مارو، کاٹو اور جلاؤ۔۔۔ یہ عورت ہے


\"quratulعورت دنیا کا سب سے بڑا مسئلہ اس وقت سے ہے جب ابا جی آدم علیہ السلام اور اماں جی حوا دونوں نے ایک دوسرے سے دور تنہائی کاٹی تھی۔ ابا جی اور اماں جی کی غلطی کی سزا کے طور پر ایک کو مشرق تو دوسرے کو مغرب می اتارا گیا۔ اور ابا جی اماں جی کو ڈھونڈتے ڈھونڈتے زمین کے چکر کاٹتے برسوں بعد اماں جی حوا کے پاس پہنچے۔ یہ بہت کٹھن وقت تھا تنہائی، دوری اور ایسی بے بسی کے وہ کسی سے اپنا درد بھی بیان نہیں کر سکتے تھے۔ عورت تب بھی ایک مسئلہ تھی۔ نہ ہوتی تو ابا جی ایک ویران دنیا میں اتنا سفر اور مصائب اٹھا کر اماں جی تک کبھی نہ جاتے۔ لیکن ان کی غیرت نے گوارا نہ کیا کہ وہ عورت خالی خولی دنیا میں اکیلی رہے۔ تاریخ میں کہیں سے اس بات کے شواہد نہیں ملتے کہ وہ اماں حوا کو ہلکے پھلکے تشدد کا نشانہ بناتے تھے کہ نہیں یا یہ روایت بعد میں حضرت مولوی علیہ السلام کی ایجاد کردہ ہے۔

چند دن پہلے وجاہت مسعود صاحب نے عورت پر ہونے والے مظالم کے حوالے سے بات کرتے ہوئے کہا کہ مولوی عورت پر تشدد کے خلاف تو کبھی سڑکوں پر نہیں آتے لیکن ان کے حق میں پاس ہونے والے بل پر سڑکوں پر ضرور نکلتے ہیں۔ ان کی بات بجا تھی لیکن چونکہ مجھے اختلاف کی شدید بیماری ہے میں نے ان سے اختلاف کیا کہ عورت پر تشدد کرنے والا طبقہ مولوی نہیں اور نہ سارے تشدد کے واقعات میں ملوث افراد مولوی ہیں۔ بلکہ یہ ہر طبقہ سے تعلق رکھتے ہیں ان میں پڑھے لکھے افراد، عالم فاضل، ڈاکٹرز، انجینئرز، بزنس مین اور ان پڑھ سارے شامل ہیں۔ اس لیے مولوی کے سڑک پر آنے نہ آنے سے کوئی فرق نہیں پڑے گا۔ ہم جتنے بھی قوانین لے آئیں، سڑکوں پر مارچ کر لیں، عورت کو تحفظ قوانین نہیں دیں گے بلکہ شعور دے گا۔ انہوں نے میرے اختلاف سے اتفاق کر لیا۔ لیکن اسلامی نظریاتی کونسل کے موجودہ پیش کیے جانے والے قانون کی ایک شق نے مجھے حیرت میں تو نہیں ڈالا لیکن شدید قسم کے ہیجان میں مبتلا ضرور کر دیا ہے۔ شق کے مطابق مردوں کو عورت پر ہلکے پھلکے تشدد کی اجازت ہو گی۔ لفظ تشدد ظلم و جبر کو ظاہر کرتا ہے۔ اس خوبصورت شق سے پہلے عورتیں جلائی جاتی تھیں نہ کاٹی جاتی تھیں۔ تیزاب گردی کا شکار ہوتی تھیں نہ غیرت کے نام پر قتل۔ اجتماعی زیادتی کا شکار بھی عورت تھوڑی ہوتی تھی۔ مرد کو کونسی اجازت تھی۔ بیچارہ مرد اس کی کتنی حسرتیں ہوتیں ہیں کہ وہ عورت کو مارے، اسے غیرت کے نام پر قتل کرے، اس پر تیزاب پھینکے، اسے جنسی تشدد کا نشانہ بنائے۔ اب عورت کا حسن تو تشدد سہنے ہی میں ہے۔ ہاتھ، پاؤں اور منہ پر نیل کے نشان نہ ہوں، ایک آدھ ہڈی ٹوٹی نہ ہو تو عورت بھلا پیاری کیسے لگے گی۔ اس لئے مرد کو ہلکے پھلکے تشدد کی اجازت ہونی چاہیے، ہر گھر سے ہلکی ہلکی سسکیوں کی آواز آنی چاہیے، چینخیں بلند ہونی چاہیں، اس سب سے ماحول کتنا رنگین ہو جائے گا اور مرد کی انا کی بھی تسکین ہو گی۔ اسی تسکین کے لیے ایک عزیز کے ہمسائے نے سوچا آج بیوی پر ہلکا پھلکا تشدد کرتا ہوں۔ کافی دنوں سے گالیوں، لاتوں اور گھونسوں کی محبت بھری زبان سے وہ بیوی کو سمجھاتا رہا کہ وہ گھر کے کام صحیح طرح کرے، کپڑے اچھے سے دھوئے، کھانے کا ذائقہ فائیو سٹار ہوٹل جیسا ہو، ماں باپ بھائی بہنوں کی خدمت میں ہر وقت کھڑی رہے۔ اور گھر آئے تو اس پر بھی صدقے واری ہو۔ لیکن ایک دن اسے ہلکا پھلکا تشدد کرنا پڑا، ڈنڈے سے عورت کو اتنا مارا کہ اس کی ہڈیاں چور چور ہو گئیں اور شکل مسخ ہو گئی۔ بیچاری کو جب سمیٹا گیا تو اس کی ایک گٹھری ہی بن پائی۔ چند سال پہلے آپا کی ایک کلاس فیلو کو اس کے شوہر نے جو کہ حاملہ تھی ہلکے پھلکے تشدد کے بعد زہر دے کر مار دیا کیونکہ وہ تیسری بیٹی کو جنم دینے جا رہی تھی۔

