پاکستان کی سمت کیٹیگری چار کی شدت سے بڑھتا طوفان


امریکی موسمیات کے ادارے امریکا کے علاقے نارتھ کیرولینا میں ایک دیو ہیکل طوفان کی پیشن گوئی کر چکے ہیں، جو خاصا تباہ کن ہو گا۔ اس طوفان کی خلا سے لی ہوئی تصاویر دیکھیں، جو واقعی خاصی خوف ناک لگیں۔ کہتے ہیں، یا شاید نہ کہتے ہوں اور یہ محض میرے ذہن کی اختراع ہو، کہ گزرتا وقت عفریت کے مانند ہوتا ہے، جو اپنے ساتھ سب کچھ بہا لے جاتا ہے۔ مجھے ایسے طوفانوں اور گزرتے وقت میں بہت مماثلت محسوس ہوتی ہے۔ بس طوفان اپنے ساتھ گھر، گاڑیاں، سڑکیں، بلڈنگ بہا لے جاتے ہیں تو زیادہ سنگین لگتے ہیں، لیکن گزرتے وقت کے ستم کی سنگینی بھی کسی طور کم نہیں ہوتی۔ اس کی زد پر آ کر جذبات، واقعات، لمحات، حقائق، آپ بیتی سب مادہ سے ہوا بن جاتے ہیں یا تاریخ کی کتابوں میں مائع الفاظ کی شکل میں خود سے برتی گئی غفلت پر آہ و فغاں کرتے ہیں؛ کیوں کہ یہ تو تاریخ دان کی مرضی پر منحصر ہوتا ہے، کہ وہ ان ذرات کو کس انداز اور شکل میں ترتیب دے۔

انسانوں کا بہت سارا وقت اس جست جو میں گزرتا ہے، کہ ہمارے اس دنیا میں آنے سے پہلے کیا ہوا تھا اور بہت سارا وقت یہ اندازہ لگانے میں کہ ہمارے جانے کے بعد دنیا میں کیا ہو گا۔ پاکستان میں پیدا ہونے کی وجہ ہمیں یہ تجسس بھی تھا کہ ہمارے پیدا ہونے سے پہلے کیا کیا ہوا؛ چناں چہ بچپن یہ سنتے ہوئے گزرا کہ کیسے پاکستان کی تاریخ کے پہلے ڈکٹیٹر ایوب خان نے پاکستان ہی کے بانی محمد علی جناح کی بہن محترمہ فاطمہ علی جناح کے ساتھ انتخابی اور اخلاقی زیادتیاں کیں۔ کیسے الیکشن میں جعل سازی کر کے ان کو شکست دی گئی اور کیسے وہ اس وقت کے ڈکٹیٹر سے لڑیں۔ تھوڑا آگے بڑھتے ہیں تو بتایا جاتا ہے کیسے دوبارہ 1971 الیکشن میں زور زبردستی کر کے شیخ مجیب الرحمان کو حکومت سازی کے حق سے محروم رکھا گیا اور مشرقی پاکستان میں آپریشن کیا گیا، جس کے نتیجے میں آدھے پاکستان سے بھی ہاتھ دھونا پڑا اور ہتھیار ڈالنے کی وجہ سے جو عالمی ذلت کا بازار لگا وہ الگ۔

کیسے ذوالفقار علی بھٹو نے 90 ہزار قیدیوں اور ایک بڑے رقبے کو شملہ اور دہلی معاہدوں کے تحت بازیاب کرایا اور بعد میں اسی بھٹو کو ایک جھوٹے کیس میں پھنسا کے پھانسی پر لٹکایا گیا اور اس کی بیوی کو سڑکوں پر گھسیٹا گیا۔ بتایا جاتا ہے کیسے ضیا کے اس دور میں پاکستان کو سوویت یونین کی جنگ میں جھونکا گیا اور کیسے ہزاروں لاکھوں افغانی اس کرائے کی جنگ کا ایندھن بنے اور کیسے ان کو استعمال کر کے پھینک دیا گیا۔

پھر معلوم ہوا بے نظیر اور نواز شریف کے ادوار آئے اور کیسے باری باری ان کی حکومت کا تختہ اُلٹا گیا۔ کیسے اے پی ایم ایس او کے طلبا پر جمعیت تھنڈر اسکواڈ والے حملے کرتے تھے اور کیسے حیدرآباد پکا قلعہ میں سیکڑوں مہاجروں کو گولیوں سے ایسے بھونا گیا کہ تقسیم ہند کی یاد تازہ ہو گئی۔ کیسے پھر 1999 میں بالآخر اب تک کا آخری علانیہ مارشل لا لگا اور پاکستان کی دو بڑی سیاسی جماعت کے لیڈروں کو جلا وطن ہونا پڑا۔ کیسے ایم کیو ایم میں سے حقیقی نکالی گئی اور بعد میں مسلم لیگ سے مسلم لیگ (ق)۔ اس وقت تک ہم تھوڑا تھوڑا ہوش سنبھال چکے تھے اور پھر جو ہوا وہ آنکھوں دیکھا احوال۔

