پرائیویٹ اسکولوں کا کاروبار اور تعلیمی خلفشار


تعلیم انسان کا بنیادی حق ہے۔ پاکستان میں تعلیم کے حوالے سے ہمیشہ چشم پوشی کی گئی۔ اقوام متحدہ کے مطابق دنیا کے تمام ممالک کو اپنے جی ڈی پی کا چار فی صد تعلیم کے لئے مختص کرنا چاہیے۔ پاکستان میں یہ رقم ستر سالوں تک دو فی صد سے زیادہ مختص نہیں کی گئی تھی۔ ایسے میں ایک خواندہ کی تعریف کو بھی ہم نے توڑ مروڑ کر پیش کیا اور شرح خواندگی کو بڑھا چڑھا کر بیان کیا۔ ایک شخص جو اپنے دست خط کر سکتا ہو، اسے بھی خواندہ متصور کیا جاتا رہا ہے۔

سرکاری اسکولوں کے ساتھ ساتھ پرائیویٹ اسکولوں نے تعلیم عام کرنے میں ایک اہم کردار ادا کیا۔ اسکول سسٹم اور نیٹ ورک وجود میں آئے اور پھر یک ساں نظام تعلیم کا اسٹرکچر تبدیل اور تباہ ہو گیا۔ یہ اسکول تعلیم کے دُہرے معیار اور ”اسٹیٹس ریس“ کو عام کرنے میں کام یاب ہو گئے۔ پھر ہم نے دیکھا کہ تعلیم ایک کاروبار بن گیا۔ مالکان، تاجران اور سوداگران سامنے آئے۔ گورنمنٹ اسکولوں کے بارے میں میڈیا اور این جی اوز نے بھرپور مہم چلائی۔ سیاستدانوں اور سرکاری افسروں نے ان اسکولوں اور متعلق اداروں کو خوب بھنبھوڑا، نوچا اور ہمارا نظام تعلیم ایک کنفیوژن بن کر رہ گیا۔

سفید پوش افراد نے گورنمنٹ اسکولوں کو چھوڑ کر پرائیویٹ اسکولوں کو اپنی اولاد کی منزل سمجھا۔ جب کسی خوانچہ فروش، مزدور، کم آمدن والے ملازم کا بچہ الاسٹک سے بندھی ٹائی کے ساتھ کندھے پر بوتل لٹکائے گھر سے نکلتا تو والدین کا سینہ فخر سے چوڑا ہو جاتا۔ ہم نے وقت بدلتے دیکھا کہ اسکول مالکان اور ان کے بچے امارت اور عمارت کو بڑھاتے گئے۔ بچے مزید انگریزی بولنے لگے۔ تعلیم بہتر ہوئی مگر کوئی ایسا ادارہ یا میکنزم نہ رہا، جو ان اداروں کے نصاب، تعلیمی سرگرمیوں، اور قواعد و ضوابط کا تعین کرتا۔ ہر اسکول نے ”ڈیڑھ انچ کا اسکول“ بنا لیا۔ اپنی اپنی ڈفلی، اپنا اپنا راگ۔

میں نے ان اسکولوں میں اساتذہ کو دو دو ہزار پر بھی نوکری کرتے دیکھا ہے۔ میٹرک پاس کیا، داخلہ نہیں لیا۔ چلیں ٹیچنگ کرتے ہیں۔ کسی کا تبادلہ دوسرے شہر ہوا، چلیں اپنے قریبی اسکول میں ٹیچنگ کرتے ہیں۔ شادی نہیں فائنل ہوئی، لڑکی فارغ ہے چلیں اسکول جوائن کرتے ہیں۔ نصابی، غیر نصابی سرگرمیوں کو کلرز میں تبدیل کر دیا گیا۔ مختلف ہنر، مہارتیں، عمر کے ساتھ وابستہ مشقیں، کھیل، آموزش، سب بدل گیا۔ کھیل کا میدان نہیں، کوئی بات نہیں؛ بچہ انگریزی تو اچھی بول لیتا ہے۔ بچوں اور بچیوں کے قد، جسمانی ساخت، چستی، ذہنی آسودگی سب پر ہمیں سمجھوتا کرنا پڑا۔ اسکول مالکان ٹیچنگ ٹیکنییکس، نصاب، تعلیمی نفسیات سب سے بے بہرہ۔ بس ان کو لائن بنا کر چلتے بچے اور لائن بنا کر فیس جمع کراتے والدین سے غرض، باقی سب مایا۔ آج وقت اس نہج پر آن پہنچا، کہ والدین فیسوں اور بچے بستوں کے بوجھ تلے دبے ہوئے ہیں۔ آپ اپنے بچے کا بیگ اٹھانے سے احتراز برتتے ہیں۔ یہ اس بچے کی ہمت ہے کہ وہ اسے اٹھائے پھرتا ہے۔ جب فیس بل آتا ہے تو والدین پریشان، کس سے کہیں۔ مخفی چارجز، فنڈز اور ٹیکس کا پوچھ بھی نہیں سکتے۔ اپنے بھی فوراً کہتے ہیں کہ کس نے کہا تھا پرائیویٹ پڑھاؤ۔ یہ آپ کی اپنی پسند ہے، اوکھلی میں سر دیا اب خود ہی برداشت کرو۔

