مریم کی معصومیت، عیسیٰ کا تخت اور چاندی کے تیس سکے


جب یہ سطور لکھی جا رہی ہیں تو اکیسویں صدی کے اٹھارہویں برس میں ستمبر کی 14 تاریخ ہے۔ صبح کے ساڑھے چار بجے ہیں۔ پاکستان کی قومی ایرلائنز کا ایک طیارہ بحیرہ عرب کے اوپر محو پرواز ہے اور اس طیارے میں ایک تابوت ہے۔ تابوت میں، جیسا کہ ہم جانتے ہیں، دنیا سے رخصت ہونے والوں کے جسد خاکی رکھے جاتے ہیں۔ ہم سب کو ایک روز دنیا سے رخصت ہونا ہے۔ موت زندگی کی حتمی حقیقت ہے۔ موت مکالمہ نہیں کرتی۔ موت سے این آر او نہیں کیا جا سکتا۔ موت معنی کی وہ سرحد ہے جس کے پار کی حقیقتیں فانی انسانوں کے لیے سربستہ راز ہیں۔

گوشت پوست سے بنے انسانوں کے لیے سود و زیاں کے سب معاملات سانس کی ڈوری سے بندھے ہیں۔ اس سے کوئی فرق نہیں پڑتا کہ رخصت ہونے والوں کو تابوت نصیب ہوتا ہے یا ان کے حصے میں شمشان گھاٹ کی ارتھی آتی ہے۔ تاریخ انسانی میں ان گنت خاک کے پتلوں کو جنگ کے میدانوں میں، گہرے سمندروں میں، برف کی لامتناہی سفید چادر کی تنہائی اور فضا کی پہنائیوں میں اس طرح رخصت ہونا پڑا کہ رکھ لی میرے خدا نے مری بے کسی کی لاج۔

آج تو یوں بھی 1440 ہجری کے محرم کا دوسرا دن ہے۔ ہماری تاریخ میں عاشورہ اس فلسفے کا استعارہ ہے کہ گزاری گئی زندگی کی قدر و قیمت کا تعین موت کے انتخاب سے ہوتا ہے، دائمی خوف کے سائے میں زندہ جبروت کی طوالت سے نہیں۔ ہمارے ملک کی تاریخ صرف ستر برس پرانی ہے اور یہ ستر برس کا وقفہ ایک کے بعد ایک گزرتے تابوت کی لامتناہی قطار ہے۔ کہیں ہرے بھرے شاہ کی وقت کے آر پار دیکھتی آنکھیں ہیں تو کہیں ظہیر احمد دہلوی کھڑے ہیں،

گھروں سے کھینچ کے کشتوں کے پشتے ڈالے ہیں
نہ گور ہے، نہ کفن ہے، نہ رونے والے ہیں

کہیں بیاس کا پانی سرخ ہے تو کہیں 1947ء کے موسم سرما میں مہاجر کیمپوں کی خاردار تاروں پر اکڑی ہوئی لاشیں ہیں۔ کہیں بابڑہ کے بے گوروکفن لاشے ہیں تو کہیں کرنال کے درویش صفت نوابزادہ کا تابوت ہے جس کے بینک اکاؤنٹ میں چند روپے تھے اور جسے قتل کرنے والوں نے اس ملک کی تاریخ کا پہلا ڈاکہ مارا تھا۔ چوری اور ڈاکے کی گھمبیرتا سکوں میں نہیں تولی جاتی۔

16 اکتوبر 1951 کی رات پنڈی سے جو تابوت کراچی بھیجا گیا اس کا تاوان بھی اس لوٹ مار کی میزان میں شمار کرنا چاہئیے جس کا آج کل بہت چرچا ہے۔ نواب صدیق علی خان روایت کرتے تھے کہ وسط اکتوبر میں کراچی کے حبس آلود موسم میں لیاقت علی خان کے جسد خاکی کی حالت غیر ہو رہی تھی لیکن ان کے جانشینوں میں قلمدانوں کی تقسیم طے نہیں ہو رہی تھی۔

15 جولائی 1960 کو حیدرآباد جیل سے نواب نوروز خان زرک زئی کے بیٹے سمیت سات تابوت ایک ہی ٹرک پہ رکھ کر قلات لے جائے گئے تھے۔ حسن ناصر اور نذیر عباسی کو تو شاید کفن بھی نصیب نہیں ہوا لیکن مارچ 1981ءمیں حمید بلوچ کے تابوت میں ہم نے 1973ءکا آئین دفن کیا تھا۔ ایک تابوت ہم نے بیروت سے وصول کیا تھا۔ کہنے کو اس تابوت میں حسین شہید سہروردی کی لاش تھی لیکن 8 دسمبر 1963 کی سہ پہر ہم نے اس تابوت میں مشرقی پاکستان کو دفن کیا تھا۔

کہتے ہیں کہ محترمہ فاطمہ جناح کا انتقال جولائی 1967 میں ہوا، تاریخ میں مگر لکھا جائے گا کہ مادر ملت کے تابوت میں 4 جنوری 1965 کی شام وہ بے چہرہ لاشے رکھ کر کیل ٹھونک دیے گئے تھے جن کے لہو سے وقت کے بھوپت ڈاکو نے انتخابی فتح کا جشن منایا تھا۔

