مردانہ جسم میں پھنسی لڑکی اپنا نربان کروانا چاہتی تھی


کچھ بھی نہیں تھا دونوں رانوں کے درمیان میں۔ صاف اور سپاٹ، صرف چھوٹا سا ایک سوراخ جس میں ڈاکٹروں نے ایک نلکی سی ڈالی ہوئی تھی، جہاں سے پیشاب ایک تھیلی میں جمع کر رہے تھے۔ مرنے کے بعد نلکی نکالی جا چکی تھی۔ جسم کو نہلا دُھلا کر ہم سب لوگوں نے صاف ستھرا کردیا۔ زُلفی نے بہت ساری روئی پانی میں ہلکے سے بھگو کر رانوں کے درمیان میں گوند سے چپکانا شروع کردی تھی۔ جسم۔ ۔ ۔ ۔ ۔ جسے قدرت نے نامکمل چھوڑ دیا تھا، اسے دفن کرنے سے پہلے مکمل کرنا ضروری ہے۔ قبر میں انسان کو مکمل جانا چاہیے۔ زُلفی نے مجھے دونوں بازووں سے پکڑ کر گلے لگایا اور بہت پیار سے دھیرے دھیرے یہ بات کہی تھی۔

میں غم سے ویسے ہی بے حال تھی، نہ جانے کیا ہوا مجھے، میں بے قابو ہو کر چھری اُٹھا لائی، لیلیٰ، شیدا، روحی کے پکڑنے سے پہلے پہلے اپنی رانوں کے درمیان میں چاقو چلا چکی تھی۔ ’میں مرنا نہیں چاہتی ہوں ڈاکٹر! میں نے اپنے آپ کو مارنا نہیں تھا، میں تو صرف اپنے جسم کے فالتو ٹکڑے سے گرو کے جسم کو مکمل کرنا چاہتی تھی‘۔ یہی تو کر رہے تھے وہ لوگ! اتنا کہہ کر وہ پھر بے ہوش سا ہوگیا تھا۔ یہ ایک عجیب و غریب مریض تھا یا تھی۔

میں نے آج سے پہلے اس قسم کا مریض نہیں دیکھا تھا۔ سہ پہر کا وقت تھا اورمیں اسپتال سے نکلنے ہی والا تھا، کہ یکایک ایمرجنسی کال آئی تھی۔ میرے ایک جونیئر ڈاکٹر نے مجھے بلایا تھا۔ کیوں کہ ایک عجیب و غریب سلسلے کے ساتھ ایک مریض کو لایا گیا تھا۔ شعبۂ حادثات میں باہر ہی چار پانچ ہیجڑے پریشان صورت کھڑے تھے اور اندر یہ مریض تھا۔ اس کا نام نیلو تھا۔

اس کا چہرہ کسی سفید کاغذ کی طرح سفید سا ہو رہا تھا۔ چہرے پر نقاہت تھی اور آنکھیں کبھی کھلتی تھیں، اور کبھی بند ہوجاتی تھیں۔ خون آلود شلوار زمین پر پڑی ہوئی تھی۔ بہت زیادہ خون بہہ جانے کی وجہ سے وہ تقریباً بے ہوش تھا۔ دونوں بازوؤں میں ڈرپ لگا دی گئی تھی۔ رحیم نے مجھے بتایا کہ خون کا انتظام ہو گیا ہے اور خون آنے ہی والا ہے۔ رانوں کے درمیان میں جہاں سے خون بہہ رہا تھا، اس نے کس کر پٹی باندھ دی، جس سے فی الحال خون بہنا بند ہو گیا تھا۔ اس کے لیے تھیٹر کا انتظام ہو گیا ہے اور بے ہوش کرنے والے ڈاکٹر کا انتظار کر رہے ہیں۔

میں نے کہا تھا کہ خون لگا کر فوراً مریض کو تھیٹر پہنچاؤ، تا کہ آپریشن کر کے خون کو بہنے سے روکا جائے۔ ساتھ ہی چار مزید خون کی بوتلوں کا انتظام کرلینا۔ مریض کو بھیجنے کے بعد میں نے رشتے داروں کا معلوم کیا تو پتا چلا کہ ساتھ میں کچھ ہیجڑے آئے ہوئے ہیں۔ میں نے انھیں اندر بلا لیا تھا۔

وہ چار تھے، چاروں لڑکیوں کے لباس میں۔ چہروں پر بگڑا ہوا میک اپ اور شکل ہی سے سخت پریشان لگ رہے تھے۔ مجھے ایسا لگا جیسے یہ سارے کے سارے بہت دیر سے رو رہے ہوں۔ ان کے پریشان اور پراضطراب چہروں پر بلا کی سنجیدگی تھی۔ سارے چہرے لٹے پِٹے، ساری ہی آنکھیں ویران سی تھیں۔ میں نے انھیں تسلی دی اور بتایا تھا کہ نیلو کی جان کو اب کوئی خطرہ نہیں ہے۔ میں ابھی آپریشن تھیٹر جارہا ہوں، وہاں چھوٹا سا آپریشن کرنا ہو گا، اُمید ہے کہ اس کے بعد خون بہنا بند ہو جائے گا؛ پھر دو چار دن اسپتال میں رہنے کے بعد اسے گھر بھیج دیں گے۔ وہ بالکل ٹھیک ہو جائے گا۔ کوئی بھی فکر کی بات نہیں ہے۔