اسلام کا چہرہ مسخ کرنے والے نام نہاد دین کے ٹھیکے دار جن آیات کو عورت پر تشدد کی دلیل بناتے ہی ذرا وہ آیات بھی ملاحظہ ہوں۔

{وَاللَّاتِي تَخَافُونَ نُشُوزَهُنَّ فَعِظُوهُنَّ وَاهْجُرُوهُنَّ فِي الْمَضَاجِعِ وَاضْرِبُوهُنَّ} [النساء: 34].

ترجمہ\” اور جن (عورتوں) سے تمہیں سرکشی و نافرمانی کا اندیشہ ہو تو انہیں نصیحت کرو اور (اگر نہ سمجھیں تو) انہیں خواب گاہوں میں (خود سے) علیحدہ کر دو اور (اگر پھر بھی اصلاح پذیر نہ ہوں تو) انہیں (ہلکا سا) مارو\” (سورہ نساء، آیت نمبر 34)

اس میں کہیں نہیں لکھا کہ عورت کو تشدد کا نشانہ بنانا شروع کر دیا جائے۔ اس مار کے لیے اللہ نے صرف ان خواتین کا کہا جو سرکشی کریں، سرکشی سے مراد کھلی غلطی اور فحاشی ہے۔ اور اس کے لیے بھی اللہ تعالی نے فرمایا کہ انھیں سمجھاو، ان سے بات کرو۔ نصحیت کرنے اور سمجھانے کی وجہ یہ ہے کہ اگر دونوں کے درمیان غلط فہمی ہے اور کوئی ایسی شکایت ہے جسے مرد دور کر سکتا ہے تو وہ دور ہو جائے۔ اگر معاملہ نصیحت سے بھی ٹھیک نہیں ہوتا تو پھر وہ اس سے اپنے بستر کو علیحدہ کر کے ناراضی کے اظہار کے طور پر بات چیت نہ کرے اور پھراس سے بھی بات نہ بنے تو آخری حد مار ہے لیکن کتنا مارے، اس آیت کی تفسیر بیان کرتے ہوئے حجتہ الوداع کے موقع پر حضور نبی کریم ﷺ نے فرمایا سنو! عورتوں کے ساتھ اچھا سلوک ( اور برتاؤ) کرو۔ کیوں کہ وہ تمہارے پاس بے کس ولاچار بن کر ہیں اور تم اس کے سوا ان کی کسی چیز کے مالک نہیں ہو، مگر یہ کہ اگر وہ کوئی کھلی ہوئی بدکاری کر بیٹھیں، کسی قبیح گناہ کی مرتکب ہوں تو ان کے بستر الگ کر دو اور انہیں مارو مگر ایسی مار نہ لگاؤ کہ ان کی ہڈی پسلی توڑ بیٹھو، پھر اگر وہ تمہارے کہے میں آ جائیں تو ان پر ظلم و زیادتی کے راستے نہ ڈھونڈو، خبردار ہو جاؤ! تمہارے لیے تمہاری بیویوں پر حقوق ہیں، اور تمہاری بیویوں کے تم پر حقوق ہیں، تمہارا حق تمہاری بیویوں پر یہ ہے کہ جنہیں تم ناپسند کرتے ہو انہیں وہ تمہارے بستروں پر نہ آنے دیں، اور نہ ہی ان لوگوں کو گھروں میں آنے کی اجازت دیں جنہیں تم برا جانتے ہو، اور ان کا حق تم پر یہ ہے کہ تم ان کے ساتھ اچھا سلوک کرو اور انہیں اچھا پہناؤ اور اچھا کھلاؤ‘۔ (ترمزی شریف 3078)

