پاکستانی فلمی ستاروں کا کنسلٹنٹ


ط ظ سے میری شناسائی زیادہ پرانی نہیں، غالباً میری پہلی ملاقا ت کسی کھانے پر ہوئی تھی جہاں وہ بن بلائے موجود تھا، دوسری ملاقات بھی ایسے ہی ہوئی تھی، موصوف مہمانوں کے لیے مختص کی گئی نشستوں پر براجمان تھے جو کھانے کی میز سے ذرا فاصلے پر تھیں مگر اِس کے باوجود جونہی کھانے کا اعلا ن ہواتوسب سے پہلے پلیٹ میں مٹن کی بوٹیوں کا مینار بنانے کا اعزاز آپ کے حصے میں آیا۔ کشمیری ہونے کے ناطے میں بھی چونکہ کھانے کا شوقین ہوں سو وہیں اِن سے میری سلام دعا ہوئی اور پتا چلا کہ آنجناب روزنامہ کالک کے چیف رپورٹر ہیں اور پارٹ ٹائم پلمبر کا کام بھی کرتے ہیں، شہر میں ہونے والی تمام تقریبات کی خبر انہیں اپنے اخبار کی وساطت سے مل جاتی ہے اور پھر وہ روزانہ ایسی کسی دعوت میں پہنچ جاتے ہیں جہاں کھانے کا وافر انتظام ہو۔

باتوں باتو ں میں یہ عقدہ بھی کھلا کہ موصوف کنسلٹنٹ بھی ہیں اور کیرئیر کاؤنسلنگ سے لے کر مڈ وائفری تک ہر قسم کے مشورے فراہم کرتے ہیں، اور تو اور لوگوں کو بہترین زندگی گذارنے کے گُر بھی سکھاتے ہیں۔ رپورٹنگ اور پلمبنگ تک تو ٹھیک تھا مگر جب مجھے یہ پتا چلا کہ ط ظ کنسلٹنٹ بھی ہے تو میری دلچسپی میں اضافہ ہو گیا، میں نے پوچھا کہ جناب کی مشورہ فیس کیا ہے تو انہوں نے نہایت تمکنت سے جواب دیا کہ ویسے تو میں بہت مہنگا ہوں لیکن آپ جیسے کرم فرماؤں کے لیے میرا ایک خصوصی گولڈ پیکج ہے جس کے تحت ایک کلو چکن کڑاہی، چار روغنی نان اور ڈیڑھ لیٹر کی بوتل کے عوض میںدو گھنٹے کی کیرئیر کاؤنسلنگ کرتا ہوں۔

اور اگر آپ نے اپنی پوری زندگی بہتر بنانے کا تفصیلی مشورہ لینا ہو تو اُس کے لیے پلاٹینم پیکج ہے جس میں ایک فائیو سٹار ہوٹل میں کھانے کے عوض آپ کو اپنی زندگی گذانے کا مکمل خاکہ بنا کر دیا جائے گا ۔ میں نے وہیں کھڑے کھڑے اُن سے پلاٹینم پیکچ خریدا اور اگلے روز ایک ریستوران میں ملاقات کا وقت طے کرلیا۔ اگلے دن موصوف مقرر ہ وقت سے ایک گھنٹہ پہلے ہی وہاں موجود تھے، کھانے کے دوران ط ظ نے مجھے کہا کہ آج میں جو مشورے دوں گا وہ آپ کی زندگی بدل دیں گے، بظاہر آپ کو لگے گا کہ یہ بہت عام باتیں ہیں مگر اِن پر عمل کرنے سے آپ کی زندگی میں انقلاب آ جائے گا اور یہ بات پیش نظر رہے کہ میں ہر بندے کو اُس کی شخصیت، مزاج اور شعبے کے مطابق مشورے دیتا ہوں جس سے آئندہ زندگی میں کامیابی کے امکانات بڑھ جاتے ہیں ۔

