تین عورتیں ایک کہانی اور ایک ہی طرح کا تھپڑ


بیگم کلثوم نواز کی موت پر ہر کوئی ان کی جمہوریت کے لیے گراں قدر خدمات کے اعتراف میں خراج تحسین پیش کرتا نظر آ رہا ہے۔ اس وقت میاں نواز شریف کے سیاسی اور نظریاتی مخالفین بھی بیگم کلثوم نواز کی آمریت کے خلاف جدوجہد کے گن گاتے اور ان کی موت پر گہرے دکھ اور غم کا اظہار کرتے ہوئے نظر آ رہے ہیں۔ ملک میں ہر آنکھ نم نظر آتی ہے اور ہر طبقہ فکر ان کے درجات کی بلندی کے لیے دعاگو نظر آتا ہے۔ ہمارے معاشرے کا یہ المیہ ہے کہ انسان کی قدر مرنے کے بعد ہی ہوتی ہے جیتے جی ہم انسان کو اس کا اصل مقام نہیں دے پاتے اسے اپنے آپ کو منوانے کے لیے مرنا پڑتا ہے۔

12 اکتوبر 1999 کو بیگم کلثوم نواز اس وقت ملک کے سیاسی منظر نامے پر نمودار ہوئیں جب جنرل پرویز مشرف نے جمہوریت کا شب خون مار کر بیگم کلثوم نواز کے شوہر اور اس وقت کے وزیر اعظم میاں نواز شریف کی حکومت کا تختہ الٹ کر ان کے بھائی شھباز شریف سمیت انہیں جیل بھیجوا دیا اور جنرل مشرف نے ملکی آئین، قانون اور پارلیمینٹ کو رومال میں لپیٹ کر سب کچھ جیب میں ڈال دیا۔ میاں نواز شریف کے ساتھ جانثاری اور وفاداری کے بلند بانگ دعوے کرنے والے بڑے بڑے چوہدری، شیخ، سید، گجر اور رانا صاحبان مارشل لاء کے خوف سے منظر نامے سے غائب ہوکر جیسے مایوں پر بیٹھ گئے اور ان میں سے کئی وزارتوں اور رعایتوں پر بک گئے تو کئی مہروں کے درد کی وجہ سے گھروں تک محدود ہو کر رہ گئے۔ جس دور میں پاکستان مسلم لیگ ن کے وجود کو شدید خطرہ لاحق تھا اس وقت بیگم کلثوم نواز ہی تھیں جو مارشل لاء کے کالے قانون کے خلاف ایک آمر کو للکارتی ہوئی نظر آئیں۔ جب کرین سے انکی گاڑی کو اٹھایا جا رہا تھا تو اس وقت جنرل مشرف کے وفادار اہلکار یہ سمجھ رہے تھے کہ وہ ڈر کر گاڑی سے بھاگ جائیں گی مگر جنرل مشرف سمیت ان کے وفاداروں کے منھ پر بیگم کلثوم نواز نے جراٴت اور بہادری کا ایسا زوردار تھپڑ مارا جو اس سے پہلے بیگم نصرت بھٹو، محترمہ بینظیر بھٹو مار چکی تھیں۔ وطن کی ماؤں بہنوں اور بیٹیوں نے جنرل ضیاء کے مارشل لاء کے دور میں جمہوریت کی خاطر ایم ۔ آر ۔ ڈی کے روپ میں آمریت کے خلاف جراٴت اور بہادری کے دیے جلائے تو کبھی جنرل مشرف کے مارشل لاء کے دور میں جمہوریت کی بحالی کے لیے اے ۔ آر ۔ ڈی کے نام پر بہادری اور جراٴت کے دیپ جلائے جن کو رہتی دنیا تک یاد رکھا جائے گا۔ ملک میں جب جب مارشلا لاز کا نفاذ ہوا سیاسی کارکنان کی عزتیں اور عزمتیں نیلام کر دی گئیں، لوگوں کو پھانسیوں پر چڑھایا گیا، کوڑے مارے گئے مگر جمہوریت کی جدوجہد چلتی رہی اور آمریت کا سورج غروب ہوتا گیا۔

آج بھی لوگ بیگم نصرت بھٹو، محترمہ بینظیر بھٹو اور بیگم کلثوم نواز کی جمہوریت کی جدوجہد اور قربانیوں کو خراج تحسیں پیش کرنا فخر کی بات سمجھتے ہیں جب کہ آمر کا نام لینے والا کوئی بھی نہیں۔

بیگم کلثوم نواز کو جو پیار اور خراج تحسین آج مل رہا ہے وہ میاں نواز شریف کے مرہون منت نہیں بلکہ آمریت کے خلاف کلمہ حق کہنے پر دیا جا رہا ہے۔ جب جب جمہوریت اور آمریت کی بات ہوگی تب تب پاکستان کی تین بہادر، جراٴت مند اور زیرک خواتین بیگم نصرت بھٹو، محترمہ بینظیر بھٹو اور بیگم کلثوم نواز کا نام سنہری حروف میں لکھا جائے گا کیونکہ ان تینوں کی ایک ہی کہانی، ایک طرح کی جدوجہد اور ایک طرح کا سولین بالادستی کے لیے آمریت کو ایک زور دار تھپڑ تھا کہ جمہورت زندہ باد اور آمریت مردہ باد۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).