ہیلی کاپٹر، بھینسیں اور گورنر ہاؤس


پی ٹی آئی اور وزیراعظم عمران خان کے بڑے بڑے دعوے تو زمانہ ہوا دھرے کے دھرے رہ گئے۔ ہیلی کاپٹر کا 55 روپے فی کلومیٹر کا سفر، پروٹوکول نہ لینے کا ڈرامہ اور سادگی کے چلے ہوئے بم سے کچھ حقیقتیں تو اپنے آپ ہی آشکار ہوگئیں۔

مگر اب اعلانات، بیانات اور عذر و حیلوں سے کام نہیں چل سکتا اب تو آپ ہی حکومت ہیں اور معاف کیجیے گیا جیسی بھی سہی جمہوریہ کی ہی حکومت ہیں۔ نہ باز پُرس سے جان بچا سکتے ہیں نہ جوابدہی سے بالخصوص تب جبکہ پہلے مشہورِ زمانہ اور فی الحال بدنامِ زمانہ آپ کے اعلان کردہ ’سو دنوں‘ میں سے ایک ماہ گزر گیا اور اب تک کوئی خاطر خواہ پالیسی کا اعلان کیا گیا ہے نہ ہی کوئی ایسے قابلِ ذکر اقدامات کیے گئے ہیں جن سے فوری طور پر عوام کو کسی قسم کی راحت میسر آئے البتہ سرکاری گھونسلوں سے پرندوں کی خوشگوار خوش الحان چہچہاہٹوں کے بجائے سانپوں کی پھنکاریں سُنائی دینے لگی ہیں۔

وزیراعظم ہاؤس میں کھڑی بقول حکومت پُرتعیش گاڑیوں، ہیلی کاپٹروں کی نیلامی کی حقیتیں ہی کیا کم مضحکہ خیز تھیں کہ گورنر ہاؤس، پی ایم ہاؤس کو ختم کرنے سے عوامی مقامات میں تبدیل کرنے کی فضول ٹرک کی نئی بتی جلانے کی کوشش کی جارہی ہے۔

بالخصوص جناب وزیر اطلاعات فواد چوہدری صاحب اور تقریباً ہرتحریکِ انصاف کے رہنما سے ذرا بازپُرس کی جائے، حکمت عملی کے بابت سوال کیا جائے، معاشی اور اقتصادی منصوبہ بندی، خارجی و داخلی معاملات کی تفصیلات، عوامی بھلائی و غُربت کے انحطاط بلکہ کسی بھی امر میں میڈیا لب کُشائی کی جرات کرتا نہیں کہ وہ تمام تر وقت اس بحث میں صرف کر دیتے ہیں کہ ان سے ایسے بال کی کھال اتارتے ہوئے پوچھ گچھ کی جارہی ہے جیسے انہیں حکومت کرتے ہوئے ایک ماہ نہیں بلکہ ایک دہائی گزر گئی ہے اور ان سب میں میں ساری بات وہیں کی وہیں رہ جاتی ہے۔ سوال کوئی بھی ہو جواب اسی ایک چورنگی کے گرد گھومتا رہتا ہے۔

سوال ٹالے تو جا سکتے ہیں مگر ان پہ قدغن تو نہیں لگائی جا سکتی نہ؟ قبلہ کم فہموں کو کوئی تو سمجھائے کہ امریکا کے ستر کی دہائی میں تحفتاً ملے ہوئے ایسے ہیلی کاپٹر جو چلتے نہیں اور جن کے پُرزے تک دستیاب نہیں، ان کے بکنے کے کیا امکانات تھے، وہ آٹھ بھینسیں ایسی کون سی گراں تھیں؟ 13 کروڑ کی گاڑیوں کی نیلامی کے لیے کروڑوں کے اشتہار کیوں دیے گئے جبکہ ان میں سے اکثر گاڑیوں تو اّسی و نوّے کی دہائی کی باقیات نکل آئیں، وہ قیمتی گاڑیاں کہاں گئیں؟ گورنر ہاوس کومیوزیم بنا دینے سے عوام کی کون سی فلاح کا ارادہ ہے؟ گورنر ہاوس کو کمال چالاکی سے دن میں صبح دو گھنٹے کھولنے سے کون سے عوام کی تفریح کا سامان مہیا کیا جا رہا ہے یا ان سے کون سا قومی خزانہ اُبل پڑے گا؟

اچھا جناب یہ ہی بتا دیں کہ یہ جو پرائم منسٹر ہاوس کو اعلیٰ تعلیمی درسگاہ میں تبدیل کرنے کا نیک خیال کُلبُلا رہا ہے تو اسقدر قرضوں میں ڈوبی ہوئی قوم کی بالخصوص 20 لاکھ کی آبادی کے شہر میں جو پہلے سے موجود کم و بیش 20 سے 25 اعلیٰ تعلیمی درسگاہیں فنڈذ کے نہ ہونے سے، بہتر انتظابی قابلیت اور سہولیات کی عدم دستیابی سے کسمپرسی کا شکار ہیں ان کے لیے کیا تمام تر اقدامات لیے جا چکے ہیں؟ ذرا بتایا جائے اس ملک میں پرائمری تعلیمی درسگاہوں، سرکاری اسپتالوں، عوامی بنیادی سہولیات کے منصوبوں کو یکسر فراموش کرکے کون سے ایسے منصوبوں کی داغ بیل ڈالی جارہی ہے جو اس ملک و قوم کی ترقی میں سنگِ میل کی حیثیت اختیار کرلیں گے؟

