مولانا حمداللہ عثمانی حفظہ اللہ کی علمی و سیاسی زندگی پر ایک نظر



مولاناحمداللہ عثمانی کی ولادت 1960ء کو ضلع بٹگرام کے مضافات بتکول میں ہوئی۔ بچپن ہی سے عظیم الاخلاق اور کثیرالمروت انسان تھے۔ آپ میں بے حد درد دل اور خوف خدا تھا۔ تقویٰ و طہارت آپ کا لباس، صبر و شکر آپ کی دعا، جرات و استقامت آپ کی پہچان، سیاست و سیادت جیسے اوصاف حمیدہ آپ میں کوٹ کوٹ کر بھرے ہوئے تھے۔ ہر ایک سے بکمال بشاشت پیش آتے تھے۔ گفتگو میں ہر وقت چہرے پر تبسم کھلتا رہتا تھا۔ اخلاق رزیلہ سے بالطبع نفرت تھی۔ بچپن ہی سے نماز اور تلاوت کے پابند تھے۔ اس کے پہلو بہ پہلو گھر کا پاکیزہ ماحول اور خاص کر والد محترم کی تعلیم و تربیت اور نظرشفقت نے سونے پر سہاگہ کا کام کیا۔۔۔۔۔

آپ کا والد محترم نہایت دیندار اور عشق الٰہی میں مستغرق تھے۔ جس طرح انبیاء کرام علیھم السّلام کے سارے علوم وہبھی ہوتے ہیں کسبی نہیں اسی طرح امتوں میں بعض افراد ایسے ہوتے ہیں جو بظاہر کم پڑھے لکھے ہوتے ہیں لیکن عشق الہی اور اتباع سنت کی وجہ سے اللہ تعالی انہیں وہ مقام عطا فرمادیتے ہیں کہ ان پر رشک آتا ہے۔ مولاناحمداللہ عثمانی کے والد محترم بھی ان افراد میں سے تھے۔ ان کو علماء اور صلحاء سے انتہائی محبت تھی۔ زندگی کی سب سے بڑی تمنا اور آرزو یہ تھی کہ آپ کی اولاد میں اولیاء اور علماء پیدا ہو جائے ۔ اس کے لیے ہر وقت بے چین رہتے تھے اور اللہ تعالی سے دعا کرتے تھے ۔

یہی وجہ تھی کہ مولانا حمداللہ عثمانی کو محض گیارہ سال کی عمر میں گھرکی آرام دہ زندگی کو الوداع کہنا پڑا۔ گاؤں سے کچھ فاصلے پر تھاکوٹ نامی مقام پر مفتی کفایت اللہ صاحب کے پاس قرآن مجید کا ناظرہ شروع کیا ۔ مولانا ذہین بھی تھے شوق بھی تھا اور مفتی صاحب کی شفقت اور نگرانی بھی تھی اسی لیے قلیل عرصہ میں نہایت احسن انداز سے قرآن مجید ناظرہ سے پڑھا جس پر حضرت مفتی کفایت اللہ صاحب نے بطور انعام مفید الطالبین سے نوازا جو مولانا کی زندگی کی سب سے پہلی کامیابی تھی۔۔۔۔۔