روٹی پکانا سیکھی اور اس کے ساتھ جو دیکھا وہ تھا پرویز مشرف کا دور اور 9/11؛ نواب اکبر بگٹی خان کا قتل اور بلوچستان سے اجتماعی قبروں میں ملنے والی تیزاب سے دھلی لاشیں، پاکستان کا خود کش حملوں کے الاؤ میں جلنا، نام نہاد وکلا تحریک، میثاق جمہوریت، بے نظیر اور نواز شریف کی وطن واپسی، سانحہ کارساز اور سانحہ راولپنڈی، کیسے جائے حادثہ کو چند گھنٹوں میں دھو دیا گیا اور کبھی پستول کی گولی، کبھی گاڑی کی چھت کے لیور اور کبھی بیت اللہ محسود کو ذمہ دار ٹھیرایا گیا۔ کیسے پورا سندھ ساکت ہوا، سیکڑوں گاڑیاں جلیں، ہزاروں بینک اور عزتیں لٹیں۔ سب کچھ یاد ہے۔

کچھ کم کچھ زیادہ۔ طویل جدوجہد اور قربانیوں بعد 2008 الیکشن ہوئے اور لگا جمہوری دور شروع ہوا۔ لگا اب پاکستان آگے بڑھے گا لیکن پاکستان کی بدنصیبی یہ رہی کے ایک تو گزرتا ہوا عفریت زدہ وقت سونے پہ سہاگا، آگے کے بجائے واپسی کی سمت میں بڑھتا ہوا۔ پھر وہی کرپشن، وہی میمو گیٹ، 2 مئی 2018 ایبٹ آباد میں ہونے والی عالمی ذلت کا بازار، میریٹ ہوٹل، سری لنکن ٹیم اور دیگر بڑے چھوٹے خود کش جان لیوا حملے اور امریکا کا ڈو مور، سلمان تاثیر قتل، پھر کیسے ہم نے 1992 میں جیتے ورلڈ کپ کو ایک بھیانک خواب میں بدلتا دیکھا، جس کو بعد ازاں ڈنڈے کے زور پر حقیقت بنایا گیا۔

پھر 2013 نواز شریف حکومت، ڈان لیکس، کراچی آپریشن کے آفتاب احمد اور وقاص شاہ، سیاسی کارکنان اور سوشل میڈیا کے متعدد بلاگرز کا اغوا، مہینوں پر محیط ملک کے دار الحکومت کو جام کر دینے والا عمرانی دھرنا اور گالم سری کی چڑھائی، دونوں کا نتیجہ ایک، کھودا پہاڑ نکلے ایک ہزار۔ مذہبی جنونیت کا شکار مشعال خان اور اس کی سیاسی سر پرستی، عاصمہ جہانگیر کا انتقال اور ان کی شان میں نکلے الفاظ، ایم کیو ایم سے نکلی دودھ کی دھلی پی ایس پی، اسلام آباد کی سڑکوں پر ہزاروں سراپا احتجاج پشتونوں کا بلیک آوٹ، راؤ انوار کو دکھایا گیا خصوصی پروٹوکول اور پاناما کیس کے من پسند فیصلے کے ذریعے تین دفعہ کے منتخب وزیر اعظم کو دکھائی گئی اس کی اوقات۔ کلثوم نواز کی بیماری پر کیچڑ زدہ جملے اور پھر انتقال۔ کیسے کمانڈو کمر درد کے بہانے باہر کبھی کلب میں ٹھمکے اور کبھی سمندر میں غوطہ لگاتا رہا اور سویلین لیڈر موت کے دہانے پر پڑی بیوی کو چھوڑ کر بیٹی سمیت پاکستان واپس آیا اور کیسے اس کے ضمانت کے حق کو کچلا گیا۔

فاطمہ جناح سے لے کر کلثوم نواز کے انتقال تک وہ تمام واقعات اور حادثات جو ہمارے پیدا ہونے سے پہلے برپا ہو چکے تھے ان کو ہم نے دوبارہ حقیقت کا روپ لیتے دیکھا، بس نام اور کردار مختلف تھے۔ پاکستان کا عفریت زدہ گزرتا ہوا وقت شاید ایک دائرے ہی میں گھوم رہا ہے اور اپنے ساتھ نجانے کتنی داستانیں لپیٹ کر تاریخ کی کتابوں میں دفن کرتا جا رہا ہے۔ یہ محض چند بڑے نام اور واقعات ہیں، ایسے اور کتنے ہیں جو وقت کی چکی میں پس چکے ہیں۔ پر چوں کہ ان کے نام نامعلوم تو ان کی قربانیاں بھی نامعلوم۔ کراچی سے لے کر خیبر تک لاتعداد لاپتا ہیں، کتنے پابند سلاسل اور نجانے کتنے جلاوطن ہیں؛ صرف سچ کہنے پر یا اس کا ساتھ دینے پر۔ کوئی ماں باپ کی تیمارداری اور آخری دیدار سے محروم، تو کسی نے اپنی اولاد کی شکل آج تک نہیں دیکھی۔ مذہبی اقلیتوں، خواجہ سراوں، غربت اور بنیادی انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں کا علیٰحدہ نوحہ ہے۔

دیکھا جائے تو پاکستان اپنی پیدائش سے لے کر آج تک کیٹیگری 4 والے طوفان سے گزر رہا ہے اور یہی حالات رہے تو یہ کیٹیگری 4 جلد کیٹیگری 5 میں تبدیل ہو جائے گی۔ سمندر کے اندر جتنا الاؤ پک رہا ہے، پاکستان کے خود ساختہ ٹھیکیداروں کو تب اندازہ ہو گا، جب پانی سر کے اوپر سے گزر چکا ہو گا؛ مگر پاکستان کے ماضی اور حالیہ وقت کو دیکھ کر یہ اندازہ لگانا مشکل نہیں کہ یہ ادراک تب بھی نا ہو گا۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).