گل باز اپنے دوست کے بغیر نہیں رہ سکتا


’’اُس دن میں بہت خوش تھی۔ برسوں کی ان تھک محنت اور منتوں مرادوں کے بعد اکلوتے بیٹے کی شادی کا دن آن پہنچا تھا۔ صبح سویرے بارات کی تیاری تھی۔ گھر مہمانوں سے بھرا ہوا تھا۔ میں نے اپنا سب سے شان دار جوڑا پہنا تھا۔گل باز ابھی تک اپنے کمرے سے نہیں نکلا تھا۔ پہلے تو میں نے سوچا کہ تیار ہو رہا ہو گا، مگر اتنی لمبی تیاری میرے دل میں طرح طرح کے وسوسے ڈال رہی تھی۔ پھر جی کڑا کر کے میں نے دروازے پر دستک دی۔ کوئی جواب نہ ملا۔ بار بار دستک دینے پر بھی کوئی آہٹ تک نہ سنائی دی۔ دل دھک دھک کرنے لگا۔ کچھ ہو گیا تھا۔ اور پھر جب دروازہ کھول کر اندر جھانکا تو دل کو اس زور کا دھکا لگا کہ میری چیخ ہی نکل گئی۔ کمرا خالی تھا۔ گل باز گھر سے بھاگ چکا تھا۔

زرا ٹھہریے میں آپ کو شروع سے بتا دوں۔ میرا نام گلونہ ہے۔ میں جوانی ہی میں بیوہ ہو گئی تھی اور میری کل کائنات میرا بیٹا گل باز تھا۔ میں نے اسے ماں کے ساتھ ساتھ باپ بن کر بھی پالا۔ یوں تو گل باز کا باپ بھی کوئی رئیس نہیں تھا محنت مزدوری کر کے دو وقت کی روٹی کماتا تھا لیکن اس کے مرنے کے بعد تنگ دستی اور فاقوں نے ہمارا گھر دیکھ لیا تھا۔ پھر میں نے سلائی کڑھائی کر کے گزر بسر شروع کی۔اسی طرح گل باز جوانی کی دہلیز پہ پہنچ گیا۔

گل باز اب میرا ہاتھ بٹانا چاہتا تھا۔ چناں چہ اس نے چھوٹے موٹے کام شروع کیے۔ بڑا کام یوں نہیں کر سکتا تھا کہ میں نے بڑی مشکلوں سے اسے سرکاری اسکول سے میٹرک کرایا تھا، اس سے زیادہ کی ہمت نہیں تھی۔ اب ایسی تعلیم کے بل پر کوئی اچھی نو کری کیسے مل سکتی تھی۔ مگر اسے تو کوئی چھوٹی نوکری بھی نہیں ملتی تھی۔ ایک دو جگہ کام بنا بھی تو دو تین مہینے سے زیادہ نہ چلا۔ کراچی میں دور پار کے رشتہ دار تھے ۔ انھوں نے ایک بار کہا تھا کہ کراچی میں سب کو کام مل جاتا ہے۔ اسے کراچی بھیج دیں اب ان کی پیش کش اندھیرے میں چراغ لگ رہی تھی۔

دل تو نہیں چاہتا تھا کہ اپنے لخت جگر کو خود سے دور کروں مگر بھوک نے جان پر بنا دی تھی چار و نا چار یہ مشکل فیصلہ کیا اور گل باز کوپشاور سے کراچی بھیج دیا۔ دو تین مہینے تو خالی گزرے پھر گل باز کا منی آرڈر ملا اس کے ساتھ گل باز کا خط تھا۔ وہ کراچی میں بہت خوش تھا اسے کام مل گیا تھا۔ تین چار سال ہی میں گھر کے حالات بدل گئے۔ گل باز با قاعدگی سے پیسے بھیجتا تھا اور اب تو وہ پیسے میری ضرورت سے بھی زیادہ ہوتے تھے۔ چناں چہ جمع ہونے لگے۔ لیکن بیٹےسے جدائی کا قلق بھی بہت ہوتا تھا۔

