قصہ بشریٰ بی بی کی تضحیک کا !


آج کل سوشل میڈیا پر خبرناک کے ایک پروگرام سے متعلق بحث چھڑی ہوئی ہے جس میں غلاظت کے پیکر فیس بکی فاشسٹ ہمیشہ کی طرح سوچے سمجھے بغیر تنقید بھی کر رہے ہیں اور اپنے ذہنی لنگڑے پن کا کماحقہ اظہار بھی لیکن جہاں یہ سب ہو رہا ہے وہاں انہیں گروپس اور صفحات پر میڈیا کی آ زادی، لباس کے چناؤ، تضحیک اور مزاح میں فرق، کامیڈی شوز کے اثرات اور پیش کیا جانے والا مواد بھی زیر بحث ہے۔

سارا جھگڑا ہے ایک تصویر کا جس میں ڈمی عمران خان اور ان کی بیوی بشریٰ بی بی بیٹھے ہوئے ہیں اور بشریٰ بی بی نے برقعہ پہن رکھا ہے۔ یہ وہی برقعہ ہے جو انہوں نے اپنے نکاح والے دن پہنا تھا۔ ماحول بھی نکاح والا ہی دکھائی دیتا ہے۔ خود کو تحریک انصاف کے ٹائیگرز کہنے والے سوشل میڈیائی گدھ بازو تولے اور پنجے نکالے پروگرام پر پل پڑے ہیں۔ پروگرام ہوسٹ کی تصاویر کو بگاڑ کر پیش کیا جا رہا ہے اور بہت طوفان بدتمیزی بپا ہے۔ علی کے چشتی نے کل مجھ سے کہا کہ میں بحیثیت پروڈیوسر خبرناک اس کی وضاحت کروں کہ بشریٰ بی بی کی تضحیک کیوں کی گئی۔

میں نے جو وضاحت کی اسے علی کے چشتی صاحب نے شکریہ کے ساتھ قبول کر لیا۔ اس کالم کا مقصد بھی بدتہذیبی کے سامنے بند باندھنا نہیں، بلکہ کچھ حقائق کو واضح کرنا ہے۔ بد تہذیبی ضرور قائم رہنی چاہیے کیونکہ بے ہودگی اپنے خالق کے لیے بھی بانہیں پسارے بیٹھی ہے۔ خیر بات ہو رہی تھی خبرناک کے ایک پروگرام پر تبرے بھیجنے کی۔

یاد رکھیے جب ہم واقعات کو ان کے پس منظر سے علیحدہ کر کے دیکھتے ہیں تو وہ بہت مضحکہ خیز دکھائی دیتے ہیں اور نہ صرف مضحکہ خیز بلکہ بھٹکانے اور بہکانے والے بھی۔ اس پروگرام کے ساتھ بھی یہی ہوا یعنی اسے سیاق وسباق اور سیاسی تناظر سے ہٹ کر دیکھا گیا جس نے ” الزامیوں اور انتقامیوں ” کی رہی سہی عقل پر بھی تالا ڈال دیا۔

پورے پروگرام میں دور دور تک نہ تو پردہ کا کوئی ذکر ہے اور نہ بشریٰ بی بی کا۔ البتہ برقعہ ناظرین کو ڈرامائی جھٹکا دینے کے لیے استعمال کیا گیا تھا۔ یہ پورا آئیڈیا ہماری پروڈکشن ٹیم کا تھا اور میں خود اس میں پیش پیش تھا۔ کسی کامیڈین، کردار، فنکار اور میزبان کا اس میں کوئی عمل دخل نہیں تھا۔ مین سٹریم میڈیا میں کوئی ایک شخص سب کچھ نہیں کر رہا ہوتا۔ دسیوں لوگ مل کر ایک پروگرام ترتیب دیتے ہیں اور عموماً میزبان کا مواد یا بنیادی خیال کی پلاننگ میں کردار نہیں ہوتا۔ کم از کم خبرناک میں ایسا ہی ہوتا ہے لیکن جہالت کا کوئی ٹھکانہ نہیں ہے.

