مسجد کا امام مسجد کی چوکھٹ پر!


افسوس صد افسوس اس بے غیرت قوم‌ پر جو امام کو چند ہزار روپیوں کے معاوضے پر امامت کے فرائض انجام دینے کے لئے رکھتی ہیں۔ وہ امام کے جو تمہارے گھر بچہ پیدا ہونے سے لے کر قبر میں پہنچنے تک تمام زندگی گزارنے کے طریقے اور شریعت اسلامی کے مسایٔل میں تمہاری جگہ جگہ رہبری کرتا ہیں۔ وہ امام کے جو اپنی دنیاوی ضروریات کو پس پشت ڈالکر نفسانی خواہشات کو کچل کر ملت اسلامیہ کو جہنم کی آگ سے بچانے کے لئے ہر وقت فکر مند رہتا ہے۔ جو تمہیں اس مختصر زندگی کے بعد آنے والی لا محدود زندگی یعنی آخرت کے تعلق سے بارہا یاد دہانی کراتا ہے۔

وہ امام کے جس میں علماء اکرام بھی ہیں حفاظ کرام بھی ہیں۔ بڑے بڑے مفسر قرآن بھی ہیں۔ محدث بھی ہیں۔ مفکر اسلام بھی ہیں۔ جو اس نفسا نفسی کے دور میں بھی ملت اسلامیہ کے درد کو اپنے سینے میں لے کر ہر وقت امت کی رہبری کے لئے سرگرم عمل ہیں۔ ! میری آنکھوں نے دیکھا کے ایک شخص اپنی بچی کو لے کر شہر کی مسجد کی طرف جارہا ہیں۔ اور وہ بچی کو مسجد کے باہر ایک جگہ دور روک دیتا ہے۔ اور مسجد میں داخل ہوتا ہے اور اپنا رومال بیچھا کر بیٹھ جاتا ہیں۔ کوئی اسے حقیر نگاہ سے دیکھتے ہوئے آگے بڑھ جاتا ہیں کوئی اسے طنزیہ لہجے میں پوچھتا ادھر کیسے۔ کوئی چند روپے اس کے دامن میں ڈال کر چلا جاتا ہیں۔ کوئی جان کر کے وہ فلا شخص ہیں پھر بھی نظر انداز کرتے ہوئے نکل جاتا ہے۔

اور وہ کوئی عام فرد نہیں ہوتا وہ اس مقدس عہدے سے تعلق رکھتا ہیں جس عہدے کے فرائض نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے ادا کیے جو بیت المقدس میں امام لانبیاء بنے۔ یہ وہ عہدہ ہیں کے جو دنیا کی رنگینیوں میں عیش و آرام میں مست ملت اسلامیہ کو آنے والے ہولناک دن قیامت سے آگاہ کرتے ہیں۔ جو پل صراط سے گزرنے کا راستہ بتاتے ہیں۔ جو آب کوثر کے حوض کا پتہ دیتے ہیں جو بھٹکی ہوئی ملت اسلامیہ کے دلوں کو جھنجھوڑ کر رکھ دینے والے واعظ و بیان کرتے ہیں کہ وہ اپنے بھولے ہوئے سبق کو یاد کرلے۔ لیکن آج اس امام کو ہم ‌نے دو ٹکے کا ‌مولوی اور بانگی بنا کر رکھ دیا ہے۔

سردی ہو بارش ہو گرمی ہو۔ وہ شخص ہر حال میں مسجد کے مصلے پر آپ کوں دیکھائی دیتا ہیں۔ اگر ایک منٹ لیٹ ہوجائے تو متولی کے تانے اور مصلیان کی خون خوار نظرے اس کے دل کو چیر کر رکھ دیتی ہیں۔ جس کی خودی غیرت جاگ جاتی ہیں۔ لیکن وہ اللہ کے لئے تمام کے طعنوں کو برداشت کر لیتا ہیں۔ ہمیں پتہ ہے کے علماء انبیاء کے وارث ہیں۔ لیکن ہم نے ان کی قدر نہیں جانی۔ یہ وہ مقدس نفوس ہے کہ جو تمہیں جنت کا خریدار بنانا چاہتے ہیں جو تمہیں ہمیشہ کی جہنم کی آگ سے بچانا چاہتے ہیں اور ایک تم ہو کے ان کے پیچھے نمازیں پڑھتے ہو ان کے پیچھے نماز کی نیت بانھتے ہو اور باہر آتے ہی اپنی گردنے اٹھا کر چلتے ہو۔ انہیں نوکر سمجھتے ہو۔

یاد رکھو اگر یہی حال امت کا اس معاملے میں رہاں تو کچھ ہی سالوں میں دیکھنے ملے گا کے مسجدوں کو امام نہیں ملیں گے، رمضان میں قرآن سنانے کے لئے تمہیں حفاظ نہیں ملیں گے۔ میت کو غسل دینے نماز پڑھانے کیلے بھی کوئی نہیں ملے گا۔ یہ کام‌ اس مقدس جماعت کا نہیں ہیں یہ کام گھر کے ‌قریبی رشتے داروں کے ہیں لیکن تمہاری ہمت میت کو ہاتھ لگانے کی بھی نہیں ہوتی تمہیں مردے سے ڈر لگتا ہے۔ بڑا افسوس ہوا ملت کے اس حال کو دیکھ کر دل خون کے آنسو روتا ہے۔

تم نے انہیں اپنے سروں کا‌ تاج بنا کر رکھنا چاہیے تھا۔ انہیں کم سے کم اتنی تنخواہیں تو ماہوار دیتے کہ وہ بنیادی ضروریات کو پورا کرلیتا۔ وہ اپنے بچوں کی خواہشات تو دور ضروریات کو ہی پورا کرلیتے۔ وہ اپنے اوپر آنے والے حالات پریشانیوں اور بیماریوں کے علاج کے لئے کسی کے سامنے دست دراز ہونے سے محفوظ رہتے! کے وہ امام مسجد کے دروازے پر کھڑا ہے! جو تمہیں جنت کا راستہ بتاتا ہے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).