مجھے یوں لگا جیسے کھانے کے دوران ط ظ کی شخصیت بالکل تبدیل ہو گئی ہو، اب وہ کوئی مجہول شخص نہیں لگ رہا تھا بلکہ یکایک اُس کی شکل سے معقولیت جھلکنے لگے تھی، شاید اچھا کھانا اسی طرح راس آتا ہو ۔ ط ظ نے مجھے یہ بھی بتایا کہ اُس کے کلائنٹس میں ہمایوں سعید، ماہرہ خان، مہوش حیات، ماورا حسینی ( یا حقہ نی جو بھی نام ہے )، شاہد آفریدی جیسی مشہور شخصیات بھی شامل ہیں اور ثبوت کے طور پر اُس نے اِن لوگوں کے ساتھ اپنی سیلفیاں بھی دکھائیں ۔

اب میرا تجسس بہت بڑھ چکا تھا اور میں بے چینی سے منتظر تھا کہ ط ظ مجھے کیا مشورے دیتا ہے، اُس نے اطمینان سے کافی کی چُسکی لی اور میرے چہرے کی طرف دیکھ کر بولا ”اصل میں ا ٓپ کا مسئلہ یہ ہے کہ آپ ضرورت سے زیادہ اصول پسند ہیں، تو آ پ کے لیے پہلا مشورہ یہ ہے کہ اصول پسندی سے توبہ کر لیں کیونکہ اگر آپ نے اِس ملک میں خوش و خرم زندگی گذارنی ہے تو اصول پسندی کی عیاشی چھوڑنا ہوگی، اصول صرف وہاں لاگو کریں جہاں آپ کے فائدے میں ہو، ہر جگہ ہر کسی پر یکساں اصول لاگو کرنے سے پرہیز کریں۔

دوسرا مشورہ، ہمیشہ وہ بات کریں جو عوام کو پسند اور لوگوں میں مقبول ہو، چٹ پٹا بیانیہ بیچیں جس کے خریدار ہر طبقے میں موجود ہوں یا کم ازکم اکثریت جس کی گاہک ہو، اِس ضمن میں عقل یا منطق کی پرواہ نہ کریں صرف لوگوں کے جذبات دیکھیں، مثلاً اگر لوگ مغربی ممالک کے خلاف گالیاں سُن کر خوش ہوتے ہیں تو مغرب کو گالیاں دیں، اگر لوگ جمہوریت کے خلاف تبرا سننا چاہتے ہیں تو روزانہ جمہوریت کے خلاف شام غریباں برپا کریں، کوئی ضرورت نہیں کسی کو جمہوریت کی تاریخ سمجھانے یا آئین کے فائدے بتانے کی، بس گلا پھاڑ پھاڑ کر ہنگامہ مچائے رکھیں۔“

ط ظ نے ابھی اتنی ہی بات کی تھی میں نے بیچ میں ٹوک دیا” اِن سب باتو ں کا مجھے کیا فائدہ ہوگا ؟“ اِس پر ط ظ نے ایک قہقہہ لگایا ”فائدہ ہی فائدہ ہے، جب آپ اصول پسندی چھوڑ کر صرف وہ باتیں کریںگے جنہیں انگریزی میں populistکہتے ہیں تو لوگ آپ کو سر آنکھوں پر بٹھائیں گے، اِس کا نشہ ہی اور ہے، ایک مرتبہ آپ کو اِس مقبولیت کا چسکہ لگ گیا تو پھر آپ کو کچھ اور اچھا نہیں لگے گا۔

اب تیسرا مشورہ بھی سُن لیں، ہمیشہ اُن موضوعات پر بڑھ چڑھ کر بولیں جن کی مخالفت میں بولنا ممکن ہی نہیں ۔ مثلاً ہر دوسرے دن انڈیا کے خلاف ایک ٹویٹ کریں، اِس کے لیے تو ہمارے پاس بے شمار حقیقی وجوہات موجود ہیں، کلبھوشن کی جاسوسی، ابھی نندن کی ذلت، کنٹرول لائن کی خلاف ورزی، کشمیر میں ظلم، مسلمانوں کے خلاف تشدد، کیا کچھ نہیں کہا جا سکتا، بس دل کھول کر ہندوستان کی کلاس لیں، داد سمیٹیں ۔ جب اِس موضوع سے بور ہو جائیں تو I stand with girl education کا ٹرینڈ چلا دیں، کون ہے جو اِس با ت سے اختلاف کرے گا!

