ماسٹر مختار صاحب


بہترین استاد ہونے کے لیے کسی بھی انسان کا ایک اچھا انسان ہونا بہت ضروری ہے؛ کیوں کہ استاد ایک قوم کا معمار اور مسیحا ہونے کے ساتھ ساتھ اپنے شاگردوں کے لیے نمونے کی حیثیت رکھتا ہے۔ کسی نے کیا خوب کہا تھا “شاگرد کی شخصیت استاد کی شخصیت کی آئنہ دار ہوتی ہے”۔ استادکسی پرائیویٹ اسکول کالج کا ہویا سرکاری کا۔ استاد کسی پولیس ٹریننگ اسکول کا ہو یا پولیس ٹریننگ کالج کا۔ استاد پرائمری اسکول کا ہو یا لمز یونیورسٹی کا۔ استاد کسی ورک شاپ کا ہو یا مدرسے کا۔ استاد کا بلند کردار اور خودار ہونا بہت ضروری ہے۔ کسی بھی استاد کا صاحب دل صاحب علم اور سخی ہونا بہت ضروری ہے۔ سخاوت صرف روپے پیسے ہی کی نہیں ہوتی، سخاوت لفظوں کی بھی ہوتی ہے۔ یہ الفاظ ہی کی سخاوت ہے، جو انسانوں کی زندگیاں بدل دیتی ہے۔ کسی استاد کے خلوص کے ساتھ پڑھائی ہوئی ایک سطر، اس کے شاگردوں کو مدتوں یاد رہتی ہے۔ جو بات دل سے کہی جائے وہ دل سے سنی بھی جاتی ہے۔ وہ کہتے ہیں ناں ”دل کو دل سے راہ ہوتی ہے”۔ علم بانٹنے والا اور علم کی تلاش کرنے والا دونوں مجاہد ہوتے ہیں۔

ایک واقعہ حضرت علیؓ رضی اللہ تعالیٰ سے منسوب ہے کہ ایک شخص جب بھی آپ کے پاس سے گزرتا تو آپ اس کے احترام میں کھڑے ہو جاتے۔ کسی نے دریافت کیا کہ سرکار آ پ اس جاہل انسان کے احترام میں کیوں کھڑے ہو جاتے ہیں تو حضرت علی رضی اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ اس شخص کی وجہ سے میرے علم میں اضافہ ہوا تھا۔

فرض شناش اچھے اور قابل استاد صرف سلیبس تک محدود نہیں رہتے بلکہ وہ تو جینا سکھاتے ہیں۔ قائد، لیڈر، سپہ سالار، حکمران بناتے ہیں۔ اچھے انسان بناتے ہیں کسی بھی تعلیمی ادارے میں ذاتی مفادات چوری، کرپشن، جھوٹ، پیسے کے لالچ کا تصور بھی ناقابل معافی و تلافی گناہ اور جرم ہے۔ استادکی قدر کی جانا بھی انتہائی ضروری ہے۔ جہاں استاد اور شاگرد کے درمیان ادب کا رشتہ ختم ہوا، وہیں تمام تعلیمی اخلاقی ذہنی نشوونما کی توقعات کی بھی موت واقع ہو گئی۔ ایسے ادارے میں جہاں استاد اور شاگرد دائرہ اخلاق سے باہر چلے جائیں، وہاں ڈاکٹر، انجینیئر اور آفیسر تو بنائے جا سکتے ہیں، اچھے انسان نہیں؛ اور ہمارے معاشرے کو متذکرہ بالا ہستیوں کے ساتھ ساتھ اچھے انسانوں کی بھی اشد ضرورت ہے۔