بعد ازاں باقاعدہ طور پر دینی علوم پڑھنے کے لیے آپ نے کراچی کا رخ کیا۔ وہاں جا کر مدرسہ حمادیہ میں درجہ اولی سے رابعہ تک نہایت انہماک اور دلچسپی سے پڑھا۔ وہاں کےجلیل القدر عالم مولانا افتخار اعظمی حفظہ اللہ(جو ابھی دار العلوم کے استاد حدیث ہیں) کا شرف تلمذ حاصل ہوا۔ درجہ خامسہ اور سادسہ کے لیے اپنے ملک کی عظیم درسگاہ جامعہ فاروقیہ کو مستقر بنایا ۔ استاد الاساتذہ شیخ الحدیث حضرت مولانا سلیم اللہ خان صاحب رحمۃ اللہ علیہ اور شہید اسلام مفتی نظام الدین شامزئی رحمتہ اللہ علیہ سے پڑھنے کا موقع میسر ہوا ۔ اسی زمانے میں مولانا عثمانی کو قافلہ شیخ الہند کی عظیم جماعت جمیت علما اسلام کی معاون تنظیم جمیت طلباءاسلام میں کام کرنے کا موقع ملا ۔ مولانا کی خداداد صلاحیتوں اور شب و روز محنت کی وجہ سے تنظیم کی مجلس عاملہ نے آپ کو جلد شاہ فیصل ٹاؤن کراچی کا جنرل سیکرٹری منتخب کیا ۔
درجہ سادسہ کے بعد اساتذہ کے مشورے سے آپ نے آغوش بنوری کی طرف رخت سفر باندھا۔ جہاں مفتی اعظم پاکستان مفتی ولی حسن ٹونکی مولانا مصباح اللہ صاحب اور مولانا ادریس صاحب جیسے عظیم ہستیوں سے احادیث نبوی پڑھ کر آٹھ سالہ درسے نظامی کو پائے تکمیل تک پہنچایا۔
فراغت کے بعد مولانا کچھ عرصہ اپنے وطن عزیز میں رہے درس و تدریس کا پکا عزم تھا اور یہی مولانا عثمانی کے والد محترم کا شوق بھی تھا۔ لیکن غربت کے زمانے نے مولانا کے اس عزم اور والد محترم کے شوق کو محض ارمان کی حد تک محدود رکھا۔ بلآخر 1984 کو آپ نے حصول رزق حلال کے لیے پاکستان چھوڑ کر سرزمین مصطفی صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف کوچ کیا۔
چونکہ زمانہ طالب علمی سے مولانا کو عربی سے گہری مناسبت تھی ۔ فصاحت سے بولنے کا ملکہ بھی حاصل تھا۔ اسی لئے سعودی عرب جا کر جدہ کی ایک عدالت میں اجنبیوں کی ترجمانی کا موقع ملا۔ جو کافی عرصہ جاری رہا۔ ساتھ ہی ساتھ احباب نامی تنظیم میں خدمت خلق کے جذبے سے کام بھی کرتے تھے۔
سعودی عرب جانے کے بعد مولانا کو درس و تدریس اور جمیت علما اسلام سے دوری کا غم ہر وقت رہتا تھا اور ان سے وابستگی کے دعا بھی کرتے تھے۔ اسی اثنا 1985 کو فرزندی مفتی محمود حضرت مولانا فضل الرحمن حفظہ اللہ کو عمرہ کی سعادت نصیب ہوئی۔ چونکہ سعودی عرب میں قائد جمعیت کے لیے ایسے افراد کی ضرورت تھی جو جمعیت علما اسلام کی تنظیمی امور بھی جانتے ہو جمیعت کے ساتھ مکمل تعاون بھی کرتے رہے افراد بھی پیدا کرے جو بظاہر ایک مشکل مرحلہ تھا۔ کیونکہ وہاں تو لوگ جمیعت علمائے اسلام کے نام تک سے نا واقف تھے۔ مگر خوش قسمتی مولانا فضل الرحمن مدظلہ کو ایک پراپرٹی ڈیلر سے مولاناحمداللہ عثمانی کا نمبر ملا رابطے کے بعد عزیزیہ کی ایک مسجد میں ملاقات ہوئی جو بہت خوشگوار رہی۔

مولانا حمداللہ عثمانی صاحب نے مولانا کی موجودگی کو غنیمت سمجھ کر سعودی عرب میں جمیعت علماء اسلام کی احیاء فرمایی ۔ اور جمیعت علماءاسلام سعودی عرب کے سیکرٹری اطلاعات مقرر ہوئے ۔ ساتھ ہی ساتھ جمیعت علمااسلام سعودی عرب کی پہلی نمائندگی کا شرف بھی حاصل ہوا۔ جس کا اعتراف مولانا فضل الرحمن صاحب نے ایک سوال کے جواب میں کیا تھا کہ مولانا حمد اللہ عثمانی سعودی عرب کے سب سے پرانا ساتھی اور دوست ہے۔۔۔

