مائیں سانجھی ماؤں کے دکھ بھی سانجھے


باجی یہ خالی کاپی میں لے لوں؟
میں نے پلٹ کر دیکھا سامنے میری ماسی بچوں کا ریک صاف کررہی تھی ۔
اس کے ہاتھ میں سادہ سی کاپی تھی، میں نے مسکراکر کہا لے لو لیکن کیا کرنا ہے ؟
اس نے میری طرف دیکھ کر بولا باجی اپنی بیٹی کو دینا ہے اب میری تارہ لکھنے جوگی ہوگئی ہے اس کو پڑھنا بھی ہے۔
میری ساری توجہ اب اس کی جانب تھی میں نے کہا ابھی تو تمہاری تارہ تین سال کی ہے لیکن تمہارا گڈو تو بڑا ہے اس کو نہیں پڑھانا ۔
وہ بولی باجی اس نے کچھ پڑھ کر بھی مٹی میں رولنا ہے وہی بڑے ہوکر چھابی ریڑھی لگالینی ہے اور سگریٹیں پھونکنی ہے یہ تو ابھی مجھے گالیاں نکالتا ہے۔
میں نے کہا تو تارہ کو پڑھانے سے کیا ہوگا ؟بولی باجی یہ دولفظ پڑھے گی تو میری طرح جھاڑو نہیں مارتی پھرے گی کہیں استانی لگ جائے گی۔ اس کو وڈے شوق ہیں کی پتہ کوئی سرخی پاوڈر والی بن جائے اس کا مطلب تھا کوئی پارلر وغیرہ کرلے ۔
میں نے کہا چلو لے لو کاپی اور لے آیا کرو یہاں بچوں کے ساتھ کھیلے گی پڑھ لے گی ۔
اس نے میری طرف دیکھا اور مضبوط لہجے میں بولی تارہ یہاں کیوں آئے گی۔
وہ تو اسکول جائے گی میری بیٹی کسی کے گھر نہیں جائے گی۔
اس کے حوصلے نے مجھے بہت متاثر کیا شاید مائیں ہوتیں ہی ایسی ہیں۔
اپنی بیٹیوں کو شہزادی سمجھنے والی بیٹوں کو راجہ ماننے والی، دنیا سے لڑجانے والی۔
ایسے ہی وقت گزرتا رہا اس نے اپنی تارہ کو اسکول بھیجنا شروع کردیا تھا ۔
میاں سے بھی مار پیٹ ہوتی رہتی تھی لیکن اس نے ہار نہیں مانی تھی۔
اس کی تارہ اس کی آنکھوں کے سپنے لیے اسکول جانے لگی ۔
کچھ عرصے بعد ایک دن وہ آئی تو اس کے جسم پرنیل پڑے تھے آنکھیں سوجی میں نے کہا کیا ہوا ؟
بولی وہ میری تارہ کا رشتہ کررہے ہیں میں نہیں مانی تو مارا مجھے۔
میرا دل دھک سے رہ گیا یا اللہ میں نے کہا ابھی تو اتنی چھوٹی ہے کیا ہوگیا ہے؟
تو بولی اس کے بدلے اپنی ووہٹی لانی ہےاس بے غیرت کو۔
میں نے گھر نہیں جانا تارہ کو لیکر چلے جانا ہے میری تارہ کو کوئی آنکھ بھی اٹھا کر دیکھے میں اس کو ماردونگی۔
میں نے سمجھایاتھوڑا ہوش سے کام لو آج بلاؤ اس کو ہم بات کرتے ہیں۔
شام کو دوسری ماسی خبر لائی کہ اس کے آدمی اور بیٹے نے اس کو اتنا مارا کہ بے ہوش ہوگئی۔
اب اسپتال والے بولتے ہیں سانس چل رہی ہے پر ہوش نہیں ہے اس کو
کیا پتہ کہ ہوش آئے گا یا نہیں تارہ کو لےکر بھاگ گیا ہے اس کا شوہر اور بیٹا۔
