متحرک ہے پر اکثریت نوکری پیشہ ہیں۔ یہ تاثر کہ ہمارے لوگوں نے دولت کے پہاڑ جمع کر رکھے ہیں درست نہیں۔ شاہد خان ایک بڑا کاروباری نام ہیں، پاکستانی طلبا کے لیے چھوٹے اسکالرشپس کا بندوبست بھی کرتے ہیں۔

اکا دکا لوگ اچھے کاروبار کرتے ہیں۔ ہماری ناکامی کہیے یا حالات کی ستم ظریفی، پاکستان سے پروفیشنل کا امریکہ جانا یا ان کی طلب نہ ہونے کے برابر ہے۔ بینظیر بھٹو، ملالہ یوسف زئی اور وزیراعظم عمران خان وہ نام ہیں جو دوستوں کے لیے پاکستان کا تعارف تھے۔

ہندوستانی سافٹ وئیر سمیت بڑی تعداد میں پروفیشنلز امریکی مارکیٹ کا رخ کرتے ہیں۔ پاکستانی ڈاکٹرز امریکہ میں کامیاب ترین لوگ ہیں۔ اسلام امریکہ کا سب سے امیر مذہب گنا جاتا ہے اس کی وجہ مسلم دنیا سے اعلی پائے کے ہنر مند افراد کا امریکی منڈی میں قدم جمانا ہے۔ امریکہ میں صحت کے نظام کی کامیابی کا سہرا پاکستانی اور ہندوستانی ڈاکٹرز کو جاتا ہے۔ یہ لوگ دور دراز علاقوں میں جانے میں عار محسوس نہیں کرتے اور اسی بدولت یہ مالی اور تکنیکی اعتبا ر سے کامیاب سمجھے جاتے ہیں۔

اس وقت امریکہ تاریخ کے اہم اور نازک موڑ سے گزر رہا ہے۔ صدر ٹرمپ اپنے ٖفیصلوں کی بدولت متنازعہ صدر بنتے جا رہے ہیں۔ وہ امیگریشن، سمیت بہت سارے ایسے نعروں کےساتھ الیکشن ہیں آئے جن کا پورا ہونا ناممکن اوریہ امریکی سماج کے لیے خطرناک ہو سکتا ہے پر امریکی معاشرے کی مضبوط قدریں، اور عوام اس کے خلاف سیسہ پلائی ہوئی دیوار ثابت ہو رہے ہیں۔ امریکی نظام میں کانگریس سے قانون پاس کرنا جوئے شیر لانے کے مترادف ہے۔ سینکڑوں سالہ پرانے ملک کے آیئن میں صرف ستائیس ترامیم ہی ہو سکیں۔ انتہائی اہم نوعیت کی ترامیم بھی منظور نہ ہو سکیں۔

پاکستان اور امریکہ کے تعلقات کے بارے میں الگ تحریر پیش کروں گا پر خلاصہ یہ ہے کہ پاکستانی اور امریکہ کے عوام ایک بہترین تعلق میں جڑے ہیں۔ ہزاروں پاکستانی سکالرز امریکی جامعات سے فارغ التحصیل ہیں۔ اگرچہ یہ سلسلہ اب کم ہونے لگا ہے۔ رفتہ رفتہ ہندوستان اور بنگلہ دیش اور چین کے طلبا آنے لگ ہیں۔ امریکہ ایک ایسی منڈی ہے جس میں دنیا کا ہر ملک اپنا حق سمجھ کے حصہ بقدر جثہ لینے کی کوشش کرتا ہے۔

آئندہ کالمز میں امریکہ کے اندر حقوق کی تحریکیں، بانی قائدین کا ویژن، برطانیہ سے آزادی، مرکز اور ریاستوں کی رسہ کشی، سمیت فارن پالیسی، کانگریس کا کردار، عدالتیں، معیشت، پاک مریکہ تعلقات، امریکی انتخابات کی باریکیوں بارے تفصیل لکھوں گا۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).