خبرناک کا یہ پروگرام فروری میں اس وقت پیش کیا گیا جب بشریٰ بی بی پر الزام تھا کہ انہوں نے عدت پوری کیے بغیر خان صاحب سے شادی کر لی ہے اور ادھر خان صاحب نے شادی کی بات کو عدت والا معاملہ کھل جانے کے خوف سے دبایا ہوا تھا۔ بشریٰ بی بی کے علم کے مطابق شادی کا کچھ خاص تاریخوں میں ہو جانا ضروری تھا لہذا خان صاحب وہ سب کچھ کر رہے تھے جس سے روحانی ضرورتیں تو پوری ہو رہی تھیں لیکن سماجی سطح پر لے دے ہونا ٹھہر گیا تھا۔

عمر چیمہ اپنی پکی خبر دے چکے تھے اور مفتی سعید سمیت چند لوگوں کا فرح خان کے گھر شادی کی تقریب میں نظر آنا عمر چیمہ کی خبر کی تصدیق کر رہا تھا۔ اس سے پہلے تحریک انصاف ایک وضاحت جاری کر چکی تھی کہ خان صاحب شادی کا ارادہ رکھتے تھے اور پیغام بھجوایا ہوا ہے لیکن شادی ہوئی نہیں ہے لیکن جب شادی منظر عام پر آئی تو دھماچوکڑی مچ گئی۔

پی ٹی آئی کے مذہبی رحجان رکھنے والے لوگ شدید ناراض تھے اور سیاسی مزاج رکھنے والے عدم تحفظ کا شکار تھے۔ سوشل میڈیائی مجاہد بی بی کی ساتھ شادی کو ذاتی معاملہ قرار دینے کے لیے دلیلیں گھڑ رہے تھے اور مخالفین اسے شرمناک قرار دے رہے تھے۔

یہ تھا وہ پس منظر جس میں خبر ناک کا یہ پروگرام پیش کیا گیا۔ خان صاحب کی ڈمی ( کردار) سے وہی سوال پوچھے گئے جو عوام کے دلوں میں کھلبلی مچا رہے تھے۔ ہونا تو یہ چاہیے تھا کہ ہم برقعہ پوش کردار (جسے آ خری وقت تک بشریٰ بی بی سمجھا جا رہا تھا) سے بھی کچھ پوچھتے اور ان کے جواب کو مزاحیہ انداز میں پیش کرتے کیوں کہ کامیڈی کے لیے متنازع کردار بہت جاندار ہوتے ہیں اور ہماری کوشش ہوتی ہے کہ ایسے کردار جلد ادا کروائے جائیں لیکن معاملہ کیونکہ ایک ایسی خاتون کا تھا جو پردہ دار بھی ہیں اور مزاجاً صوفی منش بھی لہذا ہم نے ناظرین کو ایک بہت بڑا دھوکا دیا اور بشریٰ بی بی کے کردار کو سرے سے پکڑا ہی نہیں۔

در اصل وہ کردار ایک اور خاتون کا ہے جس کا نام ہم نے آنٹی لاک ڈاؤن رکھا ہوا تھا اور وہ تحریک انصاف کی ایک ہمدرد کا تخیلاتی کردار تھا جس کا تعلق خیبر پختونخوا سے دکھایا جاتا رہا تھا اور کہانی کچھ یوں تھی کہ پورے سیگمنٹ میں خان صاحب بولتے ہیں گو تاثر یہ ملتا ہے جیسے بشریٰ بی بی ساتھ بیٹھی ہیں لیکن آ خر میں وہ آنٹی لاک ڈاؤن نکلتی ہیں جو خان صاحب کو مبارکباد دینے کے لیے بہروپ بھر کر وہاں پہنچتی ہیں۔ اتفاق یہ ہے کہ آنٹی لاک ڈاؤن بھی باپردہ ہیں اور برقعہ ان کے کردار کا خاصہ ہے۔

