سی پیک نشانے پر


سال 2014 ءکے اوائل میں کوئٹہ میں ایک اہم سرکاری شخصیت سے ملاقات ہوئی۔ نئی حکومت قائم ہوئے زیادہ عرصہ نہیں گزرا تھا اور ہر طرف سی پیک کا چرچا ہورہا تھا۔ اس شخصیت کی باتوں نے شرکائے محفل کو حیران و پریشان کر دیا۔ موصوف کا کہنا تھا کہ یہ منصوبے عالمی قوتوں کو پسند نہیں۔ سو اس کے حوالے سے جو بھی کرنا ہے بہت دھیمے انداز میں بلکہ چھپ چھپا کر کیا جائے۔ بعد میں ملاقاتیوں نے آپس میں گفتگو کی تو متفقہ رائے یہی بنی کہ میزبان سرکاری شخصیت سی پیک کے بارے میں واضح طور پر ہچکچاہٹ کا مظاہرہ کررہی ہے۔ سیٹلائٹ دور میں کہ جب زمین پر ایک تنکا بھی ہلے تو نوٹ کر لیا جاتا ہے وہاں کیسے ممکن ہے کہ ملکی تاریخ کا سب سے بڑا منصوبہ دنیا کی نظروں سے اوجھل رکھ کر مکمل کر لیا جائے۔ اس ملاقات میں یہ حقیقت آشکار ہو گئی کہ خود ہمارے اپنے بڑے بھی بین الاقوامی دباﺅ کا بہانہ کر کے سی پیک پر غیر سنجیدہ ہیں۔

یہ عام تاثر حقیقت پر مبنی ہے کہ امریکہ اور بھارت ہی نہیں ایک دوست خلیجی ریاست اور ہمارے دو پڑوسی ممالک بھی اس منصوبے کے خلاف ہیں۔ سفارتی حلقوں تک رسائی رکھنے والوں کو زیادہ بہتر علم ہے کہ امریکی سی پیک کا نام سنتے ہی غصے میں آجاتے ہیں اور اس کے بارے میں پاکستانیوں پر لیکچر جھاڑتے ہوئے بتاتے ہیں کہ چینی آپ کا سب کچھ لوٹ کر لے جائیں گے۔ ان کی گفتگو سے لگتا ہے کہ شاید انہیں ہماری فکر ہم سے بھی زیادہ ہے، ظاہر ہے کہ ایسا کچھ نہیں۔ دنیا میں تیزی کے ساتھ بڑھتی ہوئی چینی تجارت دیگر تمام صنعتی ممالک کے لیے ایک چیلنج بن چکی ہے۔ پھر یہ کہ سی پیک کا روٹ اتنا مختصر اورآسان ہے کہ اسے ہر لحاظ سے ایک مثالی سٹریٹجک پارٹنر شپ کا درجہ حاصل ہے۔ منصوبے سے خائف ایک امریکی رکن کانگریس نے تو یہاں تک کہہ دیا تھا یہ شاہراہ دہشت گردوں کو اپنی کارروائیاں پوری دنیا تک پھیلانے کا ایک ذریعہ بنے گی۔ اس قسم کی احمقانہ باتیں سی پیک کے دیگر اندرونی و بیرونی مخالفین بھی کرتے ہیں۔

پاکستان کے اندر سی پیک کے حوالے سے سب سے بڑی چال 2014 ءمیں چلی گئی۔ اس وقت کی ن لیگی حکومت ہی نہیں بلکہ مقتدر حلقوں سے تعلق رکھنے والے بعض ذمہ داران بھی واشگاف الفاظ میں کہہ رہے تھے کہ اسلام آباد میں دئیے جانے والے دھرنے کا مقصد سی پیک کو الٹانا ہے۔ ہو سکتا ہے کہ بعض افراد کو یہ بات عجیب لگے کیونکہ بظاہر مطالبات تو الیکشن دھاندلی اور پھر وزیراعظم کے فوری استعفے کے تھے۔ یہ بات ہمیشہ یاد رکھی جانی چاہیے کہ جب بھی کسی ملک میں کوئی بڑی سرگرمی ہوتی ہے یا کوئی بڑی منظم تحریک چلتی ہے، کاروبار حکومت روک دینے والا احتجاج کیا جاتا ہے تو مقصد دوسرے سے الگ لیکن منزل ایک ہوتی ہے۔ ایسی ہی کہ جیسے 2014 ءکے دھرنوں کے نتیجے میں حکومت اگرچہ نہیں گرائی جا سکی لیکن چین کے صدر کا دورہ جو خالصتاً سی پیک معاہدے پر دستخط کرنے کے لیے تھا منسوخ ہو گیا۔ ملک کو شدید مالی نقصان پہنچا اور غیر یقینی کی کیفیت نے اپنی لپیٹ میں لیے رکھا۔ دھرنے والوں کے سٹیج سے بار بار کہا جا رہا تھا کہ حکومت کی چھٹی ہو کر رہے گی۔ جوڈیشل مارشل لاء کی باتیں بھی سنی گئیں۔ ظاہر ہے ان حالات میں کون سا ملک ہو گا جو شورش زدہ ریاست میں جا کر سرمایہ کاری کا سوچے بھی۔

