سکھ دوشیزہ، ٹیوشن والے ماسٹر جی اور عشق کا سبق


چند برس ہوئے نئی دہلی کے سکھ انجنئیر کی لڑکی کو ایک ماسٹر جی گھر پر پڑھاتے تھے۔ ماسٹر جی لڑکی کو ایک الگ کمرے میں سبق دیتے، تاکہ لڑکی کی تعلیم میں کوئی مخل نہ ہو۔ ماسٹر جی جوان تھے، اور لڑکی بہت خوبصورت تھی۔ ماسٹر جی کی اس ٹیوشن کے ساتھ ساتھ عشق کے دیوتا نے بھی اپنا سبق دنیا شروع کر دیا۔ دونوں کے درمیان زندگی ہمیشہ مل کر گزارنے کا عہد ہوا۔ ایک روز صبح لڑکی اپنی ایک سہیلی سے ملنے کے بہانہ گھر سے روانہ ہوئی، اور پروگرام کے مطابق ماسٹر صاحب کے پاس پہنچی۔ دونوں تھانہ حوض قاضی میں پہنچے۔ وہاں لڑکی نے تھانہ میں رپورٹ لکھوائی، کہ وہ بالغ ہے، اور اپنی مرضی سے گھر سے آئی اغوا کر کے نہیں لایا۔

اس رپوٹ کے بعد دونوں ٹرین میں سوار ہوئے، اور میرٹھ پہنچے۔ وہاں ایک معمولی ہوٹل میں دونوں نے قیام کیا، اور اگلے روز رات کے نو بجے والے شو میں سینما دیکھنے گئے، کیوں آج کل ہنی مون کے سلسلہ میں سینما بھی ایک لازمی پروگرام ہوتا ہے۔ ادھر جب لڑکی شام تک واپس نہ آئی، تو لڑکی کی ماں، یعنی انجینئر صاحب کی بیوی نے اپنا ملازم لڑکی کی سہیلی کے گھر بھیجا، تو معلوم ہوا، کہ لڑکی وہاں نہیں گئی۔ ماں نے جب یہ سنا، تو اس کے ہوش اڑ گئے۔ انجینئر صاحب نے کو پتہ چلا، تو وہ پریشان ہوا۔

آخر انجینئر صاحب نے اپنے راز دار ٹھیکہ داروں کو بلوایا، اور تمام حالات بیان کیے۔ ٹھیکہ دار اپنی اپنی موٹروں پر لڑکی کی تلاش میں بھاگے۔ کوئی آگرہ گیا، اور کوئی انبالہ، کوئی علی گڑھ کوئی میرٹھ۔ ان تمام شہروں کی سراہیں، دھرم شالائیں اور ہوٹل چھان مارے گئے۔ اخر ایک ٹھیکہ دار کو میرٹھ کے اس ہوٹل کے مینجر سے پتہ چلا، کہ ایک جوڑا وہاں مقیم ہے، اور وہ جوڑا کھانا کھانے کے بعد سینما گیا ہے۔ ٹھیکہ دار صاحب سنیماؤں میں تلاش کرنے لگے، تو ایک سینما میں لڑکی ماسٹر کے ساتھ فلم دیکھ رہی تھی۔ دونوں کو کار میں لایا گیا۔ لڑکی نے اپنے گھر جانے سے انکار کر دیا۔ مگر اس سے یہ وعدہ کیا گیا اس کے والدین کو مجبور کر کے اس کی شادی ماسٹر سے کرا دی جائے گی۔

لڑکی گھر پہنچی۔ وہاں کہرام کا منظر تھا، اور دو روز سے چولہے میں آگ بھی نہ جلائی گئی تھی۔ اب مسئلہ یہ درپیش تھا، کہ ماسٹر پر اغوا کا مقدمہ قائم کیا جائے، یا نہیں۔ دوستوں نے انجینئر صاحب کو مشورہ دیا، کہ مقدمہ کی صورت میں لڑکی کی شہادت ہو گی۔ اخبارات میں مقدمہ کی کارروائی چھپے گی، اور مزید مٹی پلید ہو گی۔ اس کا خیال سے ماسٹر پر مقدمہ کرنے کا خیال چھوڑ دیا گیا۔ لڑکی نے جب اپنی ماں کو زار زار روتے دیکھا، اور اپنے گھر کے دوسرے لوگوں اور باب کو بد حال پایا، تو اس کی عشق بازی کی جذبات پر اوس پر گئی۔ ماسٹر کے خلاف ہر بیان دینے پر تھی، مگر اس کی ضرورت ہی نہ رہی، کیونکہ ماسٹر پر مقد مہ چلانے کا خیال چھوڑ دیا گیا تھا۔

