تیسری جنس کا انتم سنسکار


اس کے پیدا ہونے پر سب سے زیادہ غصہ اس کے باپ کو تھا جبکہ ماں کے پہلو میں لیٹی وہ ابھی بھی ماں کے پیار کا لمس محسوس کر رہی تھی۔ نرم گذار گالوں کو اپنے ہی نرم و ملائم ہاتھوں سے چھونے پر وہ اس نئی دنیا کو محسوس کرنے کی کوششوں میں تھی۔ ممتا کی خوشبو اس کے پورے جسم سے آرہی تھی اور اس آغوش نے اسے حرارتِ جاں میں رکھا ہوا تھا۔ اس دنیا میں آئے اور اس آغوش میں چھپے یہ اس کی پہلی سانسیں تھی لیکن پھر اس کے بعد دنیا تو اس کے ساتھ رہی البتہ ممتا نے اسے چھوڑ دیا۔

وہ اس دنیا کی تیسری جنس سے تعلق رکھتی تھی جس کے لیے ماں، باپ، بہن، بھائی اور غرض کسی بھی طرح کے دنیاوے رشتے حرام ہوتے ہیں لہذا اسے ایک گرو کے حوالے کر دیا گیا۔ اس کی سانسوں نے محسوس کیا کہ اب وہ پیاری، پیاری سوندھی سی خوشبو کسی بدبودار دھوئیں میں تبدیل ہو گئی ہے جو کہ اس کی سانس کی نالی میں تعفن بھر رہا ہے۔ یوں ایک لمحے کے لیے اس نے سانس بند ہونے کے خوف سے رونا شروع کر دیا۔ وہ گھنٹوں روتی رہی لیکن جواب میں صرف غصیلی آوازیں سننے کو ملی جن کو سمجھنے سے وہ ابھی قاصر تھی۔

بالاآخر کسی کو اس پر رحم آیا اور اس نے دودھ کے چمچ اس کے منہ میں ڈالے۔ گیلی آنکھوں میں اسے ہلکی ہلکی غنودگی آنا شروع ہوئی اور پھر کسی لمحے وہ سوگئی۔ یہ ایک رات زیادہ بھاری تھی یا اس سے کوئی اگلی رات۔ زندگی بھر اسے یہ پتا نہ چلا کیونکہ روز بروز اس کی زندگی میں نئی سے نئی اذیتیں شامل ہوتی گئیں جن کا گھاؤ ہمیشہ پچھلے گھاؤ سے زیادہ گہرا ہوتا۔ تھوڑا ہوش سنبھالا تو پتا چلا اس کے گھر میں سبھی عورتیں ہیں اور مرد کوئی نہیں۔ اس نے صرف مرد کو ایک ہی روپ میں دیکھا تھا اور وہ روپ تھا تماش بین!

اسی لیے اسے بڑے، بوڑھے، جوان، بچے سبھی صرف تماشہ دیکھنے والے نظر آتے تھے جس کے آگے وہ رقص کرنے سے کبھی نہ شرماتی۔ گرو نے اس کا نام چنبیلی رکھا تھا۔ پھولوں کی ملکہ۔

وہ گھنگھرو پہن کر لوگوں کی خوشیوں میں انہیں ودھائیاں دیتی۔ دھمال ڈال کے انہیں تھرکتے جسم سے سلامی دیتی اور خوش نماء اداؤں سے انہیں محظوظ کرتی جس کے عوض ملنے والی رقم میں سے گرو اسے تین ٹائم کا کھانا دیتا، رہنے کو چھت دیتا اور روز مرہ کے لیے کچھ خرچ دیتا۔ دن پر دن گزرے اور وہ اپنے کام میں پختہ ہوتی گئی۔ جس محفل میں جلترنگ بجتے وہاں چنبیلی کے گھنگھروؤں کی برسات کھنکھتی اور لوگ نوٹوں کی بہار اس پر نچھاور کرتے۔

ایسی محفلوں میں کئی اس کے چاہنے والے بھی بنے جو اسے نوٹوں کی برسات کے ساتھ رقص کی تالیں انہی کے نام کرنے کی فرمائش کرتے۔ ایک ایسے ہی فرمائشی نے جب چنبیلی کا ہاتھ پکڑنا چاہا تو اس نے جھٹکے سے اس کا ہاتھ پیچھے کر دیا۔ آدمی کو غصہ آیا تو اس نے بھاری ہاتھ کا ایک زناٹے دار تھپر چنبیلی کے گال پر دے مارا۔ چنبیلی کو گال کا ماس سن ہوتے محسوس ہوا۔ ابھی وہ سنبھلتی کہ اچانک ایک اور ہاتھ اس کی آنکھ کے قریب لگا اور نینوں کے میخانے چھلک پڑے۔ گرو نے چنبیلی کو سنبھالا اور لڑ جھگڑ کر گھر واپس لے آئی۔ سب نے اسے دلاسے دیے اور سمجھاتے ہوئے خاموش رہنے کو کہا۔

صبح نلکے پر منہ ہاتھ دھوتے ہوئے اسے آنکھ کے گرد درد محسوس ہوا۔ شیشے میں چہرہ دیکھتے ہوئے اسے آنکھ کے گرد پڑا گہرا نیل نظر آیا اور ایک گہرا نشان جو غالبًا ہاتھ کی اس انگوٹھی کا تھا جو مارنے والے سے پہن رکھی تھی۔ بے بسی کے عالم میں وہ خاموش اپنے چہرے کا بغور جائزہ لے رہی تھی اور پھر ایک ٹھنڈی آہ بھر کر شیشے سے پرے ہٹ گئی۔