بہرحال اس معاملے پر اسٹیبلشمنٹ اس وقت تقسیم تھی۔ حکومت تو نہ گر سکی مگر کئی کردار واضح ہو گئے۔ سابق آرمی چیف جنرل اسلم بیگ کے ذریعے میڈیا پر ان ممالک کے نام بھی پوری قوم کو بتا دئیے گئے جو دھرنوں کو سپورٹ فراہم کر رہے تھے۔ معاملہ ایک بار بظاہر ٹل گیا مگر کھیل جاری رہا۔ یہ بات اسٹیبلشمنٹ کے حامی حلقے بھی تسلیم کرتے ہیں کہ 2014 ءکے دھرنوں کے دوران چینی صدر کا دورہ پاکستان شیڈول کے مطابق یقینی بنانے کے لیے اسلام آباد میں متعین چینی سفیر نے دھرنا قیادت سے ملاقاتیں کیں تو ان سے اچھا سلوک نہیں کیا گیا۔ ایک موقع پر یہ تجویز بھی آئی کہ چینی صدر کو دھرنوں کی لپیٹ میں آئے وفاقی دارالحکومت کے بجائے لاہور مدعو کر کے معاہدہ کر لیا جائے لیکن اسے قبولیت نہ مل سکی۔ اب جبکہ ملک میں پی ٹی آئی کی حکومت قائم ہو چکی ہے اور سابق حکمران جماعت ن لیگ کے رہنما جیلوں اور مقدمات کا سامنا کرتے پھررہے ہیں۔ ویسے بھی سی پیک کے حوالے سے باقاعدہ حکومتی سطح پر مخالفانہ بیانات اوراشارے سامنے آنا شروع ہو گئے ہیں۔

وزیراعظم عمران خان کے دیرینہ دوست اور مشیر تجارت عبدالرزاق داﺅد نے برطانوی اخبار فنانشل ٹائمز کو عین اس وقت ایک انٹرویو دیا جب چینی وزیر خارجہ پاکستان کے دورے پر آئے ہوئے تھے۔ عبدالرزاق داﺅد نے سی پیک معاہدے پر کڑی نکتہ چینی کرتے ہوئے منصوبے کو ایک سال کے لیے منجمد کرنے کا کہا۔ ان کے اس انٹرویو پر پورے ملک سے شدید ردعمل سامنے آیا تو ایک مبہم سی وضاحت کر دی گئی۔ مشیر تجارت نے جو بات کی وہ اپنی جانب سے پوری طرح سے ناپ تول کر کی تھی۔ انہیں یہ بھی بخوبی علم تھا کہ خاصا ردعمل آئے گا۔ سو کہا جا سکتا ہے کہ وضاحت بھی پہلے ہی سے سوچ کر رکھی ہو گی۔ انٹرویو چونکہ تفصیلی تھا اور اس میں چین کے حوالے سے اور منفی باتیں بھی کی گئی تھیں، اس لیے ہدف کافی حد تک پورا ہو گیا۔

یہاں یہ بات بتانا بہت ضروری ہے کہ دنیا بھر کے تجارتی حلقوں میں فنانشل ٹائمز کو بائبل سمجھ کر اس کی رپورٹوں پر انحصار کیا جاتا ہے۔ سو پاکستان کے مشیر تجارت کے ذریعے جہاں جہاں ٹھوس پیغام پہنچانا مقصود تھا پہنچا دیا گیا۔ یہ بات سچ ہے کہ پاناما لیکس کے دوران اسلام آباد لاک ڈاﺅن اور پھر معاملہ سپریم کورٹ میں جانے کے بعد حکومت کو ڈولتا دیکھ کر چین نے سی پیک سے متعلق فنڈز اور قرضے روک لیے تھے لیکن جو پیسہ آچکا تھا اس پر کام جاری رکھا گیا۔ پاکستان میں نئی حکومت آنے کے بعد چینی حکومت نے معاملات پھر سے آگے بڑھانے کے لیے اپنے وزیر خارجہ کو بھجوایا تو ہوائی اڈے پر ٹھنڈے ٹھار استقبال کا سامنا کرنا پڑا۔ انہی دنوں سعودی وزیر اطلاعات اچانک پاکستان کے دورے پر آئے تو انہیں ریسیو کرنے کے لیے وفاقی وزیر اطلاعات خود موجود تھے۔ چینی وزیر خارجہ کا استقبال ایک سرکاری افسر نے کیا جو تصویر جاری کی گئی اس میں سرد مہری کا عنصر نمایاں تھا۔ حق تو یہ تھا کہ چینی وزیر خارجہ کا استقبال بھی سعودی وزیر اطلاعات کی طرح کیا جاتا۔

