کراچی بیوڑا پارٹی اور دو بوتل شہد اور تیل وغیرہ


ہر محلے میں ایک ’’بیوڑا‘‘ پارٹی ہوتی ہے۔نوجوانی میں یہ پارٹی ایک ’’پوّا‘‘ شلوار یا جینز میں چھپا کر خود کو ہیرو سمجھتی ہے۔ محلے کے سارے شرفا گلی میں پھیلے گندے پانی سے شلوار بچا کر چلتے ہیں، بالکل اسی طرح ہر شریف آدمی اس ٹولے سے نظر بچا کر چلتا ہے۔ کوئی انھیں منہ لگانے کے لیے تیار نہیں ہوتا کہ کہیں بے عزتی نہ کر دے۔ اور سب سے بڑھ کر یہ کہ اگر کسی نے ان سے بات کرتے ہوئے دیکھ لیا تو ہمیں بھی بیوڑا نہ سمجھا جائے۔لیکن رات کو کسی کی طبعیت خراب ہو جائے یا پھر کوئی حادثہ ہو جائے تو یہ ہی پارٹی سب سے آگے آگے ہوتی ہے۔

نیکیاں جتنی بھی کر لے آخر میں یہ بیوڑا پارٹی ہی کہلاتی ہے۔ان کے پاس اگر پانی کی بوتل بھی پڑی ہو تو لوگ یہ ہی سمجھتے ہیں کہ ’’پوا‘‘ پانی میں ملایا ہوا ہے۔سیاستدانوں کا ان بیوڑا پارٹی سے کوئی تعلق نہیں ہوتا اس لیے ابھی تک کسی کی سمجھ میں نہیں آیا کہ کسی بیوڑے نے شراب کی بوتل چھپانے کی کوشش کی ہے یا شہد کو محفوظ کیا ہے۔گھر پر بیٹھی اماں کو یہ سمجھ نہیں آتا کہ شراب کی بوتل کون سی ہے اور لال شربت کی کون سی ہے۔ اکثر انھیں شراب کی بوتلیں خوبصورت اور مضبوط لگتی ہیں اس لیے اُس میں شہد اور اچار بھی ڈال دیتی ہے۔جیسے اکثر لوگ شراب شوق سے پیتے ہیں مگر ’’خنزیر‘‘ کا گوشت حرام سمجھتے ہیں۔

اسی طرح مجھے یہ بات سمجھ نہیں آئی کہ لوگوں کو شراب کی بوتل میں شہد پر اعتراض ہے یا شراب نہ ہونے پر شکوہ۔ سوشل میڈیا کے رویے سے مجھے لگا کہ شاید سب لوگ یہ سمجھتے ہیں کہ سیاستدان پیسہ لوٹ سکتے ہیں کسی کا لہو پی سکتے ہیں لیکن شراب نہیں پی سکتے ہیں۔

ہم غریبوں کے گھروں میں چاکلیٹ کے ڈبے میں سوئی، دھاگہ پڑا ہوتا ہے۔ اگر کسی ملازم نے ’’بوتل گلی‘‘ سے 5روپے کی بوتل خرید کر اس میں تیل بھر دیا تو کون سی نئی بات ہو گئی۔ اس میں کون سی سازش ہو گئی۔ میرا بس کہنا یہ ہے سیاستدانوں کو اچھے برانڈ کا ڈبے والا تیل استعمال کرنا چاہیے۔ باہر کھلا ہوا تیل اچھا نہیں ہوتا۔ سنا ہے اُس میں چربی زیادہ ہوتی ہے۔ ویسے تحریک انصاف کے لیڈر کے پاس سے شراب کی بوتل میں سے شہد ملا تو سب نے اسے مسلم لیگ کی سازش قرار دیا تھا۔

شرجیل میمن صاحب کے خلاف بھی تو کوئی حاسد سازش کر سکتا ہے۔ اور تیل کی بوتل چرانے کے لیے تیل کو شراب کی بوتل میں ڈال سکتا ہے۔ پولیس کو شاباش دینی چاہیے۔ جو پولیس دور سے منہ سونگھ کر شراب اور شرابی کی کوالٹی بتا سکتی ہے، اُسے لیب میں بھیج کر ٹیسٹ کرنے کی ضرورت کیوں پیش آئی۔ پولیس تیزی سے شرابیوں کی تلاش میں ہے۔