ایسا اس نے پہلی دفعہ نہیں دیکھا تھا۔ ایسے نیل بھرے کئی نشانات اس کے گھر میں موجود تقریبًا ہر فرد کے چہرے پر تھے اور آج وہ بھی انہی میں شامل ہوگئی تھی۔ وہ جانتی تھی کہ ایسے نشان اب اس کا مقدر ہیں۔ ایک مٹے گا تو دوسرا ثبت ہو جائے گا۔

دن پے دن گزرے تو ایک اور ایسا واقعہ اس کے سامنے تھا۔ بدتمیزی کی انتہا پر ایک اور مرد نے جب اس کے ساتھ بری حرکت کرنے کی کوشش کی تو اب کی بار اسے بھی غصہ آگیا اور اس نے اس مرد کے منہ پر ایک تھپڑ لگا دیا جس پر مرد اور اس کے باقی ساتھیوں نے اسے مل کر مارنا شروع کر دیا۔

لڑائی بڑھی تو چند چھڑانے والے بھی آگئے۔ فنکشن سے فارغ ہو کر جب وہ گھر آئی تو اس کے موبائل پر ایک انجان نمبر سے کال آئی۔ جس میں اسے مردانگی آواز میں دھمکی دی گئی۔ اس نے غصے میں آکر فون کاٹ دیا اور اپنے کمرے میں سونے کے لیے چلی گئی۔ اگلے دن اسے کھانے کے لیے سبزی لینے بازار جانا تھا جہاں رستے میں تین چار مردوں نے اسے گھیر لیا۔ گالیاں بکی اور مارنا شروع کر دیا۔ چند لوگوں نے معاملے کی وجہ پوچھی تو مارنے والوں نے بدفعلی کا الزام لگا دیا اور اس دنیا کو ایسی مخلوق سے پاک کرنے کے فتوے دیے جس پر کئی لوگوں نے تائید کی۔

چنبیلی کو شدید غصہ آیا اور وہ لڑی لیکن پھر مارنے والوں کی آنکھوں میں وحشت اور خاموش تماشائیوں کے منہ پر تالے دیکھ کر معافیاں مانگنے لگ گئی جس سے ان مرد حضرات کو اندازہ ہوا کہ انہوں نے اب اس مخلوق کو فتح کر لیا ہے۔

غرور میں معافی جڑے ہاتھوں کو پاؤں کی ٹھوکر سے ہٹا کر انہوں نے اسے بالوں سے پکڑا اور گھسیٹنا شروع کر دیا۔ وہ عین چوک کے بیچ و بیچ پھٹے کپڑوں کے ساتھ لوگوں سے رحم کی بھیک مانگ رہی تھی۔ لیکن تماش بین اگلے تماشے کے منتظر تھے اور چند تو ایسے تھے جو اس تیسری جنس کے ایسے حال پر خوش تھے کیونکہ اسی جنس نے ان کے گلی، محلوں کو نجس کر رکھا تھا۔ پٹرول کی بوتل لائی گئی اور روتی، سسکتی، بلکتی چنبیلی پر قہقہوں کے ساتھ بہا دی گئی۔ ایک تیلی جلائی اور چیختی، گلا پھاڑتی چنبیلی کی آوازیں اور اونچی بڑھانے کے لیے یہ تیلی اس پر نچھاور کر دی گئی۔ پاگلوں کی طرح کبھی وہ ایک طرف بھاگی اور کبھی دوسری طرف لیکن نہ ہی اس دہکتی آگ کے شعلے کم ہوئے اور نہ ہی کسی نے ان شعلوں کی ہواؤں کو کم کیا۔

درد بڑھتا، بڑھتا اور بڑھتا گیا اور اس کی چیخوں کی پکار آسمانوں کی فضاؤں کو چیرتی رہی۔ اس کا دماغ اس کی پوری زندگی کو ایک فلم کی طرح ریوائنڈ کر رہا تھا تاکہ شاید ذہن کے کسی کونے میں اس کے کسی اپنے نام اس کی زبان پر آجائے جسے وہ پکار سکے لیکن نہیں! اسے ایسا کوئی نام نہیں ملا۔ بلاآخر درد اپنی اس انتہا کو جا پہنچا جہاں اس سانس کی رفتار بلکی ویسی ہی ہوگئی جیسی اس دنیا میں آنے کے وقت تھی۔

ہلکی، ہلکی اور مدھم سی، لیکن اب کی بار حال یہ تھا کہ نہ وہ ممتا کی حرارت تھی اور ہی وہ خوشبو بلکہ گھٹن اور بدبو دار دھوئیں کا ایک ایسا غبار تھا جو اس کی باقی ماندہ سانسیں بھی کھینچ رہا تھا۔ گیلی آنکھوں میں اسے تماشائیوں کے چہرے دھندلے غبار میں مدھم ہوتے دکھائی دیے اور یوں یہ آخری منظر تھا جو اس نے دیکھا۔ پھولوں کی ملکہ چنبیلی مردانگی کے تنور میں جل کر اپنے نجس بدن کو خاکستر کر چکی تھی اور لوگ تماشہ ختم ہوتے گھروں کو جانے لگے انہیں لگا کہ انہوں نے اپنی دنیا کو پاک کر لیا۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).