مسیحی خاکروب کی خوش قسمتی


کچھ عرصہ پہلے فیصل آباد کی ایک بڑی مسیحی آبادی میں ایک پرایئوٹ کالج کی طرف سے خاکروبوں کی ضرورت ہے کے بینر، لگانے پر اس آبادی کے پڑھے لکھے لوگوں نے بہت احتجاج کیا، ہمارے دوست امجد پرویز تو باقاعدہ اس کالج میں گئے اور ان کو بتایا کہ آپ نے ہمارے علاقے میں ضرورتِ خاکروب کے بینر لگا کر امتیازی سلوک کیا ہے، ہمارے علاقے میں صرف خاکروب ہی نہیں آپ کو ٹیچرز، نرسز، ڈاکٹرز، کمپیوٹر کے ماہرین غرض ہر طرح کے پروفیشنلز ملیں گے۔ امجد صاحب نے ان کو اس حرکت پر سخت سست سنائیں۔

اس سے یہ تاثر ابھرا کہ مسیحی لوگ اب تعلیمی حوالے سے ترقی کے عمل میں ہیں اور اور سماجی طور پر وہ اب ان کے ساتھ منسلک پیشہ خاکروبی سے نالاں ہیں۔ تا ہم یہ خوش فہمی جلد ہی دور ہو گئی جب اس واقعہ کے کچھ عرصہ بعد ہمارے دوست پروفیسر کلیان سنگھ اس اطلاع پر کہ واسا گوجرانوالہ نے اپنے ایک اشتہار میں سیور مینوں کی آسامیوں کے ساتھ امیدوار کا مسیحی یا مذہبی اقلیت کے ساتھ تعلق لازمی قرار دیا ہے ایم ڈی واسا گوجرانوالہ سے ملے اور ان کو شکایت، کی کہ جناب یہ آپ نے بنیادی انسانی حقوق کی خلاف ورزی کی ہے، کسی بھی طرح کسی پیشے کو کسی مذہب یا عقیدے کے ساتھ منسوب نہیں کیا جا سکتا۔ اس پر ایم ڈی واسا نے کہا کہ میں یونین کے لوگوں کو بلا لیتا ہوں ان کے سامنے بات کرتے ہیں ۔ یونین کے رہنماوؤں کے ساتھ کچھ سیور مین بھی ایم ڈی کے کمرے میں آگئے، بات چیت شروع ھوئی تو یونین کے رہنماوؤں اور ملازمین نے کلیان سنگھ کے اعتراض کو یکسر مسترد کر دیا۔ خود کلیان کے الفاظ میں یونین کے لوگوں اور وہاں موجود ملازمین نے کہا ایک ہی تو نوکری ہے جو ہمیں مل رہی ہے اس پر بھی آپ لوگوں کو اعتراض ہے اور آپ پڑھے لکھے لوگوں کو کوئی اور کام نہیں جو ہماری نوکریوں کے پیچھے پڑھ گئے ھو۔

یہ دونوں واقعات دو انتہاوؤں کو ظاھر کرتے ہیں اور فی الوقت توجہ کے مستحق بھی ہیں۔

ابھی پچھلے ھفتے پشاور تعلیمی بورڈ نے بھی خاکروبوں کے اشتھار میں بھی خاکروبوں کے لیے بنیادی قابلیت اقلیتی مذاہب سے تعلق رکنے والے صحت مند افراد سے درخواستیں طلب کی گیئں تو سوشل میڈیا پر ایک طوفان آگیا، دوستوں نےاس پوسٹ کو اتنا شیئر کیا اور نئی منتخب حکومت کے وہ لتے لیے کہ آخر کار پشاور سے پی ٹی آئی کے نومنتخب رکنِ اسمبلی جناب جمشید تھامس کو پشاور بورڈ کے سیکریٹری سے ملاقات کر کے تصحیح اشتہار جاری کروانا پڑا۔