گل باز سال میں صرف ایک بار گھر آتا تھا۔ میں نے کئی بار گل باز سے کہا کہ وہ اب واپس آ جائے اور اپنے شہر میں کوئی کاروبار کرے۔ آخر میرے آنسو کام آئے اور وہ واپس آ گیا۔ اس نے جو پیسے اکھٹے کیے تھے، ان سے شہر میں ایک چھوٹا سا جنرل اسٹور کھول لیا۔

اب مجھے اس کی شادی کی فکر ستانے لگی۔ میں نے کئی بار گل باز سے اس موضوع پر بات کرنے کی کوشش کی مگر نہ جانے کیوں وہ شادی کے ذکر سے ہی بدک جاتا تھا۔ رشتے کرانے والی عورت نے کئی لڑکیوں کی تصویریں دکھائیں لیکن وہ انھیں آنکھ اٹھا کر بھی نہیں دیکھتا تھا۔ میرے لیے یہ بات بڑے اچمبے کی تھی۔ میں نے یہ بھی محسوس کیا کہ گل باز بڑا اداس رہتا تھا۔ مجھے دکھانے کے لیے ہنستا بھی تھا، لیکن صاف پتا چلتا تھا کہ اس کی ہنسی مصنوعی ہوتی تھی۔

میری پریشانی بڑھتی جا رہی تھی۔ ایک دو پڑوسنوں سے مشورہ کیا تو انھوں نے کہا کہ جد از جلد لڑکے کی شادی کرا دو۔چناں چہ میں نے پڑوس ہی کی ایک لڑکی پسند کر لی۔ اور خود ہی یہ رشتہ پکا کر لیا۔ جب گل باز کو بتایا تو خلاف توقع وہ بھڑک اٹھا۔ وہ بار بار کہہ رہا تھا، ماں تم نے مجھ سے پوچھے بغیر یہ رشتہ کیوں کیا۔ پھر میرے بہتے آنسووں نے اس کے غصے کی آگ کو بجھا دیا اور وہ شادی کرنے پر راضی ہو گیا، مگر یہ کیا کیا اس نے۔ عین بارات والے دن گھر سے بھاگ گیا۔ اسے میری عزت کا زرا خیال نہ آیا۔ پھر اس کے کمرے سے ایک خط ملا۔ اس نے لکھا تھا۔ “ماں مجھے معاف کر دینا۔ میں ایک لڑکی سے محبت کرتا ہوں۔ میں اس سے شادی کرنے کراچی جا رہا ہوں اب تمھاری بہو کو لے کر ہی گھر آوں گا۔”

میں نے اللہ کا لاکھ لاکھ شکر ادا کیا کہ میرا بیٹا زندہ ہے اور اس نے کوئی ایسی ویسی حرکت نہیں کی۔ ایک مہینے بعد وہ گھر آ گیا۔ مگر اکیلا نہیں آیا تھا۔ اس کے ساتھ ایک لڑکی تھی جس نے شادی کا بڑا بھاری جوڑا پہنا ہوا تھا۔ مجھے حیرت بھی ہوئی اور بہت خوشی بھی تھی۔ اپنے ارمان بھی پورے نہ کر سکی مگر بیٹے کی خوشی میں خوش تھی۔ میں اس شادی کی خوشی میں ایک بڑا فنکشن کرنا چاہتی تھی لیکن گل باز نے سختی سے منع کر دیا۔

عجیب بات تھی گل باز جب سے شادی کر کے آیا تھا زیادہ تر وقت اپنی بیوی کے پاس ہی گزارتا تھا اور جب تھوڑی دیر کے لیے اسٹور پر جاتا تھا، اس وقت بھی اس کی بیوی اپنے کمرے ہی میں بند رہتی تھی۔ میری اس سے ڈھیروں باتیں کرنے کی خواہش دل ہی میں دبی رہتی تھی؛ کیوں کہ جب کبھی اس سے بات کرنے کا موقع ملتا تھا تو وہ ہوں ہاں سے زیادہ بات نہیں کرتی تھی۔

گل باز نے اب اسٹور پر ایک لڑکا ملازم رکھ لیا تھا اور خود گھر پر رہتا تھا، یا اپنی بیوی کو سیر کرانے باہر لے جاتا تھا۔ ایک اور تبدیلی اس میں آئی تھی اور وہ یہ کہ اب محلے کا کوئی آدمی یا عورت گھر آتی، تو اسے بہت برا لگتا تھا۔ وہ انھیں جلدی جلدی گھر سے بھگانے کی کوشش کرتا تھا۔ میں نے ایک بار اسے کہا کہ کوئی خوش خبری کب سناو گے تو بھڑک اٹھا۔ وہ بہت عجیب ہو گیا تھا۔