جس پھرتی سے ایک گیسٹ ہاوس میں چھاپا مار کر ایک اینکر کو پکڑا گیا وہ مثالی کارروائی ہے۔ اسی علاقے میں مجھ غریب کا موبائل دو بار چھن چکا۔ ’’رپرٹ‘‘ بھی درج کرا دی لیکن موبائل نہ ملا ۔ پولیس کہتی ہے کہ ان کے پاس پکی مخبری تھی کہ یہاں شراب پی جا رہی تھی اسی لیے چھاپہ مارا۔ اور میں پولیس کو یہ بتاتا رہا کہ اوپر ایک نہیں دو نہیں چھ کیمرے لگے ہوئے ہیں براہ مہربانی اسے دیکھ لیں لیکن پولیس ٹس سے مس نہیں ہوئی۔ سوچ رہا ہوں اب اگر اس علاقے میں موبائل چھینا گیا تو پولیس کو FIR میں لکھواؤں گا کہ ایک شرابی بوتل میں موبائل چھین لیا گیا۔

ہو سکتا ہے پولیس تیزی دکھائے اور شرابی بوتل کے نام پر موبائل واپس مل جائے۔ بات کہاں سے کہاں چلی گئی۔ میں تو بیوڑا پارٹی کی بات کر رہا تھا۔ محلے میں مشہور ہوتا ہے کہ گلی کے نکڑ میں اندھیرے کا سہارا لے کر بیوڑا پارٹی اپنا ’’پوا‘‘ ختم کرتی ہے۔اندھیرے میں بیٹھے ہوئے ان لفنگوں کو پولیس وہاں بھی دیکھ لیتی ہے۔ سارے شریف لوگ یہ کہتے ہیں کہ ان موالیوں کے پاس موبائل رکتی ہے، گپ مارتی ہے اور چلی جاتی ہے۔

سب لوگ یہ سمجھتے ہیں کہ پولیس میں ان بیوڑوں کی بڑی بات ہوتی ہے۔ اس لیے شراب کی بوتلیں، اسپتال کے کمرے سے ملیں یا گیسٹ ہاؤس میں بستر کے نیچے سے، حیرت سب کو ہوتی ہے ۔بیوڑے شراب روز پیتے ہیں۔ پولیس ان کے پاس اکثر رکتی ہے۔ لیکن محلے میں کسی کو حیرت نہیں ہوتی۔ مگر جب پولیس ان سے ’’پوا‘‘ نکلوا کر بند کرتی ہے تو محلے کی سب سے بڑی خبر بنتی ہے۔

کچھ شریف لوگ تو یہ کہتے ہیں کہ یہ سب ’’ریٹ‘‘ بڑھانے کے لیے ہوتا ہے۔ ورنہ تو پولیس کو سب معلوم ہوتا ہے کہ کون سے اسپتال کے وارڈ میں کتنی تیل کی بوتلیں ہیں۔ اب خود دیکھ لیں کہ ڈیفنس سے سرکاری نمبر پلیٹ کی گاڑیاں چھینی جا رہی ہوں، وہ بھی کراچی کے مئیر اور سندھ اسمبلی کے اہم آدمی کی، مجھ غریب کا موبائل چھینا جارہا ہو، اور پولیس کسی پکی انفارمیشن پر بیوڑوں کے ’’پوے‘‘ پکڑ رہی ہو تو دل میں کچھ کچھ ہوتا ہے۔

کچھ لوگ کہتے ہیں کہ جب مولوی صاحبان کی طرف سے بھٹو کے خلاف بہت زیادہ شور مچا اور ہر جگہ یہ کہا جانے لگا کہ بھٹو شراب پیتا ہے۔ تو اکثر جلسوں میں کچھ بیوڑے یہ نعرہ بھی لگاتے تھے کہ بھٹو جیو ہزاروں سال، بھٹو پیو ہزاروں سال۔ اب یہ کسی بیوڑے نے خود سے نعرہ بنایا ہے یا پھر ویسے ہی سوشل میڈیا کی خبر ہے اس کا مجھے معلوم نہیں۔