پشاور میں جاری تصحیح اشتہار کے مطابق اب خاکروبوں کے لیے کسی خاص مذہب کے ساتھ تعلق رکھنا ضروری نہیں۔ یاد رہے کی یہ اشتہار اگست کے مہینے میں شایع ہوا ہے، مجھے الیکشن جولائی دو ہزار اٹھارہ سے ایک ہفتہ پہلے چار دن پشاور میں رہنے کا موقع ملا۔اور مقامی دوستوں کی نشاندھی پر خیبر ٹیچنگ ھاسپٹل میں ایک عجیب تجربہ ہوا۔ وہاں خاکروب کی وردی پر دو ٹیگ ہیں، ایک پر لکھا ہے سینٹری ورکراور اس کے نیچے اس خاکروب کا مذہب ظاھر کیا گیا ہے۔ اگر وہ مسیحی ہے تو وہ لکھا ہے اور اگر وہ مسلمان ہے تو مسلمان لکھا ہے۔ میں نے وجہ جاننے کی کوشش کی تو پتہ چلا کہ مذہب بتانے کا مقصد یہ ہے کی جھاڑ پونچھ صفائی وغیرہ کے لئے مسلمان ورکر کو کہنا ہے اور اگر کسی نے لیٹرین صاف کروانی ہے تو وہ مسلمان ورکر سے نہیں کہنا۔

اس کا مطلب ہے کہ پشاور بورڈ کے اشتہار سے پہلے ہی سینٹری ورکرز میں مسیحوں کے ساتھ ساتھ مسلمان ورکر بھی موجود ہیں تا ہم وہاں ایک امتیازی سلوک ہے جو کم گندے اور زیادہ گندے کام کے حوالے سے ہے۔
تاہم بادی النظر میں ایسا محسوس ہوتا ہے کہ خاکروب کی نوکری کے حوالے سے مسیحی لوگوں میں دو گروپ تو بن ہی چکے ہیں ایک وہ جو تعلیمی سہولتیں حاصل ہونے کی بنا پر معاشرے میں اپنا مقام بنانے کی سعی میں ہیں، اس گروپ کو اب یہ اچھا نہیں لگتا کی ان کو پیشہ خاکروبی سے وابستہ افراد سے جوڑا جائے، ان کو اپنے لیے چوڑے کا لفظ پسند نہیں جو اصل میں پیشہ خاکروبی کے ساتھ تو نہیں جڑا لیکن اب ایسے ہی مستعمل ہے، یہ پڑھا لکھا مسیحی اپنی معاشی حیثیت کو بدلتے دیکھ کر خاکروب کا پیشہ اختیار کرنے والے لوگوں کے ساتھ اپنی کوئی وابستگی نہیں چاہتا۔ پاکستان خاص طور پر پنجاب میں جب مختلف چرچز نے گاؤں آباد کیے تو سیالکوٹ، ہوشیار پور، جالندھر اور امرت سر وغیرہ سے لوگوں کو ہجرت کروا کر ان دیہاتوں میں آباد کیا، اور ان کو زمیندار بنا دیا، لیکن وہ لوگ جو شہری علاقوں میں بننے والی بستیوں جنہیں سرکاری کاغذات میں ٹھٹھی عیسایئاں یا ٹھٹھی چوڑے چمار بھی لکھا گیا میں آباد ہوے وہاں پر خاکروبی کے پیشے سے ہی منسلک رہے۔

لیکن دیہاتوں میں انگریز مشنریوں نے لوگوں کو زمیندار بنانے کے ساتھ ساتھ سکول کی سہولت بھی دی۔ جس کے نتیجہ میں انیس سو ساٹھ اور ستر کی دہائی میں دیہاتوں میں سکول میں داخل ہونے کا رجحان بڑھا، لیکن شہروں میں رہنے والے مسیحوں کی پہلی نسل نے انیس سو اسی کی دہائی میں زیادہ تر تعلیم حاصل کرنا شروع کی۔ میری دی گئی یہ معلومات ایک عمومی تجزیہ ہے۔ مستثنیات موجود ہیں۔
اس کے نتیجے میں شہری بستیوں میں رہنے والے مسیحی عام طور پر اس پر ہی مطمیئن دکھائی دیے کہ ہماری پکی نوکری ہے، باپ ریٹائر ہو گا تو بیٹا کر لے گا۔ اور ماں ریٹائر ہو گی تو بہو یا بیٹی کر لے گی۔
یہ ایک سلسلہ ہےجو سات دہایئوں سے چل رہا ہے، اب دونوں گروپ اپنی اپنی جگہ پر ٹھیک ہیں، ایک گروپ جو ترقی کے عمل میں ہے وہ اپنی شناخت تبدیل کرنا چاہتا ہے اور جو خاکروب کی نوکری کو “پکی نوکری”سمجھتا ہے وہ اس کو چھوڑنے کے لیے تیار نہیں،
یہ مفادات کا ٹکراؤ ہے اور یہ ایسے ہی جاری رہے گا لیکن ایک بات بہت اہم ہے۔ برسرِ روزگار خاکروب کو ہمارے معاشرے میں ایک گریجویٹ کے مقابلے میں رشتہ جلدی مل جاتا ہے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).