ایک دن وہ لڑکی گھر آئی جسے میں نے بہو بنانے کا سوچا تھا۔ میں تو اسے دیکھ کر شرمندہ سی ہو گئی۔ اس نے کہا۔ “خالہ کہاں ہے تمھاری بہو؟ اسے مجھ سے نہیں ملواو گی”؟ وہ اپنے کمرے میں ہے۔ میں نے دھیرے سے کہا۔ ” اچھا میں اس سے وہیں مل لیتی ہوں۔” اس سے پہلے کہ میں اسے روکتی وہ آگے بڑھ چکی تھی۔ “ٹھہرو وہ شائد نہا رہی ہے۔” میں نے آواز دی۔ لیکن وہ تو اس کے کمرے میں داخل ہو چکی تھی۔ پھر ایک چیخ کی آواز آئی۔ یا اللہ خیر۔ میرا دل کانپ گیا۔

فوراً ہی وہ لڑکی باہر آ گئی۔ تو یہ ہے تمھاری بہو۔ اس نے بڑے طنزیہ انداز میں مجھ سے کہا۔ “میں بھی سوچتی رہتی تھی کہ آخر مجھ میں کیا کمی تھی جو تمھارا بیٹا مجھے چھوڑ کر بھاگ گیا لیکن آج سب سمجھ میں آ گیا، تمھارے بیٹے کو لڑکی کی نہیں ایک ہیجڑے کی ضرورت تھی۔” اس کے نفرت بھرے الفاظ پگھلے ہوئے سیسے کی طرح میرے کانوں میں پڑے۔

اسی اثنا میں میری بہو بھی باہر آ چکی تھی یا پھر آ چکا تھا۔ اب میں سجھ سکتی تھی کہ میری بہو کے روپ میں وہ ہر وقت بڑے بڑے دُپٹے کیوں لپیٹے رکھتی تھی مگر اب راز کھل چکا تھا، اس لیے بے باکی سے سامنے کھڑا تھا۔ میری کنپٹیوں میں جیسے ہتھوڑی کی ضربیں لگ رہی تھیں۔ یہی وہ وقت تھا جب گل باز گھر میں داخل ہوا۔ کوئی کچھ نہیں بولا۔ بس میں نے آگے بڑھ کر ایک زور دار تھپڑ گل باز کے منہ پر مارا اور اس کی آنکھوں میں ایک رنگ آ کر گزر گیا۔

پھر اس نے ہیجڑے کا ہاتھ پکڑا اور گھر سے نکل گیا۔ اس دن کے بعد میں نے گل باز کو کبھی نہیں دیکھا۔ سات برس ہو گئے ہیں۔ کہاں کہاں نہیں ڈھونڈا۔ اس کا کوئی سراغ نہیں ملا۔ کاش میں نے اس دن اسے تھپڑ نہ مارا ہوتا۔ میرے پاس اس کی آخری نشانی یہ کاغذ کا ٹکڑا ہے‘‘۔

مجھے اپنی کہانی سنانے والی بوڑھی عورت نے ایک بوسیدہ سا کاغذ میری طرف بڑھایا اور سسکنے لگی۔ میں نے کاغذ کی تہیں کھولیں وہ ایک مختصر سا خط تھا۔ جس میں گل باز نے لکھا تھا۔ “ماں میں اپنے دوست کو ساتھ لے کر جا رہا ہوں۔ مجھے تلاش کرنے کی کوشش نہ کرنا۔ میں اب واپس نہیں آوں گا۔ کیوں کہ تم میرے دوست کو کبھی قبول نہیں کرو گی اور میں اپنے دوست کے بغیر نہیں رہ سکتا۔”میں نے ان جانے میں اپنے معاشرے کی وہ تصویر دیکھ لی تھی، جو میں دیکھنا نہیں چاہتا تھا؛ لہذا منہ پھیر کر وہاں سے چلا آیا۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).