ہم جب گورنمنٹ پرائمری اسکول غلیاں والا ٹبہ تحصیل ہارون آباد میں چوتھی کلاس میں پڑھتے تھے، تو ہمارے گاوں کے پرائمری اسکول میں دو ہی استاد ہوا کرتے تھے۔ غلام نبی صاحب جو پیشے کے لحاظ سے درزی بھی تھے۔ اسکول سے فارغ ہونے کے بعد ان کا سلائی کا بہترین کام تھا، لیکن جب تک وہ اسکول میں ہوتے ایک قابل استاد کی طرح اپنے شاگردوں کی ذہنی اور اخلاقی تربیت کرتے نظر آتے۔ ہماری بستی انتہائی غریب اور مزدور پیشہ لوگوں پہ مشتمل تھی۔ کبھی مجھے نہیں یاد پڑتا کہ غلام نبی صاحب نے کسی بچے کے والدین کو یہ کہا ہو کہ آپ کا بچہ ٹھیک نہیں پڑھتا، آپ اسے میری درزی کی دکان پہ درزیوں کا کام سیکھنے کے لیے بھیج دیا کریں اور نا ہی میں نے کبھی ان کی دکان پہ کوئی چھوٹا دیکھا تھا۔ جس طرح آج کل ورک شاپوں، ہوٹلوں، بسوں میں پانی بیچتے سردیوں میں گلی محلوں میں انڈے بیچتے ہمیں بہت سارے چھوٹے نظر آتے ہیں۔ آج کے اکثر استاد والدین سے یہ کہتے ہوئے زرا جھجک محسوس نہیں کرتے “آپ کا بچہ تعلیم پہ توجہ نہیں دے رہا، آپ کا بچہ نا اہل ہے، لہذا آپ اسے میری اکیڈمی بھیجا کریں، میں نے وہاں پڑھانے کے لیے بہت قابل لوگوں کو رکھا ہوا ہے۔ سب کے سب محنتی اور اعلی تعلیم یافتہ ہونے کے ساتھ ساتھ اچھی فیملیوں سے ہیں”۔ والدین اپنی غربت کی وجہ سے بچے کو انتہائی پڑھے لکھے استادکی اکیڈمی بھیجنے کی بجائے اپنے جگر گوشوں کو ورک شاپوں اور ہوٹلوں کا چھوٹا بنا دیتے ہیں۔ اگر ہمارے محترم استاد غلام نبی صاحب ایسا کرتے تو آج ہم بھی آپ کے لیے یہ تحریر لکھنے کی بجائے آپ کا ناپ لے رہے ہوتے یا کسی شلوار کرتے قمیص کی ترپائی کر رہے ہوتے۔ یقیناًدرزی کا کام کرنے میں کوئی ہرج نہیں، یہ حلال رزق کمانے کا ایک پیشہ ہے، تاہم تعلیم ہر پیشے کے نکھار کے لیے ضروری ہے۔

دوسرے استاد تھے، ہمارے انتہائی محترم ماسٹر صوفی مختار احمد صاحب؛ آج بھی ان کا نام لکھتے میری آنکھیں ادب سے جھک گئی ہیں۔ مجھے یاد ہے جب میں چوتھی کلاس میں تھا تو انھوں نے ہمیں نماز کے لیے کھڑا ہونا اور نیت باندھنا سکھایا تھا۔ ہماری بستی بہت غریب تھی بیسیوں گھر ایسے تھے، جہاں دو وقت کے کھانے کا بھی شاید انتظام بڑی مشکل سے ہوتا ہو گا۔ مجھے یاد پڑتا ہے، ہماری بستی میں بجلی نہیں تھی۔ گرمیوں کے دن تھے۔ آج والے زمانے کی طرح واٹر بوتلوں او ر لنچ بکس کا رواج نہیں تھا۔ اکثر بچوں کی پیاس سے حالت خراب ہو جایا کرتی تھی۔ جب ماسٹر مختار صا حب کے پاس جا کے پرائمری اسکول کے چھوٹے چھوٹے بچے پانی مانگتے تو یقینا ان کا دل ایک شفیق استاد کی حیثیت سے چِر (کٹ) جاتا ہوگا۔ اسی لیے وہ اپنی تنخواہ سے تین پانی کے کولر خرید کے لائے اور ہر روز گھر سے اپنی سائکل کے کیریئر کے ساتھ برف باندھ کے لایا کرتے تھے۔ ان کا شاگردوں کی نظر میں مقام یہ تھا کہ ہم میں سے اکثر گھر سے اس لیے جلدی اسکول پہنچ جایا کرتے تھے، کہ آج بھاگ کے آگے سے مختار صاحب کی سائکل میں پکڑوں گا اور جو بچہ صبح دور سے آتے ہیڈ ماسٹر مختار صاحب کی سائکل بھاگ کے پکڑ لیتا اور چھپر کے نیچے لے جا کے اسٹینڈ پہ کھڑی کر دیتا، وہ اس سارے دن کا ہیرو ہوتا۔ شاید یہی وجہ تھی کہ ہم بہترین ایتھلیٹ بن گئے۔ میں نے زندگی میں بہت سارے طلبا کو اپنے اساتذہ سے والہانہ محبت اور شدید نفرت کرتے دیکھا ہے۔ اس محبت یا نفرت کا سبب محض استاد کی اپنی شخصیت یا کردار ہوتا ہے۔ مختار صاحب کے اخلاق اس قدر بلند تھے کہ جب کوئی بچہ دو یا تین دن سے زیادہ اسکول سے غیر حاضر رہتا تو مختار صاحب اس کی خبر گیری کے لیے، اس کے گھر چلے جاتے۔ اگر بچہ بیمار ہوتا تو اس کی تیمار داری کرتے؛ حسبِ توفیق دوا دارو کے انتظام میں بھی مدد کرتے۔