اپنے دورے کے دوران چینی وزیر خارجہ نے پاکستانی ہم منصب کے علاوہ آرمی چیف سے بھی مذاکرات کیے۔ نئے صدر عارف علوی کی تقریب حلف برداری میں شرکت کر کے جذبہ خیر سگالی کا مظاہرہ کیا۔ مہمان وزیر خارجہ نے وزیراعظم عمران خان کو دورہ چین کی دعوت بھی دی۔ بہرحال یہ تو طے ہے کہ معاملات اب پہلے کی طرح نہیں رہے۔ اسلام آباد کے صحافتی حلقوں میں وفاقی کابینہ کے پہلے اجلاس میں پیش آنے والے واقعہ کی گونج آج سنی جارہی ہے۔ بتایا جاتا ہے کہ کابینہ کے اجلاس میں راولپنڈی سے تعلق رکھنے والے ”مشہور زمانہ“ وزیر نے نہایت کھردرے لہجے میں مطالبہ کیا کہ سب سے پہلے سی پیک کو رول کرنے کا حکم جاری کیا جائے۔ وہ ضرورت سے زیادہ جذباتی ہونے لگے تو جواب ملا فکر نہ کریں سارا منصوبہ کیس ٹو کیس دیکھ لیں گے۔ اگر کوئی یہ تاثر دے کہ سی پیک چین کی مجبوری ہے تو بالکل غلط ہو گا۔ ہاں !مگر یہ راستہ اس کے لیے بہت بڑی سہولت ہو سکتا ہے اور اگر منصوبہ پوری طرح سے مکمل ہو جائے تو چین کے ساتھ ساتھ پاکستان کو بھی اتنا مالی فائدہ ہو سکتا ہے کہ جس کا تصور نہیں کیا جا سکتا۔ چین کی پاکستان سے دوستی اپنی جگہ اٹل حقیقت ہے لیکن ریکارڈ اٹھا کر دیکھ لیں چینی حکومت کا سب سے زیادہ فوکس تجارت پر ہوتا ہے۔

اگر کوئی ناراض ہو جائے تو تحمل کی پالیسی اختیار کرتے ہوئے انتظار کیا جاتا ہے۔ وقفے وقفے سے پھر آفرز دی جاتی ہیں اگر کوئی پھر بھی نہ مانے تو متبادل ذرائع ڈھونڈ لیے جاتے ہیں۔ چین کے پاس برما کا راستہ بھی موجود ہے۔ اگرچہ طویل ہے مگر پوری طرح سے قابل عمل ہے۔ افغانستان، تاجکستان، ایران کے راستے بھی تجارتی راہداری کی آپشن موجود ہے۔ دنیا بھر میں تیزی سے فروغ پاتی تجارت میں چین کا سب سے بڑا پارٹنر بھارت ہے۔ 84 ارب سے لے کر 100 ارب ڈالر تک بزنس سالانہ ہورہا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ چینی حکومت پاکستان پر زور دیتی آرہی ہے کہ وہ اپنے تنازعات مذاکرات کے ذریعے طے کرنے کی کوشش کرے۔ چینی وزیر خارجہ کے دورے کے بعد فالو اپ جاری ہے۔ یہ طے کیا جارہا ہے کہ فوری طور پر کون سے اقدامات کیے جا سکتے ہیں۔ تجارت کے حوالے سے چین کی تحمل والی پالیسی کا اطلاق یقینا پاکستان پر بھی ہوگا۔ خصوصاً ان حالات میں کہ جب ہماری اپنی مالی ضروریات ہر گزرتے دن کے ساتھ بڑھتی ج ارہی ہیں۔ اگر کوئی یہ جاننا چاہے کہ اس حوالے سے سب سے بڑی رکاوٹ کیا ہے تو اس کا جواب صرف ایک ہے، امریکی ایسا نہیں چاہتے۔ سی پیک کے مخالفین تو اور بھی کئی ہیں لیکن امریکہ تو امریکہ ہی ہے۔ اگر کوئی پوچھے کہ یہ دباﺅ کب ختم ہوگا؟ تو اس کا سادہ سا جواب اتنا ہے کہ جب سول حکمرانوں، جرنیلوں، ججوں، جاگیرداروں ،صنعتکاروں سمیت ملک کی حکمران اشرافیہ اپنے سہانے مستقبل، بعد از ریٹائرمنٹ رہائش اور اولاد کی پرورش ، تعلیم و تربیت کے لیے امریکہ، برطانیہ دیگر یورپی ممالک اور آسٹریلیا کی بجائے خود پاکستان میں رہنے اور اولاد کو یہیں پڑھانے یا پھر اعلیٰ تعلیم کے لیے چین بھجوانے پر تیار ہو جائے تو امریکی دباﺅ اپنے آپ کم ہوتا جائے گا۔ اس تمام عمل کوکتنا وقت لگے گا ،یہ حساب آپ سب خود لگا لیں۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).