جب کبھی کسی آٹھ دس سال کی بچی کا ریپ ہو تو سینہ تان کر میدان میں آئیں، پریس کانفرنس کریں، اِس وحشیانہ پن کے خلاف بیانات دیں، مظاہرے کریں، لوگ آپ کو ایک عزم و ہمت والا بندہ سمجھیں گے، آپ کو یاد ہے قصور میں زینب ریپ کیس کے معاملے پر ماہرہ خان وغیرہ نے کیسے بغیر میک اپ کے پریس کانفرنس کر کے اِس عزم کا اعادہ کیا تھا کہ وہ ایسے ظلم پر کانپ اٹھی ہیں !“ ط ظ بول رہا تھا اور میں حیرت سے اُس کی باتیں سُن رہا تھا، اب یہ ایک بالکل بدلا ہوا شخص لگ رہا تھا،

اپنے تئیں میں نے فلم ”بھیجا فرائی “ کی طرح کا ایڈونچر کرنے کی کوشش کی تھی مگر یہ ط ظ تو بالکل اس کے الٹ نکلا۔ میں نے دوبارہ اُس کی طرف توجہ کی، اب وہ کوئی اور مثال دے رہا تھا”اِن تمام باتوں سے آپ کو فوری طور پر تین فائدے ہوں گے، ایک، آپ ہمیشہ غیر متنازعہ رہیں گے، دوسرا، آپ کی مقبولیت میں اضافہ ہوگا اور تیسرا، ہر محفل میں آپ فخر سے کہہ سکیں کہ آپ مظلوموں کے حق میں آواز بلند کرتے ہیں ۔ “

”اب آخر میں سب سے اہم بات ۔ حق سچ کی بات اور مظلوموں کا ساتھ ہمیشہ اُن کا مذہب اور ملک دیکھ کر کریں، دنیا میں جہاں بھی مسلمانوں کے ساتھ زیادتی ہو رہی ہے اُن کے حق میں بے فکر ہو کر آواز بلند کریں مگر اپنے ملک میں پہلے مظلوم کا مذہب دیکھیں اگر وہ ہم مذہب نہیں تو چپ کرکے پتلی گلی سے نکل جائیں، یاد رکھیں کہ اِن مشوروں کا اطلاق فاٹا، بلوچستان اور ملک کے کچھ حصوں پر نہیں ہوتا۔ “ط ظ یہ کہہ کر سانس لینے کے لیے رکاپھر بولا” اور اب مشورے کی دُم، ہمیشہ وہ بات کریںجو طاقت ور کو پسند ہوپھر اِس ملک میں آپ کوکوئی مسئلہ نہیں ہوگا، ہاں اگر اصول پسندی کا مروڑ اٹھے اور آپ کو لگے کہ آئین شکنی دراصل سنگین غداری ہوتی ہے جس کی سزا موت ہے اور یہ بات برملا کہنی چاہیے تو میں آپ کو مشورہ دوں گا کہ تین ماہ تک پاکستانی فلمی ستاروں کا ٹویٹر پر پیچھا کریں اور دیکھیں کہ وہ کس خوبصورتی سے مقبول عام بیانیہ بیچ رہے ہیں، آپ کو افاقہ ہو جائے گا۔ “ط ظ نے اپنی بات ختم کی، بچا ہوا کھانا پیک کروایا اور ہاتھ ملا کر رُخصت ہو گیا۔

(ہم سب کے لئے خصوصی طور پر ارسال کیا گیا)

یاسر پیرزادہ

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

یاسر پیرزادہ

Yasir Pirzada's columns are published at Daily Jang and HumSub Twitter: @YasirPirzada

yasir-pirzada has 490 posts and counting.See all posts by yasir-pirzada

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments