بیگم کلثوم نواز۔۔۔


وہ سخت جان سہی لیکن، آخر کار وہاں چلی گئی، جہاں ایک نہ ایک دن ہم سب کو جانا ہے۔
زنداں کی کوٹھری میں پڑا اس کا شوہر۔ اس کا باؤ جی۔ سینتالیس سالہ رفاقت کے بھولے بسرے منظر تراشتا، اسے جاں کنی کی اس کیفیت میں ایک نظر دیکھنے کی آرزو میں جلتا، اس سے دو باتیں کر لینے کی تمنا میں سلگتا رہا۔ اس کی لاڈلی بیٹی۔ اس کی گڑیا۔ اسی زنداں میں، قیدی باپ سے بہت دور، زنداں کی ایک اور کوٹھڑی میں پڑی، ممتا کی سہانی یادیں سمیٹتی، ماں سے گلے ملنے، اس کا ماتھا چومنے، اس کے شانے پر سر رکھ کر سونے اور اپنے چہرے پر اس کے شفیق ہاتھ کا لمس محسوس کرنے کے خواب بنتی رہی۔

دونوں اس دن کے انتظار میں، لمحہ لمحہ، تسبیح کے دانوں کی طرح گنتے رہے جب انہیں ضمانت مل جائے گی اور وہ لندن جاکر اسے مل سکیں گے۔ لاکھوں، کروڑوں کا اس سے کوئی رشتہ نہ تھا، لیکن وہ اس کے لئے دعائیں مانگتے، مناجات کرتے، وظیفے پڑھتے اور صدقے دیتے رہے۔ اور کچھ ایسے بھی تھے جن کا بڑا نام تھا۔ بڑا قد کاٹھ تھا۔ جو علم و حکمت کی بڑی بڑی فضیلت ماب ڈگریاں رکھتے تھے۔ ادیب تھے، شاعر تھے۔ قلم کار بھی تھے، قانون دان بھی۔ کہا کرتے تھے کہ ”ریاست ماں کے جیسی ‘‘ ہونی چاہیے۔ لیکن بھول گئے کہ” ماں‘‘ کیا ہوتی ہے۔

ان کے دلوں میں نفرت اور کدورت نے گھونسلے بنا لیے تھے۔ انہوں نے جو کچھ کہا وہ انسانیت کی ابکائی تھی۔ اچھا ہوا اس نے یہ سب کچھ نہیں سنا۔ مشرق کی اجلی اقدار، اپنے دین کی درخشندہ تعلیمات اور سانچے میں ڈھلی سماجی روایات کی امین، عظم خاتون اس آزار سے بچ گئی۔ وہ تو چلی گئی لیکن اپنے سینوں میں بغض، نفرت اور کینہ پالنے والوں کے چہروں پہ تھپی کالک دھونے کے لئے کتنے ”سندھ ساگر ‘‘ چاہیے ہوں گے؟

12 جولائی کو پاکستان روانگی سے قبل، میں مسلسل چھ دن بارلے سٹریٹ ہسپتال جاتا رہا۔ پہروں اس چھوٹے سے کمرے میں موجود رہا، جہاں میاں نواز شریف، مریم، اسمی، حسن اور حسین صبح سے شام تک بیٹھے رہتے تھے۔ ہر روز ڈاکٹر ز کچھ دیر کے لئے آتے اور مریضہ کی حالت میں نہایت ہی سست رفتار بہتری کی خبر دے جاتے۔ ان کا خیال تھا کہ وہ بتدریج ہوش میں آجائیں گی۔ واپسی کی تاریخ طے پا چکی تھی۔ ”مجرموں ‘‘ کو بہت جلدی تھی کہ مریضہ ہوش میں آئے۔ اپنے پیاروں کو اپنے پاس کھڑا دیکھے۔ ان سے وہ باتیں کرے۔ وہ ایک دوسرے کو خداحافظ کریں۔ قید کی سزا پانے والوں کو بندی خانہ جانے کی جلدی تھی۔ اور مریضہ گہری نیند سور ہی تھی۔