اگر حکومتی قوانین، ریگولیٹری باڈی اور ذمہ دار اداروں کی بات کی جائے تو ان کا کردار نہ ہونے کے برابر ہے۔ ایک دن میں میں اسٹے آرڈر اور والدین کی آواز کئی سالوں کے لئے دب جاتی ہے۔ حال ہی میں پرائیویٹ اسکولوں نے فیسوں میں بیس سے چالیس فی صد اضافہ کر دیا ہے۔ کس سے پوچھا گیا؟ کیا انھوں نے اپنے اخراجات اور آمدن کا آڈٹ کرایا؟ کیا ان کے اسکولوں میں سہولیات کی فراہمی اس حد تک ہے کہ ان کے مطابق مزید پیسے بڑھائے جائیں؟ ایسا کچھ بھی نہیں ہے۔ اس پر پنجاب اور سندھ ہائی کورٹ نے فیصلہ صادر فرمائے ہیں، ان کے مطابق تعلیمی اداروں کے سوداگر پانچ اور آٹھ فی صد تک فیس بڑھا سکتے ہیں۔

وفاقی دار الحکومت میں بسنے والے سرکاری ملازمین اپنے بچوں کو اسکول چھڑوانے پر مجبور ہیں۔ تین بچوں کا فیس چالان جو کہ دو ماہ کا اکٹھا ہوتا ہے، ایک لاکھ روپے۔ یہ ان لوگوں کے لئے ہے جو سرکاری تنخواہ یا اپنے دوسرے وسائل سے ادا کرتے ہیں۔ اپنی ضروریات قربان کر کےاپنے بچوں کو اچھی تعلیم دلانے کے خواہاں ہیں۔ یہ اسکول بچوں کے یونیفارم، کتب، کینٹین، ہر چیز سے کمائی کرتے ہیں۔ ان کی کینٹین نو پرافٹ نو لاس پر اس لئے نہیں چلتی کہ انھوں نے ننھے بچوں کو دس روپے والی چیز بیس کی بیچنی ہوتی ہے۔ ان کے لئے اس سے منافع بخش کاروبار ہے ہی نہیں۔

ایوان اقتدار اور اعلیٰ عدلیہ میں بیٹھے احباب بھی سمجھتے ہیں، کہ اسکولوں کو یک ساں تعلیم، نصاب، فیس اور سہولیات کی فراہمی کرنی چاہیے مگر بولتے نہیں۔ کیوں؟ اس لئے کہ لوگ کیا کہیں گے؟ بہت شوق تھا مہنگے اسکولوں میں پڑھانے کا۔ دیکھ لیں اب برداشت نہیں ہو رہا۔ آخر میں اتنا کہوں گا کہ سری لنکا کے ایک وفد سے ملاقات ہوئی، تعلیم کا ذکر آیا۔ ؛ میں نے تعلیمی نظام کا پوچھا، بولا کہ لوگ گورنمنٹ اسکول میں داخل ہونے کو ترجیح دیتے ہیں؛ پرائیویٹ اسکولوں میں وہ لوگ جاتے ہیں جن کو میرٹ کی وجہ سے وہاں داخلہ نہ ملتا ہو۔ سری لنکا جہاں دہشت گردی اور انتہا پسندی عروج پر تھی، انھوں نے اپنے تعلیمی نظام کو مضبوط کیا۔

والدین کو بچوں کی فیس کے لئے چوری، رشوت نہ لینی پڑی۔ انھیں یک ساں معیار تعلیم میسر آیا۔ انھوں نے اس کی قدر کو پا لیا اور شرح خواندگی تقریباً صد فی صد تک لے گئے۔ ہم نے اسکول مالکان کو بنایا؛ ان کے لئے اپنا رزق حلال نچھاور کیا؛ محض اس لئے کہ شاید میرا بچہ زمانے کی دوڑ سے پیچھے نہ رہ جائے۔ حالاں کہ ہم سب ایک چلتی گاڑی کے ساتھ دوڑ رہے ہیں۔ سانسیں پھولی ہیں، مگر نہ رک سکتے ہیں اور نہ بھاگ سکتے ہیں۔ خدارا ان پرائیویٹ سکولوں کے لئے بھی کوئی موثر ادارہ فعال بنائے جو ان کی عمارتوں، اسٹاف، اساتذہ، نصاب، فیسوں، بنیادی حقوق و فرائض اور سیکورٹی کا آڈٹ کر سکے۔ پوچھ سکے۔ کچھ ان کو بتا سکے۔ نئی حکومت کو اسے ایمرجنسی بنیادوں پر حل کرنا ہو گا، وگرنہ تعلیم ان پرائیویٹ اسکول مالکان کی کمائی میں ڈوب رہی ہے؛ رو بہ زوال ہے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).