مار کی یہ حد قبیح گناہ اور فحاشی پر ہے، گھر کے کام درست نہ ہونے پر، کھانے میں نمک کم تیز ہونے پر اور معمولی باتوں اور اختلافات پر نہیں۔ یہاں تو مرد کی انا کو اس پر بھی ٹھیس پہنچ جاتی ہے کہ کوئی کام عورت کو کہا ہو اور کسی وجہ سے وقت ذرا آگے پیچھے ہو جائے۔ ہمارے ہاں صرف شک کی بنیاد پر عورت کو قتل تک کر دیا جاتا ہے، یقین ہونا تو دور کی بات ہے۔ عورت کسی سے بات بھی کر لے تو مرد اس کو بدکردار قرار دے دیتا ہے۔ گزشتہ دنوں ایک عورت کو اس کے ماموں سے ہاتھ ملانے کے جرم میں کاری قرار دے دیا گیا۔ یہاں تک کہ ایک عورت کو چھت پر کپڑے سکھاتے ہمسایہ دیکھ رہا تھا تو شوہر نے اس کی ٹانگ کاٹ دی۔ ایسے واقعات روزانہ رونما ہوتے ہیں جب کہ عورت کی سرکشی کے واقعات آٹے میں نمک کے برابر ہیں۔ اگر کسی کو اپنی بیوی نہیں پسند اور وہ اس کو چھوڑنا چاہتا ہے تو ہمارے ہاں ایک اور رواج بھی ہے کہ اس پر الزامات لگا کر چھوڑا جاتا ہے۔ اور پھر اگر بیچاری کہیں اور گھر بسائے تو اس کو وہاں بھی بسنے نہیں دیا جاتا۔ ظلم کی حد ہے اور ملا حضرات فرماتے ہیں زلزلے عورتو ں کے پینٹ پہننے کی وجہ سے آتے ہیں۔ اگر کسی کو نہیں گوارا کسی کا ساتھ تو وہ اسے جان سے مارنے، اس کے ہونٹ، ناک اور کان کاٹنے، اس پر تیزاب پھینکنے اور اس کی ہڈی پسلی توڑنے کی بجائے اسے چھوڑ دے۔ لیکن اس کو انا کا مسلہ بنا لینا ایک نفسیاتی بیماری ہے جس کا شکار کم و بیش تمام پاکستانی خواتین و حضرات ہیں۔ مرد کا رعب ہے اور ہونا بھی چاہیے مرد کو اللہ تعالی نے غالب بنایا ہے درست ہے۔ لیکن مرد کو مار کٹائی، ڈانٹ ڈپٹ، غصہ اور عورت کے استحصال کے لیے نہیں بنایا بلکہ اچھے اخلاق، محبت، وسعت قلبی،رحم دلی اور ہمدردی سے عورت کو مغلوب کرنا چاہیے۔ گناہوں سے دوری اگر اللہ کی محبت میں اس کی ناراضی کے خوف سے ہو یا دوزخ کے خوف سے دونوں میں زمین آسمان کا فرق ہے۔ محبت کا رعب اصل رعب ہے۔ اسی لیے فحاشی پر بھی اللہ تعالی نے حکم دیا کہ اس کو نصیحت کرو یہ آیات مرد کے مہربان اور وسیع القلب ہونے کا تقاضہ کر رہی ہیں۔ غصے، نفرت اور مار کٹائی سے عورت اللہ میاں کی گائے بن کر آپ کے ساتھ زندگی کے دن پورے گی۔ اور مرد ہونے کے ناتے آپ کی انا کو تسکین تو ملے گی لیکن انسان ہونے کے ناتے آپ عورت کے جذبات اور احساسات کا خون کرتے رہیں گے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments