ایک بے بس مسافر اور پولیس افسر


دورانِ سفر بہت سارے اچھے برے اور کبھی کبھی ناقابلِ فراموش واقعات اور حادثات سے انسان کا واسطہ پڑتا رہتا ہے۔ ایک دفعہ میں لاہور پولیس ٹریننگ کالج چوہنگ سے بس پہ سوار ہوا اور میری منزل کافی دور تھی۔ تقریباً مسلسل پانچ گھنٹے گاڑی کو بغیر کسی وقفے کے چلنا تھا۔ میں نے اپنی سیٹ فون پہ ہی ریزرو کروارکھی تھی۔ بس نے مجھے پولیس کالج کے گیٹ سے لینا تھا۔ لہذا میں تیار ہو کے گیٹ پہ پہنچا۔ چند لمحوں میں گاڑی گیٹ پہ پہنچ گئی۔ کنڈکٹر نے بڑی عزت کے ساتھ میرا بیگ پکڑا اور میں بس میں سوار ہوگیا۔ جس سیٹ پہ میں نے بیٹھنا تھا اس کے ساتھ والی سیٹ پہ ایک ایسی سواری بیٹھی تھی جسے دیکھ کے مجھے فوراً اللہ یاد آگیا۔ ایک ادھورا انسان۔ جس کی جسمانی نشوونما کسی بیماری کی وجہ سے پوری طرح نہ ہو سکی تھی۔

میں جب سیٹ کے پاس گیا تو اس شحص نے میرے لیے اٹھنا چاہا لیکن میں نے اس کے کندھے پہ بڑے پیا رسے تھپکی دی اور کہا آپ تکلیف نہ کریں۔ میں خود کو سُکیڑتے ہوئے اس کے آگے سے گزر گیا اور اپنی شیشے والی سائیڈکی سیٹ پہ جا کے بیٹھ گیا۔ اس سواری نے مجھے مخاطب کرتے ہوئے کہا۔ سر میں نے سوچا آب بڑے آدمی ہیں پتہ نہیں کس سائیڈ والی سیٹ پہ بیٹھنا پسند کریں اس لیے میں اٹھنے کی کوشش کر رہا تھا۔ اس کی یہ بات سن کے میں نے اسے شکریہ کہا اورہلکی سی مسکراہٹ کے ساتھ اپنی مونچھوں پہ ہاتھ پھیرا۔ اپنی جیب سے ٹشو پیپر نکال کے اپنے چہرے پہ مارا اور موبائل پہ واٹس ایپ کے میسج پڑھنے لگا۔

کچھ ہی دیر بعد سورج کی تمام تر رعنائیاں مدھم ہونا شروع ہوگئیں۔ ہر سو ڈھلتی شام نے کسی ساحرہ کی طرح سورج کے اجالوں کو اپنے جادوئی پروں کے نیچے چھپانا شروع کردیا۔ میرے ساتھ والی سیٹ پہ بیٹھی سواری نے بس ہوسٹس کو آواز دی۔ جو موصوفہ اپنی قدرتی آواز پہ ملمع کاری کیے ہوئے تھی۔ ضرورت سے قدرے زیادہ میک اپ میں اٹی انتہائی نزاکت سے کسی اعلیٰ تعلیم یافتہ کی طرح ہر سواری کو اپنے اخلاق اور لہجے سے مرعوب کرنے کی اپنی سی کوشش میں مصروف دکھائی دے رہی تھی۔ بلاوجہ مسکراتی ہوئی آئی اور میری ہمسایہ سواری سے پوچھنے لگی جی کیا بات ہے فرمائیں۔ اس سواری نے کہا میڈم میں نے مغرب کی نماز ادا کرنی ہے پلیز آپ ڈرائیور صاحب سے کہیں کہ کوئی مسجد دیکھ کے تھوڑی دیر بس روک دیں۔

اکثر اس طرح کے لمبے اور دور دراز کے سفر پہ بس کا عملہ خود ہی سارا پلان بناکے چلتے ہیں کہ نمازکی بریک کہاں ہوگی چائے پانی کا وقفہ کہاں کرنا ہے۔ لیکن جب سے یہ خودساختہ ڈائیوو سروس مصروفِ سفر ہے ان کا کوئی پلان نہیں ہوتا جہاں دل کرے آدھا آدھا گھنٹہ گاڑی روکے رکھتے ہیں۔ اگر موڈ نہ ہو تو سواریاں جو مرضی کہتی رہیں یہ گاڑی نہیں روکتے۔ آج بھی ایسا ہی ہوا۔ بس ہوسٹس نے بس رکوانے سے صاف انکار کردیا اور معذرت کر کے چلتی بنی۔ میرے ساتھ والی سواری اب میرے ساتھ مخاطب تھی۔ سر یہ گاڑیوں والے بھی عجیب ہوتے ہیں اگر کوئی افسر کہتا تو اس گاڑی کی ادھر ہی بریک لگ جاتی۔ اب میں نے نماز کے لیے کہا ہے تو وہ لڑکی مجھے صاف ہی جواب دے گئی ہے۔