جولائی کا وہ دلگداز لمحہ میں کبھی بھول نہیں سکتا! جب مریم نے ایک معصوم سی بچی کی طرح کہا۔ ”ابو۔ امی کو ابھی تک ہوش کیوں نہیں آرہا؟ ہم نے کل چلے جانا ہے ‘‘۔ باپ نے سر اٹھا کر بیٹی کی طرف دیکھا۔ ”بس بیٹی دعا کرو۔ سب کچھ اللہ کے ہاتھ میں ہے ‘‘۔ 12جو لائی کی صبح نہ جانے کس نے ممتا کو خبردی کہ تمہاری گڑیا جارہی ہے۔ ماں نے ہولے ہولے پیوٹوں کے دریچے وا کیے، نیم جاں سی آنکھیں ذرا سی کھولیں بستر کا بازو تھا مے کھڑی بیٹی کو دیکھا۔ ممتا کی شفق لمحہ بھر جھلکی، ماں کی آنکھوں کے گوشوں سے وہ آنسو پھوٹے اور وہیں جم کر رہ گئے۔ یہ ماں کی اپنی گڑیا سے آخری گفتگو تھی۔ مریم کو گڑیا کا نام ماں نے ہی دیا تھا۔ اُ سے یا د آیا
” گڑیا۔ ‘‘! کیا چڑیا جیسا دل ہے تمہارا ‘‘
” کیوں امی۔ ؟ ‘‘

آنسو تو بس تمہاری پلکوں پہ رہتے ہیں۔ ذرا سی بات پر رونے لگتی ہو۔ بہادر بنو۔ نواز شریف کی بیٹی ہو۔
امی۔ اب میں بہت بہادر ہو گئی ہوں۔ میں نے کہا تھا نا کہ میں اپنے باپ کی کمزوری نہیں، طاقت بنوں گی۔
انشاء اللہ کہتے ہوئے ماں نے اسے گلے لگا لیا تھا۔ اس بات کو چھ آٹھ ماہ ہو چلے تھے اور مریم دیکھ رہی تھی کہ آج تو امی کے آنسو بھی نکل آئے ہیں۔

”آنکھیں کھولو کلثوم۔ باؤ جی ‘‘
”آنکھیں کھولو کلثوم۔ باؤ جی ‘‘
امی جان آنکھیں کھولیں۔ دیکھیں کون آیا ہے۔ ‘‘
ابو جان آئے ہیں

بے پناہ محبت کرنے والی ماں اور وفاشعار بیوی نے گڑیا کے لیے آنکھ کھولی نہ باؤ جی کے لیے۔ دونوں آئی سی یو سے نکلے تو میں راہداری میں کھڑا انہیں دیکھ رہا تھا۔ میں اُن کے چہروں پر لکھی کہانی لکھنے سے قاصر ہوں۔ پھرمیں نے فولاد کا دل رکھنے والی بیٹی کو لندن کے بارلے سٹریٹ ہسپتال میں موم کی طرح پگھلتے دیکھا۔ وہ اپنی بہن اسما سے گلے لگ کر روہی تھی۔ دیکھتے دیکھتے وہ چھوٹی سی گڑیا بن گئی تھی۔ بس اتنا بولی۔ ”امی کا بہت خیال رکھنا ‘‘۔

ہسپتال سے ہیتھرو ائرپورٹ جاتے ہوئے میں نواز شریف کے پہلو میں بیٹھا تھا۔ وہ فون پر بیٹوں کو تلقین کرتے رہے۔
وظیفے میں ہرگز کوتاہی نہ کرنا۔ امی کا بہت خیال رکھنا۔ ہوش میں آجائیں تو ہمارا نہ بتانا کہ جیل میں ہیں۔ دونوں بھائی ڈاکٹر عدنان سے مل کر ہسپتال کی ڈیوٹیاں بانٹ لینا۔ طیارے کو اُڑان بھرے گھنٹہ بھر ہو گیا تھا۔ میں اور مریم میاں صاحب کے فرسٹ کلاس ڈبے میں جابیٹھے۔ دل گرفتہ بیٹی نے اپنا سر باپ کے کندھے سے ٹکا دیا۔ باپ نے اپنا ہاتھ اس کے سر پر رکھتے ہو ئے کہا۔ اللہ سے دعا کرو مریم۔ ہمارا ضمیر صاف ہے۔ ہمیں امتحان کی اس گھڑی میں قربانی دینا ہے۔ ہمارا کلثوم سے بھی رشتہ ہے اور اس قوم سے بھی۔ ہم اس قوم سے رشتے کے لیے ذاتی رشتے کی قربانی دے رہے ہیں‘‘

مریم نے سر اٹھایا اور بولی ابو میں جیل سے نہیں ڈرتی ”بس یہ سوچ رہی ہوں کیا ہم اب امی سے کبھی نہیں مل پائیں گے‘‘ پھر وہ مجھ سے مخاطب ہوئی انکل اگر امی کو ہوش آجاتا اور وہ ہمیں اپنے پاس دیکھتی تو پتہ ہے کیا کہتیں؟ کہ تم یہاں کیا کررہے ہو جاؤ اپنے پاکستان لوگ تمہار ا انتظار کر رہے ہیں ‘‘

مزید پڑھنے کے لئے اگلا صفحہ کا بٹن دبائیں


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

صفحات: 1 2