محترمہ کلثوم نواز کی وفات اور سیاست و صحافت کے نامناسب زاویوں پر نظر ثانی کی ضرورت


محترمہ کلثوم نواز انتہائی سلجھی، سلیقہ مند اور شفیق خاتون تھیں، بہت سے لوگوں پر ان کی خوبیاں ان کی ناگہانی وفات کے بعد ہی آشکار ہوئیں۔ اس کی وجہ یہ تھی کہ وہ انتہائی پرائیویٹ شخصیت تھیں۔ میڈیا نے ان کے 2000ء میں مشرف آمریت کو للکارنے کے واقعات بیان کیے تو بہت سے لوگوں کو جوان کے اس رول کو فراموش کر چکے تھے یاد آیا کہ محترمہ نے ایسے وقت میں جب مسلم لیگ (ن ) کے اکثر رہنما جن کا تعلق لاہور سے ہی تھا آمریت کے خوف سے چوہوں کی طرح بلوں میں چھپ گئے تھے، اتحاد برائے بحالی جمہوریت (اے آر ڈی)کی تحریک شروع کی لیکن مقتدر اداروں نے انھیں بمشکل گرفتار کر کے گھر میں نظر بند کردیا تھا۔ یہ الگ بات ہے کہ کچھ عرصہ بعد ہی دسمبر 2000ء میں میاں نواز شریف نے ایک ڈیل کے ذریعے اہل وعیال اور لاؤ لشکر کے ہمراہ سعودی عرب میں سیاسی پناہ لے لی۔ برادر خورد شہباز شریف نے بالکل اسی طرح جیسے آج کہا جاتا ہے کہ وہ اپنے بھائی کے ساتھ ایک پیج پر نہیں ہیں، اس وقت طویل جلاوطنی پر جانے سے انکار کر دیا تھا لیکن اس وقت کے ڈی جی آئی ایس آئی جنرل احسان الحق نے ان پر واضح کر دیا کہ یا تو وہ بھی دس سال کی جلاوطنی کے معاہدے پر دستخط کر دیں یا پھر دوسری صورت میں شریف فیملی کا کوئی بھی فرد باہر نہیں جا سکے گا، اس طرح طوہاً وکرہاً شہباز شریف بھی جلاوطن ہوگئے۔ اس کے ساتھ ہی بیگم کلثوم نواز کا بظاہر سیاسی رول ختم ہو گیا۔

محترمہ نے ایم اے اردو ادب کے علاوہ پی ایچ ڈی بھی کر رکھی تھی، مجھے ذاتی طور پر علم ہے کہ ان کا لندن میں مرزاغالب کے ایک بین الاقوامی ماہر ڈاکٹر رالف رسل سے علمی تعلق تھا۔ اس لحاظ سے گاما پہلوان کی نواسی میاں نواز شریف سے زیادہ پڑھی لکھی تھیں۔ میاں صاحب کا اپنی شریک حیات سے رشتہ اس حد تک مثالی تھاکہ بعض لوگ طنزیہ کہتے تھے کہ وہ ان کے بغیر چوں بھی نہیں کرتے۔ یہ بھی حقیقت ہے کہ ذاتی اور سیاسی معاملات دونوں میں وہ تین مرتبہ فرسٹ لیڈی بننے والی خاتون اپنے شوہر کی مشیر اول بھی تھیں۔ میاں محمد شریف کی وفات کے بعد ان کا اثرونفوذ اور بھی بڑھ گیا۔ بدقسمتی سے میاں نواز شریف کے دونوں صاحبزادے حسین اور حسن براہ راست سیاست میں حصہ لینے سے ہمیشہ گریزاں رہے۔ اسی بنا پر نواز شریف کی ’کور فیملی‘ میں یہ سوال ابھرنے لگا کہ ان کا سیاسی جانشین کون ہو گا۔ یہ سوال کیا وہ میاں شہباز شریف ہوں گے اور پھر ان کے صاحبزادے حمزہ شہباز شریف۔ شاید فیملی میں طاقت کے اسی عدم توازن کی بنا پرمریم نواز کو سیاست میں آگے لانے کا فیصلہ کیا گیا۔ مریم نواز نے اپنے مختصر سیاسی سفر میں اچھا تاثر چھوڑا۔ جب گزشتہ برس ان کی والدہ کو گلے کے کینسر کی تشخیص ہوئی تو وہ بغرض علاج لندن چلی گئیں اور بھر ان کا جسد خاکی ہی وطن واپس آیا۔