1971 کے لہو رنگ برس میں جو بے گور وکفن لاشے بحیرہ بنگال کی تہہ میں اتر گئے، ہم نے ان کی گنتی کا تکلف بھی نہیں کیا۔ ڈھاکہ والوں کو میرپور کے سیلابی جوہڑ میں گرے چودہ دانشور یاد رہ گئے اور ہم اپنے ایک سو پچانوے قیمتی اثاثے جنگی جرائم کی آزمائش سے بچا لائے۔ قائد اعظم کے پاکستان کا تابوت پلٹن گراؤنڈ میں خاک آلود ہو گیا۔

کچھ تابوت 23 مارچ 1973 کی رات کے اندھیرے میں عبدالولی خان راولپنڈی سے چارسدہ لے گئے تھے۔ جوہر میر پشاور کا جواہر ریزہ تھا۔ 1978ءمیں صحافیوں کی تحریک کے دوران کراچی میں قید رہا، ذوالفقار علی بھٹو کی شہادت پر جوہر میر نے ایک لافانی سطر بیگم نصرت بھٹو کے کردار سے منسوب کی تھی، ’اسلام آباد کے کوفے سے میں سندھ مدینے آئی ہوں‘۔ ہم نے 27 دسمبر 2007 کی رات راولپنڈی ہی کی زمین سے بے نظیر بھٹو کا تابوت بھی اٹھایا تھا۔ پنڈی کی زمین پر ہمارا قرض بہت بڑھ گیا ہے۔

ہم نے 27 سالہ شاہنواز کا تابوت 1985ءمیں فرانس سے منگوایا تھا۔ 42 سالہ مرتضیٰ بھٹو کا تابوت 20 ستمبر 1996 کی رات کراچی کے مڈ ایسٹ ہسپتال سے اٹھایا تھا۔ 40 سال پر پھیلی افغان پالیسی کے لاکھوں تابوت پورے ملک میں گلی قصبوں میں گڑے ہیں۔ اتنے بہت سے تابوت اور ادھ کھلی آنکھیں ہیں جنہیں ثروت حسین نے دو سطروں میں سمیٹ دیا ہے۔ ’کتنے گھاؤ لگے ہیں، پیارے کون گنے، دس سے اوپر کون گنے؟

ان دنوں سدھائے ہوئے کھوجی چوریوں کا سراغ ڈھونڈ رہے ہیں، ایک دن انہیں یاد دلانا پڑے گا کہ آنے ٹکے کی جھوٹی سچی فردجرم کا روکڑا ستر برس پہ پھیلے ڈاکے سے ملایا جائے۔ آنے والی نسلیں نسخہ ہائے وفا کے فرد فرد اوراق پر رقم نوحہ پڑھ لیں گی، ’کہیں نہیں ہے، کہیں بھی نہیں لہو کا سراغ‘۔ لہو کا سراغ ملے نہ ملے، ناصر کاظمی ہمیں بتا گئے ہیں کہ ’بوئے خوں ہے ایاغ میں گل کے‘۔

آج شام لاہور کی زمین میں ایک تابوت اتارا جائے گا۔ ٹھیک چودہ برس پہلے اسی مقام پر ایک تابوت دفن کیا گیا تھا، یہ تو کچھ دوستویفسکی کے جرم و سزا کا سا معاملہ ہے۔ جرم کے تعین سے پہلے سزا طے کی جاتی ہے اور جرم ایک ہی ہے، 11 ستمبر 1948 کی شام رخصت ہونے والے بابائے قوم نے ہمیں ایک وراثت دان کی تھی۔ محمد علی جناح کی وراثت واپس مانگنے والوں کے تابوتوں پر کندہ ماہ و سال کے اختلاف سے کچھ غرض نہیں، مقدمہ بھی اسی زمین کا ہے، تابوت بھی یہیں گڑے ہیں اور بائیس کروڑ مدعی اپنے حق سے دستبردار نہیں ہو سکتے کیونکہ ان نسل در نسل زمین پر نمودار ہوتے تودہ ہائے خاک پر ایک ہی صلیب گڑی ہے جو مریم کی معصومیت کی گواہی دیتی ہے۔

ایک روز عیسی تخت سے اترے گا اور کلام کرے گا۔ سولی کے نقطے پر کلام کرنے والوں کا استغاثہ جے آئی ٹی کی دس جلدوں میں بند نہیں ہوتا کیونکہ وہ تو صرف چاندی کے ان تیس سکوں کا حساب مانگتے ہیں جو کسی یہوداہ، میر جعفر، میر صادق، حکیم الہی بخش، جسٹس منیر یا مولوی مشتاق نے سچائی کے عوض وصول کیے تھے۔ کچھ لوگ اربوں ڈالر بازیاب کرنا چاہتے ہیں۔ ہمارے شہیدوں کے تابوت قاضی کی کچہری میں نہیں، وقت کی عدالت میں کھڑے ہو کر حساب مانگیں گے کیونکہ اڑھائی صدی پہلے لاہور کے نواح میں بھی تابوت ہی کا جھگڑا تھا اور تابوت میں بند درویش باصفا نے ہمیں بتا دیا تھا ’بلھے شاہ اسیں مرنا ناہیں، گور پیا کوئی ہور‘۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).