اگر یوں کہا جائے تو مبالغہ نہیں ہوگا کہ جس طرح ہندوستان میں جمیت علماء اسلام کی بنیاد مفتی کفایت اللہ محدث دہلوی ، شیخ الہند محمود الحسن اور حسین احمد مدنی رحمتہ اللہ علیہم نے رکھی تھی۔ پاکستان میں یہ شرف شبیر احمد عثمانی رحمہ اللہ کو ملا اور بعد میں اسکی احیاء مفتی محمود رحمۃ اللہ علیہ نے فرمایئ۔
تو اسی سرزمین مصطفیٰ صلی اللہ علیہ وسلم میں جمعیت کی احیا کی یہ سعادت مولاناحمداللہ عثمانی کو نصیب ہوئی۔
ابتداء میں مولانا عثمانی اکیلے جماعت کا کام کرتے تھے۔ مگر جب بعد میں اللہ تعالیٰ کے فضل سے اور مولانا عثمانی کی کاوشوں سے جماعت سعودی عرب کے اکثر شہروں تک پھل گئی تو قائدین جمیعت علمائے اسلام کے مشورے سے 2001 میں ایک اجلاس منعقد ہوا ۔ جس میں مختلف شہروں کے امراء نامزد کئے۔ چونکہ جدہ جماعت کا قلب سمجھا جاتا تھا وہاں کام زیادہ اور مشکل بھی تھا اس لیے مولاناحمداللہ عثمانی کو جدہ کا امیر مقرر کیا ۔ جس پر سولہ سال کے طویل عرصے تک مولانا فائز رہے۔ ان کی انتہک کاوشوں کی وجہ سے یہی جماعت کی کامیابی کا اصل دور ثابت ہوا۔ جب جماعت ملک کے عرض و طول میں پھیل گئی۔ اب اس کو باقاعدہ طور پر مرکزی کنٹرول میں لانا ضروری تھا۔ اسی کے لیے ایک اجلاس منعقد ہوا۔ جس میں ساتھیوں کی مشاورت سے مولاناحمداللہ عثمانی کو آل سعودی عرب کا کنوینر منتخب کیا۔ جس کی تصدیق قائد جمعیت مولانا فضل الرحمان صاحب نے خود کی۔
کنوینر منتخب ہونے کے بعد مولانا نے بنفس نفیس ہر شہر کا دورہ کرکے یونٹ بنائے۔ ساتھ ہی طائف میں مرکزی دفتر قائم کیا۔
بعد میں مولانا فضل الرحمن صاحب اور دیگر قائدین جمعیت کی سعودی عرب تشریف آوری ہوئی۔ مکہ کے ایک ہوٹل میں قائد جمعیت کے زیر صدارت اجلاس ہوا ۔ اور بلا مقابلہ مولاناحمداللہ عثمانی کو جمیعت علماء اسلام آل سعودی عرب کے آمیر، حافظ ذاکر جذبی کو جنرل سیکرٹری منتخب کیا۔ ابھی مولانا کے امیر بننے کا تھوڑا ہی عرصہ ہوا تھا کہ صد سالہ کا انعقاد ہوا ۔ جس کو کامیاب بنانے کے لیے بڑے تعاون کی ضرورت تھی۔ بظاہر یہ مولانا عثمانی اور ان کے رفقاء کیلئے ایک چیلنج تھا۔ لیکن اللہ تعالی کے فضل وکرم اور ساتھیوں کے تعاون سے مولانا نے اس کے ساتھ خطیر مقدار میں نقد تعاون فرمایا اور ساتھیوں کے ہمراہ اجتماع میں تشریف فرما کر عربی زبان میں فصیح و بلیغ خطاب فرمایا۔ جس کی تعریف بابا جمعیت مولانا شیرانی صاحب نے کرتے ہوئے فرمایا ! عثمانی تو اپنی عربی کا رغب ہمارے اوپر ڈالتے ہو۔ یقیناً یہ اہلیان بتکول کیلئے بڑی فخر کی بات تھی۔
آج الحمدللہ مولانا کی محنت سے جمیعت علماءاسلام پاکستان کے بعد سب مضبوط قوت سعودی عرب میں بن چکی ہے۔ اللہ تعالی مولانا عثمانی اور ان کے تمام رفقاء کی ان محنت کو دربار عالی میں قبول فرمائیں آمین یارب العالمین۔۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).