اس کے بعد انجینئر صاحب کے سامنے لڑکی کی شادی کا سوال تھا۔ بڑے گھروں کی اگر لڑکی کی بدنامی ہو جائے، تو کسی بڑے گھر کا لڑکا اس سے شادی کرنے پر تیار نہیں ہو سکتا۔ انجینئر صاحب بہت مالدار اور ایک بڑے خاندان سے تعلق رکھنے کے علاوہ اعلیٰ عہدہ پر سرکاری ملازم تھے، کسی معمولی شخص سے رشتہ کیسے کرتے۔ آخر تلاش کے بعد ضلع فیروزپور کے ایک سکھ وکیل مل گئے، جو کچھ تو آزاد خیال تھے، اور کچھ لالچی۔ یہ پچاس ہزار روپیہ نقد معاوضہ لے کر شادی کرنے پر تیار ہو گئے، اور شادی ہو گئی۔

راقم الحروف نے لڑکی کو دیکھا ہے، اور اس کے شوہر سے بھی دوستانہ تعلقات تھے، بلکہ اس شادی کے طے کرانے میں بھی راقم الحروف نے کوشش کی تھی۔ اس سلسلہ کا یہ واقعہ دلچسپ ہے، شادی کے بعد لڑکی بہت ہی نیک اور شریف ثابت ہوئی، کیونکہ وہ فطرتاً نیک تھی، اور وہ صرف زمانہ شباب کی کمزوری کا شکار ہوئی، شادی کے بعد وہ کسی غریز مرد کے سامنے نہ آتی، اور نہ کسی سے بات کرتی۔

میرا یقین ہے، کہ گھر سے چلے جانے کے بعد اگر وہ اپنے والدین کے زیر اثر ہو کر اپنی غلطی کا دل سے اعتراف نہ کرتی، چند روز بھی ماسٹر کے زیر اثر رہتی، تو اس کی زندگی بالکل تباہ ہو جاتی، اور نہ معلوم آج اس کی حالت ہوتی کیونکہ ماسٹر کی ماہوار آمدنی چالیس پچاس روپیہ ماہوار سے زیادہ نہ تھی۔ جہاں زیادہ دولت کا ایک جگہ جمع ہونا فتنہ پردازی کا باعث ہو ا کرتا ہے، وہاں افلاس بھی انسان کو گناہوں کی طرف لے جاتا ہے۔

ہندی کے مشہور شاعر تلسی نے رامائن میں لکھا ہے:۔
پشو، شودر اور ناری، تینوں تاڑن کے ادھ کاری

یعنی چوپائے، ادنیٰ درجہ کے شودر مثلاً بھنگی اور چمار وغیرہ اور ناری یعنی عورت تینوں کو ڈانٹ ڈپٹ ہی سیدھے راستہ پر رکھ سکتی ہے۔ مگر میں تلسی کے اس قول سے متفق نہیں ہوں، اور میری ایمانداری سے یہ رائے ہے، کہ عورت ایثار اور قربانی کے اعتبار سے مرد کے مقابلہ میں بہت ہی بلند اور قابل پر ستش ہے۔ ہاں عورت میں ایک کمزوری ضرور ہے۔ وہ کسی صورت میں بھی انڈی پنڈنٹ نہیں رہ سکتی۔ وہ فطریاً زیر اثر رہنا پسند کرتی ہے۔ چاہے بطور بیٹی کے ماں باپ کے زیر اثر ہو، شباب میں اپنے شوہر کے زیر اثر یا بڑھاپے میں اپنی اولاد کے زیر اثر۔ اور یہ جس کے بھی زیر اثر ہو، اس کی رائے پر عمل کرتی ہے۔

کتاب سیف و قلم سے اقتباس۔

دیوان سنگھ مفتوں

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

دیوان سنگھ مفتوں

سردار دیوان سنگھ مفتوں، ایڈیٹر ہفتہ وار ”ریاست“ دہلی۔ کسی زمانے میں راجاؤں، مہاراجوں اور نوابوں کا دشمن، ان کے راز فاش کرنے والا مداری، صحافت میں ایک نئے خام مگر بہت زور دار انداز تحریر کا مالک، دوستوں کا دوست بلکہ خادم اور دشمنوں کا ظالم ترین دشمن۔ سعادت حسن منٹو کے الفاظ۔

dewan-singh-maftoon has 26 posts and counting.See all posts by dewan-singh-maftoon