اس دوران لاہو ر کے حلقہ این اے 120میں کلثوم نواز کو امیدواربنایا گیا۔ انتخابی مہم کے دوران مریم کو اپنے سیاسی جوہر دکھانے کا موقع ملا اور یقینا ان کا بہتر سیاسی امیج ابھر کر سامنے آیا۔ تا ہم ناقدین کے مطابق نواز شریف اپنی صاحبزادی پر سیاسی طور پر اتنے زیادہ ریشہ خطمی ہو گئے کہ بہت سے معاملات میں ان کی ہارڈ لائن مریم نواز کی ہی مرہون منت بتائی جاتی ہے حتیٰ کہ نواز شریف کو بہت سے لوگوں نے مشورہ دیا کہ آ پ کی بیگم صاحبہ وینٹی لیٹر پر ہیں آپ پاکستان نہ جائیں۔ حال ہی میں ایک فوٹیج میڈیا پر بھی آئی ہے جس میں نواز شریف بھرائی ہوئی آ واز میں اپنی بیگم کو آوازیں دے رہے ہیں ’’کلثوم باؤ جی آنکھیں کھولو، کلثوم باؤ جی آنکھیں کھولو‘‘، جب وہ آنکھیں نہ کھول پائیں تو نواز شریف نے کہا اللہ آپ کو صحت دے۔ اس کے باوجود مریم نواز بضد رہیں کہ ہمیں سب کچھ چھوڑ کر پاکستان واپس جانا چاہیے۔ شاید انھیں اپنی ناتجربہ کاری کے باعث پاکستان میں زمینی حقائق کا پوری طرح ادراک نہیں تھا۔ یہ بھی کہا جاتا ہے کہ نواز شریف انھیں ساتھ لانے کے حق میں نہیں تھے لیکن صاحبزادی بضد تھیں۔

پھر وہی ہوا یعنی اڈیالہ جیل باپ اور بیٹی کا مقدر ٹھہرا۔ اب مریم نواز کو یہ قلق ضرورہے کہ وہ اپنی والدہ کے آخری لمحات میں ان کے پاس نہیں تھیں۔ یہ پچھتاوا نواز شریف کو بھی زندگی بھر رہے گا۔ تین بار وزیراعظم رہنے والے شخص، جس نے سیاست کے تمام مدوجزر دیکھے ہیں کویہ معلوم ہونا چاہیے تھا کہ گزشتہ ایک برس سے زائد عرصے سے ان کو مستقل طور پر جیل میں پھینکنے کی بساط بچھائی جا رہی تھی۔ کلثوم نواز کی بیماری کو بھی میاں نواز شریف کے سیاسی مخالفین نے ایک مخصوص رنگ دینے کی کوشش کی، کسی نے کہا کہ وہ ٹھیک ٹھاک ہیں اور ہارلے کلینک دل کی بیماری کا ہسپتال ہے کینسر کا نہیں۔ ا س پر ایک اور سیاست دان نے تڑکا لگایا یہ ہسپتال نہیں بلکہ کلینک ہے اور نواز شریف کی ملکیت ہے، پھر بے نام انٹیلی جنس ذرائع کے حوالے سے دعویٰ کیا گیا کہ وہ کب کی وفات پا چکی ہیں۔ یہ ساری افواہیں اور اندازے نقش بر آب ثابت ہوئے اور اب وہ لوگ جو اس قسم کی باتیں کرتے رہے تھے انہوں نے اپنے اس رویئے پر ندامت کا اظہار کیا ہے۔ ان میں صف اول میں پیپلز پارٹی کے رہنما چوہدری اعتزاز احسن نے سب سے پہلے اخلاقی جرات کا مظاہرہ کیا اور کہا کہ وہ ایسے الزامات لگانے کے حوالے سے شرمندہ ہیں اورشریف فیملی کی دل آزاری کرنے پر معذرت خواہ ہیں۔ انھوں نے اس پر بھی پچھتاوے کا اظہار کیا کہ انھیں اڈیالہ جیل جا کر نواز شریف سے معذرت کرنی چاہیے تھی لیکن انھوں نے ایسا اس لیے نہیں کیا کہ اس سے یہ تاثر ابھرتا تھاکہ وہ صدارتی انتخاب میں ووٹ مانگنے آئے ہیں۔