وزیر اعلی سندھ خود اعتراف کر رہے ہیں کہ یہاں جگہ جگہ اسٹریٹ کرائم ہو رہا ہے۔ اس کی شرح میں اضافہ بھی ہوا ہے ۔ لیکن خبر یہ آتی ہے پولیس نے شراب کی دو بوتلیں پکڑ لیں۔ ایک سیاستدان کے کمرے سے پکڑی اور پھر ایک اینکر کے کمرے سے۔ پھر اُسی مشہور علاقے میں پولیس نے خواجہ سرا کو پکڑ لیا۔ کہانی ہضم نہیں ہوتی۔ سندھ حکومت کو 15 ستمبر کو بجٹ دینا ہے۔ نئے پاکستان کی وفاقی حکومت نے کوئی بجٹ نہ دیا ہو، نہ ہی کوئی اسکیم منظور ہوئی ہو، پرانی اسکیموں کا بجٹ بھی روکا ہوا ہو، ایسے میں چیف منسٹر سے کوئی بجٹ کے بجائے یہ پوچھے کہ شراب کی بوتل میں تیل کی قیمت کیا ہے؟ تو نشے میں اضافہ ہو گا یا کمی؟

متحدہ والے ’معصوم شریف‘ لوگ ہیں، لیکن آج کل سب سے کہتے پھرتے ہیں کہ ہم شریف کیا ہوئے ساری دنیا ’’بیوڑی‘‘ ہو گئی۔ پودے لگا کر متحدہ والوں نے جتنی تصویریں کھینچی ہیں اتنے درخت کا وعدہ تو عمران خان نے بھی نہیں کیا ہے۔ یہ بات تو 100 فیصد صحیح ہے کہ متحدہ والوں یہ کی تصویریں عمران خان دیکھے یا نہ دیکھے مصطفی کمال ضرور دیکھ رہے ہونگے۔ تحریک انصاف والے اسمبلی سے زیادہ شہری حکومت کے دفتر میں وقت گزار رہے ہیں۔

متحدہ والوں کو اپنی سیٹیں جیتنے پر اتنی حیرت نہیں ہوئی جتنا غصہ انھیں اُس وقت آ رہا ہے جب تحریک انصاف والے کچرے کے ٹرک پر اپنا جھنڈا لگا رہے ہیں۔ اب یہ کوئی ’’بیوڑا‘‘ لگا رہا ہے یا پھر کوئی اپنا ہی چھوکرا؟ یہاں بھی مسئلہ سیدھا سا ہے کہ شراب کی بوتل نئی ہے لیکن اندر وہ ہی سرسوں کا تیل ہے۔ کنڈے، پانی کے کنکشن، چھت کی بھرائی میں وہ ہی گلی کے بیوڑے لگے ہوئے ہیں بس بوتل انگلش ہو گئی ہے۔

بیوڑوں کی دوستی بھی بہت مثالی ہوتی ہے۔ بس جہاں چار یار مل جائیں وہیں پارٹی شروع ہو جاتی ہے ۔ اس بار سندھ کی سیاست میں جھنڈے الگ الگ ضرور ہیں لیکن اندر کی بات یہ ہے کہ کہیں شراب کی بوتل میں شہد ہے تو کہیں تیل کے کنستر میں ’’پوا‘‘ رکھا ہوا ہے۔ اس لیے پارٹی ’’جم‘‘ کر ہو رہی ہے۔

فارمولا یہ طے ہوا ہے کہ سندھ کی سطح پر چار یار، پانچ سال ایسے چلیں گے کہ نہ کوئی شراب رہے نہ شہد، نہ تیل نکلے نہ پانی۔ اتنا دوستانہ چل رہا ہے کہ سندھ کی تاریخ میں ایسا کبھی نہیں ہوا۔ پیپلز پارٹی کی حکومت سندھ میں، تحریک انصاف کا گورنر اور وفاقی حکومت، متحدہ والوں کا مئیر اور وفاقی حکومت، GDA  وفاق میں دوست۔ اب آخر میں رہ جاتی ہے بس بیوڑا پارٹی۔ ایسے میں پولیس شراب کی بوتلوں تک پہنچ جاتی ہے مگر تیل سے ہاتھ چکنے کرتی رہتی ہے۔

پچھلی بار وفاق میں مسلم لیگ حکومت میں تھی لیکن پانچ سال اپوزیشن کرتی رہی۔ سندھ میں پیپلز پارٹی کی حکومت تھی لیکن کوئی اور فیصلے کرتا رہا۔ ابھی تک اچھی بات یہ ہے کہ خلائی اپوزیشن نہیں ہے۔ بس چند بیوڑے ہیں جو رات کو سب کے سونے کے بعد شور مچاتے ہیں۔ فیصلہ یہ ہونا باقی ہے کہ ان بیوڑوں کو بند کر دیا جائے یا ’’پوّے‘‘ پر ہی ٹرخا دیا جائے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).