میں نے دیکھا ان کے چہروں پر ایک اطمینان کی سی لہر دوڑ گئی ہے۔ پھر میں نے پوچھا کہ یہ سب کچھ ہوا کیسے تھا؟ تھوڑی دیر کی خاموشی کے بعد ان چاروں نے ایک دوسرے کو دیکھا، پھر زلفی نے کہا، پتا نہیں کیا ہوا سر جی۔ ہمارے گرو کی موت ہو گئی ہے، وہ اسپتال میں تھے۔ پھر اُدھر ہی مر گئے۔ آج ان کو دفن کرنا تھا۔ ہم سب ان کا جسم بنا رہے تھے، جنازے کے لیے تیار کر رہے تھے، انھیں؛ نہ جانے کیوں نیلو نے اپنا جسم کاٹ لیا۔ میں بات ہی کر رہا تھا کہ آپریشن تھیٹر سے میرے لیے بلاوا آ گیا۔

بے ہوش کرنے کے بعد پٹیاں اور روئی ہٹا کردیکھا تھا تو عجیب ہی صورت احوال کا سامنا تھا۔ جسم بری طرح سے زخمی تھا۔ دونوں فوطے کٹے ہوئے، کھال کے ساتھ جسم سے جڑے ہوئے تھے۔ اس کے سوا کوئی چارہ نہیں تھا، کہ پیشاب کے لیے چھوٹی سی نالی بنا کر بقیہ سب کچھ نکال دیا جائے۔ آپریشن مشکل نہیں تھا، البتہ طویل تھا۔ چھوٹی چھوٹی خون کی نسوں سے خون بہہ رہا تھا، ہر جگہ پر ٹانکے لگا کر خون کو روکا، اس تمام عمل میں دو گھنٹے لگ گئے، آپریشن کے بعد مریض کو وارڈ شفٹ کر دیا گیا تھا۔ میں واپسی میں سوچتا رہا کہ کیوں کیا تھا اس نے ایسا؟ آخر ایسی کیا صورت احوال ہو گئی تھی، کہ اس کو اس قسم کا فیصلہ کرنا پڑ گیا۔ آسان نہیں ہوتا ہے، انسان کے لیے اپنے جسم کو کاٹنا؛ اپنے آپ کو زخمی کرنا۔ مجھے سمجھ کچھ نہیں آیا تھا۔

دوسرے دن وارڈ میں وہ بستر پر خاموش سا لیٹا ہوا تھا۔ میں نے جا کر دیکھا، پیشاب کی تھیلی ٹھیک لگی ہوئی تھی۔ ڈاکٹر نے بتایا کہ گزشتہ سولہ گھنٹوں میں پیشاب مناسب مقدار میں بنا ہے۔ مریض نے درد کی شکایت کی تھی، جس کے لیے اسے دوا دے دی گئی تھی۔ اس وقت وہ ہوش میں تھا۔ میں نے اسے بتایا کہ اس کا آپریشن میں نے ہی کیا ہے۔ اس کے چہرے پر بے چارگی تھی۔ آنکھوں میں تشکر اور شکایت مجھے تو دونوں ہی چیزیں محسوس ہوئی تھیں۔

میں نے خیریت پوچھی، اس کے شانوں کو تھپ تھپا کر یقین دہانی کرائی کہ وہ ٹھیک ہو جائے گا، اسے فکر کرنے کی ضرورت نہیں ہے۔ میں نے اس سے پوچھا کہ وہ ان ہیجڑوں سے ملنا چاہتا ہے، جو باہر بیٹھے ہیں؟ اس کے چہرے پر رونق آگئی تھی۔

”ضرور، میں تو سمجھ رہی تھی کہ وہ مجھے بھول گئے ہیں۔ مجھے نکال دیا ہے، آخر کوئی آیا کیوں نہیں تھا۔ ‘‘
میں نے اسے بتایا کہ پندرہ بیس ہیجڑے رات بھر یہاں بیٹھے رہے ہیں، خون کی آٹھ بوتلیں بھی انھوں نے دی ہیں۔

زرد چہرے پر مسکراہٹ بکھر کر پھیل گئی تھی، لانبی لانبی پلکیں جھپک کر اس نے کم زوری کے باوجود بڑی ادا سے مجھے دیکھا تھا۔ میں نے اگر اس کے مردانہ اعضا خود نہیں کاٹے ہوتے تو مجھے بھی اُس کی اِس ادا پر پیار سا آ جاتا۔ مجھے احساس ہو گیا تھا کہ اس کے لانبے لانبے بالوں اور چہرے کی بناوٹ میں بلا کی نسوانیت ہے۔ میں نے نرس سے کہا تھا کہ باہر بیٹھے ہوئے ہیجڑوں کو تھوڑی تھوری دیر کے لیے چار چار کے گروپ میں اندر لا کر نیلو سے ملوا دیں۔ میں ابھی اندر ہی تھا کہ زلفی اور تین ہیجڑے آئے تھے۔

بڑا جذباتی منظر تھا۔ وہ سب کے سب اس کے قریب سے قریب ہونا چاہ رہے تھے۔ اس کے ہاتھوں کو چوم کر، اس کے بالوں کو پکڑ کر، اس کے ماتھے کو تھام کر، اس کی آنکھوں سے اپنی آنکھوں کو ملا کر اور اس کے پیروں کو دبا کر ان لوگوں نے محبت کے اظہار کے ہر طریقے سے اسے نہال کر دیا تھا۔ اس کا چہرہ ہشاش بشاش ہوگیا۔ میں نے اسے مسکرا کر دیکھا اور کمرے سے باہر آ گیا۔

مزید پڑھنے کے لئے اگلا صفحہ کا بٹن دبائیں

ڈاکٹر شیر شاہ سید
Latest posts by ڈاکٹر شیر شاہ سید (see all)

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

صفحات: 1 2 3 4 5