میں نے اُسے تسلی دی اور کنڈیکٹر کو آواز دی کنڈیکٹر آیا تو میں نے اسے کسی ہوٹل یا پٹرول پمپ پہ گاڑی روکنے کو کہا تھوڑے سے من گھڑت دلائل دینے کے بعد اس نے ڈرائیور کو آواز دی کہ کسی پمپ پہ گاڑی روکے۔ میرے ساتھ والی سواری میری انتہائی مشکور تھی۔ اس نے مجھے بھی نماز کی دعوت دی۔ ہماری دیکھادیکھی کافی سواریاں بس سے اتر آئیں میں نے اسے وضو کروایا نماز ادا کرکے واپس اپنی سیٹوں پہ ہم آگئے۔ میرا ضمیر مجھے ملامت کر رہا تھا۔ میں اس عظیم انسان سے نظریں چُرا رہا تھا جو معذوری اور بہت ساری جسمانی محرومیوں کے باوجود اپنی نماز کے چھوٹ جانے کے ڈر سے کتنا افسردہ تھا۔ وہ نماز کی ادائیگی کی خاطر بس کے عملے سے الجھنے کو بھی تیار تھا۔ اللہ کے ڈر اور خوف سے میرے ہونٹوں پہ خشکی اور پیشانی پہ پسینہ تھا۔

اس سواری کا نام جمیل تھا۔ جمیل میرے ساتھ مخاطب ہوا۔ سر مجھے سمجھ نہیں آتی لوگ نماز کیسے چھوڑ دیتے ہیں۔ میں تو نماز نہیں چھوڑسکتا۔ کیونکہ میرے آقاسرورِکائنات نے ہماری اس نماز کی خاطر جتنی تکالیف اٹھائی ہیں ہم چاہ کربھی ان کا شمار نہیں کر سکتے۔ اور نہ ہی ان کا حق ادا کر سکتے ہیں۔ آپ ﷺنے طائف والوں کے پتھر کھائے۔ پیٹ پہ پتھر باندھ کر کفرسے جنگیں کیں۔ آپﷺکو کیا ضرورت تھی کہ آپ ْﷺ نے ہجرت فرمائی۔ آپ تو عرش والوں کے مہمان تھے آپ ﷺ تو جہانوں کے لیے رحمت بنا کر بھیجے گئے تھے۔ غارِحراکی صعوبتیں آپ ﷺ نے کیوں اٹھائیں۔

کیوں سجدوں میں رات رات بھر آپ نے اشک بہائے۔ حالانکہ آپ تو تمام انبیا کے امام ہیں۔ تمام انبیا کے سردار ہیں۔ کیا وجہ تھی کہ آپ ﷺپر کوڑا پھینکا گیا او ر آپ نے کوڑا پھینکنے والی خاتون کو اُف تک نہ کہا بلکہ اس کی بیماری کا پتہ چلنے پر اس کی تیمار داری کو تشریف لے گئے۔ یہں بات ختم نہیں ہوئی بلکہ آپ ﷺ کے نواسے نے کیوں اپنے معصوم اصغر سمیت تمام کنبے کو قربان کر دیا۔ نیزوں، تلواروں اور ظلم کے گھٹا ٹوپ اندھیروں کی پرواہ کیے بنا حق اور سچائی کا علم بلند کیا۔ خون میں لت زخموں سے چور میدان جنگ میں کلمہ لا الہ اللہ محمد رسول اللہ کی صداؤں سے کفر اور کافروں کے تمام مکروہ ارادوں کو خاک میں ملا دیا۔

کربلا کے میدان کی بات کرتے ہوئے جمیل کی آنکھیں بھیگ گئیں بھری ہوئی آواز میں جمیل نے کہا سر جی محض میرے لیے۔ آپ کے لیے اور ہم جیسے تمام مسلمانوں کے لیے اور اس لیے کہ اللہ کا نام بلند رہے۔ قیامت تک اللہ اکبر کی صدائیں بلند ہوتی رہیں۔ بدلے میں ہمیں کیا کہا؟ کہ بس نماز پڑھو۔ اللہ کی بندگی کرو۔ سر جی میں تو نماز نہیں چھوڑ سکتا۔ کبھی بھی نہیں۔ آپ بھی نماز پڑھا کریں ہماری فلاح اور بھلائی بس اس نماز میں ہے سر جی۔

اور میں چپ چاپ نم آنکھوں سے جمیل کی باتیں سنتا رہا مجھ میں ہمت نہیں تھی کہ میں جمیل کی آنکھوں میں دیکھ سکتا۔ میں اللہ کا شکر ادا کرنےکے ساتھ ساتھ شرمندہ بھی تھا۔ کہ اس نے مجھے مکمل انسان بنایا ہاتھ پاؤں مکمل بنائے علم کی نعمت بخشی معتبر روزگار دیا مگر میں جمیل کے سامنے انتہائی چھوٹا انسان لگ رہا تھا۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).