چین نے سری لنکا کی بندرگاہ کیسے ہتھیائی؟


پچھلے سال دسمبر میں سری لنکا نے چین کو ہمبنٹوٹہ پورٹ اور اس سے ملحق پندہ ہزار ایکڑ اراضی ننانوے سال کے لئے لیز پردے دیا تھا۔ انڈیا نے اس پورٹ پر چین کے کنٹرول کے حوالے سے شدید تحفظات کا اظہار کیا کہ چین اس بند گاہ کو انڈیا پر دباؤ بڑھانے کے لئے ملٹری بیس کے طور پر استعمال کرے گا۔ جو کہ بالکل ممکن ہے۔ ایسا کیسے ہوا؟

مہیندا راجہ پکاسا 2005 سے 2015 تک سری لنکا کہ صدر رہے۔ اسے پہلے وہ وزیر اعظم کے عہدے پر بھی متمکن رہ چکے تھے۔ وہ سری لنکا میں چین کے حامی تصور کیے جاتے ہیں۔ چین نے سرلنکا کی چھبیس سالہ خانہ جنگی کے خاتمے میں بھرپور مدد کی اور اس کے خاتمے کے بعد بھی صدر مہیندا کے دور میں سری لنکا کا چین پر معاشی انحصار مسلسل بڑھتا رہا۔

اپنے پہلے دورصدارت میں مہیندا راجہ نے سری لنکا کے جنوبی صوبے کے اہم شہر ہمبنٹوٹہ میں ایک پورٹ کے منصوبے کے لئے انڈیا اور چین سے قرض کی درخواست کی۔ اس پورٹ کے منصوبے کو خود سری لنکن اور انڈیا دونوں کے ماہرین نے نے ناقابل عمل اور ناکام منصوبہ قرار دیا اور اسی بنیاد پر انڈیا نے سری لنکا کو قرض دینے سے انکار کر دیا۔ لیکن چین نے ان منفی رپورٹس کو نظر انداز کرکے قرض دینے کی حامی بھر لی اور یوں اُس کے فراہم کیے گئے قرض سے تعمیر کا آغاز ہوا۔

لیکن جیسے جیسے وقت تعمیر آگے بڑھی اورمزید قرض کی ضرورت پڑی تو چین کی شرائط سخت اور سود کی شرح مں بھی اضافہ ہوتا گیا۔ منصوبہ مکمل ہونے کے بعد اندازے درست ثابت ہوئے کہ، یہ ہمبنٹوٹہ پورٹ، کولمبو پورٹ کے ہوتے ہوئے سری لنکا جیسے چھوٹے ملک کے لئے انتہائی اضافی اور غیر منافع بخش پورٹ ثابت ہو گا۔ پورے سال میں مشکل سے چونیتیس جہاز اس پورٹ پر لنگر انداز ہوئے۔ ایک طرف منافع نہیں تھا دوسرا قرضوں اور سود کی ادائیگیوں کا بوجھ بڑھتا گیا۔ اور اسی دوران دو ہزار پندرہ میں صدر مہیندا صدارتی الیکشن ہار گئے اورشدید مالی بحران نئی حکومت کا سر درد بن گیا۔ صدر مہیندا کے اقتدار سے باہر ہونے کے بعد جب اس غیر ضروری پورٹ کے لئے حاصل کیے گئے قرضے کی تفصیلات سامنے آئیں تو اس کے مظابق قرض کا پیسہ صدرمہیندا کی الیکشن مہم میں ان کی ذاتی تشہیر پر بے دردی سے خرچ کیا گیا تھا۔

سری لنکا کی نئی حکومت نے قرض کی ادائیگی کے لئے بھی چین نے مزید پانچ بلین ڈالر کا قرض لیا۔ 2017 تک سری لنکا نئے اور پرانے تمام قرض ملا کرچین کا ٹوٹل پونے دس بلین ڈالر کا مقروض تھا۔ حکومت نے چین سے قرضے اور سود کی ادائیگی اور مدت بڑھانے کے لئے دوبارہ مذاکرات شروع کیے لیکن چین قرضے کی شرائط میں نرمی پر آمادگی ظاہر کرنے کے بجائے بندر گاہ کے مالکانہ حقوق میں شراکت داری بڑھانے پر سختی سے مصر رہا۔ بالاخرحتمی معاہدے کے مطابق سری لنکا کو جو واحد اختیار دیا گیا وہ یہ تھا کہ سری لنکا، دو چائینیز کمپنیز چائنا ہاربرانجینئیرنگ یا چائنا مرچنٹ میں سے اپنی پسند کی کسی ایک کمپنی کو پورٹ حوالے کر سکتا ہے۔ اور طویل مذاکرات کے بعد سری لنکا نے دسمبر 2017 میں پورٹ کو چین کے حوالے کر دیا۔ نیویارک ٹائمز کے مطابق ہمبنٹوٹہ پورٹ کیس چین کی مالی طور کمزور ملکوں پر، قرضوں اور امداد کے ذریعے اثرورسوخ بڑھانے کی واضح مثال ہے۔

چین اپنے روڈ ایںڈ بیلٹ پروگرام کے ذریعے دنیا کے پینتیس سے زیادہ ممالک کو مالی امداد دے رہا ہے۔ ان قرضوں کی سخت شرائط میں صرف چینی کمپنیز اور چینی لیبر فورس سے ہی کام لینے کی شرط نمایاں ہے۔

راجہ پکاسا کے اقتدار سے باہر ہونے کے بعد جب نئی گورنمنٹ نے چینی قرضے ادا کرنے کے لئے آئی ایم ایف سے مزید قرضے کی درخواست کی تو آئی ایم ایف نے ان سے پراجیکٹ کی دستاویزات تک رسائی کا مطالبہ کیا جس کے بعد سری لنکا اور چین کے درمیان معاہدے کی تفصیلات سامنے آئِیں کہ کس طرح سابق صدر نے اپنے آدھے خاندان کے ساتھ سری لنکن عوام کو دھوکے میں رکھ کر بنا کسی احتساب کے خوف سے بے نیازہو کر بے دریغ دولت لٹائی اور جمع کی۔

پاکستان میں دو سابق حکومتیں سی پیک کا کریڈٹ لیتی ہیں کہ ان کے دورمیں شروع ہوا سی پیک کا منصوبہ پاکستان کی قسمت بدل دے گا۔ لیکن ابھی تک پاکستان چین کے درمیان معاہدوں کی تفصیلات منظر عام پر نہیں آئیں ہیں مگرعمران خان کی حکومت کا اعلان خوش آئیند ہے کہ وہ ان دستاویزات کومنظرعام پرلائیں گے۔

ایڈم اسمتھ نے کہا تھا کہ تلوار یا قرضوں کے ذریعے کسی قوم کو محکوم بنایا جا سکتا ہے۔ شاید چین دوسرا آپشن استعمال کررہا ہے۔ لیکن ہمیں دوستی کے خمار میں اپنے ہوش وحواس نہیں گنوانے چاہیں۔ معاہدوں پر دستخط کی چڑیا بٹھاتے وقت آنکھیں کُھلی اورضمیرچوکنا رہے تو اچھا ہے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).