وہ نالائق طالب علموں سے اور غیر حاضری کے عادی مجرموں سے نفرت بالکل نہیں کرتے تھے بلکہ اکثر ان کے والدین سے جا کر ملا کرتے تھے، اسی وجہ سے شاید ہمارے ابو سے مختار صاحب کی دوستی بھی تھی۔ ماسٹر مختار صاحب ہمیشہ اپنی جیب میں ایک تیز دھار چاقو رکھا کرتے تھے، کیوں کہ وہ خود اپنے ہاتھ سے میرے جیسے نالائق شاگردوں کو کانے کی قلم بنا کے دیا کرتے تھے۔ ان کی سائکل کے ہینڈل کے ساتھ ایک کپڑے کا تھیلا لٹکا ہوتا تھا، جس میں سیاہی کی دواتیں کانے کے ٹکڑے سلیٹیاں اورکچی پنسلیں ہوا کرتی تھیں۔ جو وہ اپنے ذاتی پیسوں سے خریدا کرتے تھے اور بوقتِ ضرورت اپنے شاگردوں کو مفت دیا کرتے تھے۔ اسمبلی گراؤنڈ میں جس طرف سے زیادہ بچے آتے تھے، اسکول کے اس حصے کو گیٹ کی حیثیت حاصل تھی۔ اس جگہ چاچا شکور چھٹی کے وقت فروٹ کی ریڑھی لگا تا تھا۔ اس ریڑھی کو اسکول کی کینٹین کا مقام حاصل تھا۔ ماسٹر مختار صاحب کو ہم نے اکثر چاچا شکور سے ناقص فروٹ اور مکھیوں کی بھنبھناہٹ کی وجہ سے ناراض ہوتے دیکھا۔ آج کے دور میں اسکول کی کینٹین کسی بھی فرد کو ٹھیکے پہ دے دی جاتی ہے، پھر وہ ٹھیکیدار مٹی کو سونے کے بھاو بیچے یا غیر میعاری اشیا سے معصوم پھولوں جیسے بچوں کی زندگیوں سے کھیلے، پرنسپل صاحبان کو کوئی فرق نہیں پڑتا۔ کیوں کہ وہ اپنا حصہ ٹھیکے کی مَد میں وصول کر چکے ہوتے ہیں۔

جب ہم پانچویں کا امتحان پاس کر کے شہر کے گورنمنٹ رضویہ اسلامیہ ہائی اسکول میں جا چکے، تو ایک دن کسی وجہ سے ہم اسکول نہیں گئے تھے۔ دُپہر ایک بجے کا وقت تھا اور ہم ہارونیے (ہارون)کی بلیئرڈ پہ کھڑے تھے۔ بستی کے اسکول میں چھٹی ہوئی، مختار صاحب کو ہم نے دور سے آتا دیکھا تو ہم ہارون کے بلیئرڈ کے نیچے چھپ گئے۔ مختار صاحب کے گزر جانے کے بعد ہمیں یاد آیا، کہ ہم تو اب شہر کے اسکول جا چکے ہیں۔ یہ مختار صاحب کا احترام ڈر اور ادب تھا، جو ہمارے دل میں تھا جو ہمیشہ رہے گا۔ ڈر اس لیے کہا کہ جب کبھی مختار صاحب ہمیں کسی غلط جگہ پہ کھڑا دیکھتے یا کسی غیر ضروری اور غلط سرگرمی میں ملوث پاتے تو انتہائی دکھ اور رنج کا اظہار کرتے اور کبھی کبھی ڈانٹ بھی دیا کرتے تھے۔ ہمارے دل میں یہ احساس رہتا تھا کہ ہماری وجہ سے یا ہمارے کسی غلط کام کی وجہ سے ہمارے استاد صاحب کا دل نہ دکھے۔ افسوس ہوتا ہے آج کے اساتذہ کو دیکھ کے جو اپنے شاگردوں کے دل میں وہ مقام حاصل کرنے سے قاصر ہیں۔ اب یقیناً مختار صاحب اور غلام نبی صاحب رِٹائر ہو گئے ہوں گے۔ وہ جہاں بھی ہیں، اللہ تعالیٰ غلام نبی صاحب اور مختار صاحب کو صحت تن دُرستی عطا فرمائے۔ آمین!


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).