وہ دن آج کا دن اس کی کوئی خبر نہیں آئی کبھی کبھی میں سوچتی ہوں کیا ہوا ہوگا ؟
کیا اس کی تارہ پڑھتی ہوگی؟ کہیں استانی لگ گئی ہوگی کیا اس کی ماں کا جاگتی آنکھوں کا سپنا پورا ہوا ہوگا ؟
یا وہ بھی کہیں ہوس کی ادھوری خواہشوں کا کفن بن گئی ہوگی ؟
پھر سوچتی ہوں چلو اچھا ہوا اس کی ماں ہوش میں نہ آئی جو ہوش میں ہوتی تو کیسے سہتی اپنی تارہ کا غم ۔
پاکستانی سیاست کا ریگستان بھی خارزار کانٹوں سے بھرا ہوا ہے اور یہ کانٹے جب کسی کو چبھتے ہیں تو ایسے نارسا زخم بنتے ہیں جن سے خون رستا ہی رہتا ہے ۔
چاہے وہ بیگم نصرت بھٹو جیسی نستعلیق ماں ہو جو اپنی نوجوان بیٹی کو تن تنہا لیکر اندھیری کوٹھریوں لیکر پھرتی تھی اور زمانے بھر کے طعنے اور ظنر برداشت کرتی تھی ۔
لیکن اپنی بیٹی کو دیکھ کر اپنی کوکھ اجڑنے کا دکھ بھول جاتی تھی۔
اپنی بیوگی کے غم کو اپنی بیٹی کی کامیابیوں میں چھپا لیتی ہوگی۔
لیکن کیا اس کو پتہ ہوگا کہ اس کی مدہوشی کی نیند کتنی اچھی ہے۔
اس کی بیٹی تن تنہا لڑتے لڑتے چلی گئی ایسے ہی تو نہیں تھا اس کا نام بے نظیر ۔
اور ہاں وہ بے نظیر بھی تو ماں تھی اس نے کونسا کم ستم سہے تھے۔
کبھی باپ کی لاش تو کبھی بھائی کی لاش اس کی منتظر تھی ۔
کبھی خود وہ آبلہ پا اپنے معصوم بچوں کے ساتھ کورٹ کچہریاں کرتی پھرتی تھی ۔
کبھی جلا وطنی سہتی کبھی کسی آمر سے لڑتی آنکھوں میں اپنے بیٹے کے سہرے کے سپنے سجائے جاکر چپکے سے سوگئی ۔
کلثوم نواز کے شوہر کو بھی جب غدار کہہ کر جیل یاترا پر بھیجا گیا تو وہ بھی ہانڈی روٹی چھوڑ کر اپنے شوہر کو بچانے نکل پڑی ۔
جب اس کی سب سے لاڈلی بیٹی نے اس سیاست کے خارزاروں میں قدم رکھا تو دل کو دھڑکا تو لگا ہوگا کہ میری نازک پلی بیٹی کے پیروں پر جو آبلے ہونگے ان پر پرمرہم بھی کوئی رکھے گا بھی یا نہیں ؟
لیکن اس مجبور بیمار ماں کی نیند بھی اچھی تھی اس کو بھی پتہ نہیں چلا کہ اس کی بیٹی کب اس کی پائنتی سے اٹھ کر جیل کی کال کوٹھری میں پہنچ گئی جو ہوش میں ہوتی تو کیسا تڑپتی یہ مائیں کیسے کیسے بین ڈالتیں۔
کہاں ڈھونڈتیں پھرتیں تارہ کو ؟بے نظیر کو؟ اور اب مریم کو؟
کہتے ہیں نہ مائیں سب کی سانجھی ہوتیں ہیں۔
وہ ایک جیسے درد لیکر ہی اولاد کو دنیا میں لاتیں ہیں ان کےدردبھی تو سانجھے ہی ہوتے ہیں نا ۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).