اس میں پردے کی تضحیک کا دور دور تک کوئی امکان نہیں۔ آپ یقین کیجیے کہ جب یہ پروگرام پیش کیا گیا تو کسی نے پردہ یا بشریٰ بی بی کی تضحیک (خدانخواستہ) سے متعلق ایک لفظ نہیں بولا بلکہ یہ صورتحال بعد میں بھی زیر غور رہی لیکن اس وقت تک خان صاحب انہیں رومی اور غزالی سے بڑا مقام دے چکے تھے اور ہم نے ان کے جذبات کا خیال کرتے ہوئے مرد پیر سائیں جو ہمارا ایک کردار ہے اور حسن مراد انجام دیتے ہیں، بٹھانا شروع کر دیا۔ پھر ایک بار یہ خبر گردش میں آئی کہ خان صاحب اور بی بی کے درمیان کچھ تلخی ہے اور وہ بنی گالا سے اپنی والدہ کے گھر شفٹ ہو گئیں ہیں لیکن یہ خبر سوشل میڈیا تک زیادہ گرم تھی اور ہم سوشل میڈیا کی خبروں پر کان نہیں دھرتے لہذا ہم نے کوئی بات نہیں کی۔

پھر خاں صاحب وزیر اعظم بن گئے اور ہم نے دوبارہ دونوں کو مبارکباد دینے کا سوچا لیکن پھر اس خیال سے کہ اسے طنز نہ سمجھا جائے یا روحانی علم کے خلاف کوئی پروپیگینڈا نہ سمجھا جائے، ہم نے وہ خیال ترک کر دیا۔ ایک بار پھر جب خبر گرم ہوئی کہ عثمان بزدار کو بی بی کے علم کی روشنی میں وزیر اعلیٰ بنایا گیا ہے ہم نے علم کے ماخذ اور دوسروں کو اس علم سے فیضیاب ہونے کی جستجو کرتے دکھانے کا سوچا لیکن پھر یہ خیال جھٹک دیا مبادا اسے بشریٰ بی بی کی روحانی سرگرمیوں کے اظہار ( پیدل درباروں وغیرہ پر جانا) کے خلاف کوئی ساز ش سمجھا جائے۔

پچھلے دنوں خاور مانیکا کا پولیس کے ساتھ جھگڑا ہوا اور بی بی کا نام بھی آ یا۔ ایک ہفتہ مختلف خبریں آتی رہیں۔ ہم نے بشریٰ بی بی کے کردار پر گفتگو کا سوچا لیکن پھر اس خیال کو رد کر دیا کہ یہ خالصتاً ان کا ذاتی مسئلہ ہے اور پہلے شوہر کے ساتھ ان کی غلط فہمی پر چوٹ سمجھا جائے گا ( سہیل وڑائچ صاحب نے اس پر کالم لکھا تھا اور بتایا تھا کہ کیسے خاور مانیکا اور بشریٰ بی بی غلط فہمی کی بنیاد پر ذاتی عناد پال رہے ہیں اور ہر واقعہ کی اسی تناظر میں تشریح کرتے ہیں)۔

ہم کسی کی تضحیک نہیں کرتے لیکن یہ ضرور ہے کہ سیاسی یا سماجی لوگوں کے تضادات، اختلافات اور تفرقات کو موضوع بناتے ہوئے کامیڈی تخلیق کرتے ہیں۔ کامیڈی کے لیے مواد تیار کرتے ہوئے حالات حاضرہ، سیاسی صورتحال اور اس سب کے نتیجہ میں پیدا ہونے والا عوامی مزاج ملحوظ خاطر رکھتے ہیں۔ ایک ایک سیگمنٹ پر گھنٹوں غور کیا جاتا ہے۔ بعض اوقات مبالغہ آ رائی ضرور کرتے ہیں لیکن مبالغہ آ رائی کو کبھی تضحیک کے دائرہ میں جانے نہیں دیتے۔

جو لوگ ہمارے مزاح سے ناراض ہوتے ہیں وہ دراصل اپنے بارے کوئی تلخ بات سننا نہیں چاہتے جبکہ کامیڈی کے ذریعے ہم بہت سی تلخ لیکن سچی باتوں کو لچھے دار انداز میں پیش کر دیتے ہیں۔ سوشل میڈیا پر اس پروگرام سے متعلق جو غلاظت اچھالی جا رہی ہے وہ بے بنیاد ، بے تکی اور بے راہروی پر استوار ہے لیکن میڈیا والوں کا دل بہت بڑا ہوتا ہے۔ یہی کہوں گا ،

ادھر آ ستم گر ہنر آزمائیں
تو تیر آزما ہم جگر آزمائیں


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).