اسی قسم کی معذرت کا اظہار تحریک انصاف کے فیصل واوڈا نے بھی کیا ہے۔ خود عمران خان نے 5 جولائی کو بیان دیا تھا کہ میری والدہ بھی کینسر کے عارضے میں مبتلا تھیں، لہٰذا مجھے بھی محترمہ کلثوم نواز سے پوری طرح ہمدردی ہے لیکن نواز شریف کو اپنی اہلیہ کی علالت کے حوالے سے قوم کے جذبات سے نہیں کھیلنا چاہیے بلکہ ایون فیلڈ ریفرنس کے فیصلے کو غور سے پڑھنا چاہیے کیونکہ اڈیالہ جیل ان کا انتظار کر رہی ہے۔ شیخ رشید جنہوں نے میری اطلاع کے مطابق ابھی تک اپنے رویئے پر ندامت کا اظہار نہیں کیا کیونکہ انھوں نے ایک ٹی وی انٹرویومیں کہا تھا کہ مجھے یقین نہیں کہ محترمہ بیمار بھی ہیں۔ اس کے علاوہ بے شمار ایسے اینکرزکے پروگراموں کا حوالہ دیا جا سکتا ہے جن میں میاں صاحب کو ان کی اہلیہ کے حوالے سے مسلسل مطعون کیا جاتا رہا ہے ۔ ظاہر ہے کہ یہ اینکرز اپنے پروگرامز کے حوالے سے کیونکر شرمندہ ہونگے کیونکہ ان کے نزدیک ریٹنگ کے لیے سب کچھ جائز ہے اور اس سے بڑھ کر وطن عزیز میں سیاست اور صحافت اس حد تک پہنچ چکی ہے کہ اس جنگ میں رکیک ذاتی حملے کرنے کو غلط نہیں سمجھا جاتا۔

محترمہ کلثوم نواز کی رحلت پر وزیراعظم عمران خان نے واضح طور پر کہہ دیا ہے کہ اسے سیاست کا حصہ نہیں بنائیں گے اور شریف فیملی کے غم میں برابر کے شریک ہیں۔ اس کے علاوہ عمران خان نے ذاتی دلچسپی لیتے ہوئے میاں نواز شریف، مریم نواز اور کیپٹن (ر) صفدر کی پرول پر رہائی ممکن بنائی اورانھیں اسی رات جاتی امرا پہنچانے کی سہولت فراہم کی، اب حکومت نے اس میں پانچ روز کی توسیع بھی کر دی ہے، نیز حکومت نے پارلیمنٹ کا مشترکہ اجلاس بھی موخر کر کے ایک اچھی مثال قائم کی ہے۔ امید ہے کہ محترمہ کلثوم نواز کے حوالے سے سیاسی جماعتیں اور ہمارے بعض اینکر حضرات اپنے رویئے پر نظرثانی کریں گے اور سیاست میں ذاتیات اور نفرت کے رویئے کو ترک کر دیں گے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).