اچھا پھر یہ بتادیں کہ پرائم منسٹر ہاوس اور گورنر ہاوسز کی ان تبدیلیوں کے پیچھے جو منہ پھاڑے ہوئے اخراجات کا جن کھڑا ہے اس کو کیا نہایت ہی تیزی سے خالی ہوتا ہوا خزانہ، گرتی ہوئی معیشت، ڈالر کے مقابلے میں ہر روز گرتی ہوئی روپے کی قدر، مہنگائی میں اضافہ اوربقول آپ کے خود کے رہنماؤں کے دن رات ٹی وی پروگراموں میں اس گردان کے کہ کوئی ادارہ نہیں چھوڑا، نہیں دِکھ رہا؟

یہ تو گن گن کے بتا دیتے ہیں پنجاب حکومت نے اتنے اڑائے، وفاق نے اس قدر اسراف کیا مگر اپنے ہاں اور اتحادیوں کے ہاں سب اچھا اچھا ہے۔ بسا اوقات تومنی وزیراعظم فواد چوہدری سے پوچھنے پہ بھی صحافیوں کو یہ جواب ملتا ہے کہ ابھی ان کے پاس کے پی اور بلوچستان کی تفصیلات نہیں۔ سندھ سے معاشقہ البتہ اب تک پردے میں ہی چل رہا ہے۔

ایک کے بعد ایک وزیر، ایک مشیر کا پریس کانفرنس کا سلسلہ جاری ہے مگر کوئی خاطر خواہ حکمتِ عملی، کسی پالیسی کا کہیں کوئی اشارہ نہیں بس وہی ایک ’پچھلی حکومت نے یہ کیا، پنجاب حکومت نے وہ کیا‘۔ تحریکِ انصاف آخر کب الزام تراشی اور مخالف دشمنی کا حزبِ اختلاف کا چوغہ اتار کر حکومت کی ذمہ داری اور جوابدہی کا لباس پہنے گی؟

عوامی سہولت کے اربوں کے چلتے ہوئے میگا پراجیکٹس بند کرنے کے بودے جواز ہوں یا پہلے سے موجودہ ایسی سینکڑوں سہولیات جیسے صحت کارڈ، صحت ٹول فری نمبر، ریلوے کی آن لائن سروسز اور ایپلی کیشن وغیرہ جو گذشتہ حکومتوں کے ادوار میں شروع ہوئے اور تا حال فعال ہیں، اس کے باوجود ان کے ازسرِ نوشروع کرنے کے اعلانات سراسر مضحکہ خیز ہیں اور اس امر کے غماذ ہیں کہ یاتو آنے والے بالکل ہی کورے اور بغیر تیاری کے آئے ہیں یا جان بوجھ کر انجان بن کر عوام کو انہی غلام گردشوں میں خوار رکھنا چاہتے ہیں۔

اس ملک کی ستر فیصد آبادی نوجوانوں پہ مشتمل ہے جس کے ارادے، آگے بڑھنے کی لگن، مواقع کی آرزو، خوشحالی اور ترقی کی تمناؤں نے تحریکِ انصاف کو ایک موقع دینے کی راہ ہموار کی۔ یہ ٹالم ٹولیاں، حقیقتوں کا ادراک نہ ہونا یا یہ مجرمانہ چشم پوشی، اپنی عدم کارکردگی کی اصلاح کے بجائے نکتہ چینوں پہ قدغن لگانا اورفوری طور پر معاشی اور حکومتی اداروں کی بحالی پہ مبنی عوام دوست حکمت عملیوں کے لیے اعلانات کا نہ کیا جانا سراسر اپنے پیر پہ لاٹھی مارنے کے مترادف ہوگا۔

اگر ڈیڑھ کروڑ آپ کو ایوان کی زینت بنا سکتے ہیں تو مت بھولئے باقی کے ساڑھے اٹھارہ کروڑ میں سے ایک چوتھائی نے بھی آپ کا ٹھکرا دیا تو اگلا موقع اگلا جنم لینے سے کم جوئے شیر نہ ہوگا۔ یقین جانیے سیاسی مخالفین کم اور عوام زیادہ حکومت اور حکومت کے اقدامات پر چیل کوے کی طرح نظریں گاڑے بیٹھیے ہیں جہاں ڈگمگائے وہیں ایک نہیں سینکڑوں چونچیں ٹہوکا ہی نہیں ماریں گی بلکہ بوٹی نوچ لیں گی۔ ان کے اسقدر حوصلے بڑھانے میں بھی انصافی آئین اسٹانی فرمودات کارفرما ہیں۔ اب کی بار شاید تاریخ خود کو نہ دہرا سکے۔ اب کی بار شاید دھول جھونکنے سے کام نہ چل سکے کیونکہ آپ کے نعرے کے عین مطابق اب لگتا ہے تبدیلی آ نہیں رہی آ گئی ہے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).