جون ایلیا: بڑے آدمی کا دکھ


میں نے کچھ عرصہ پہلے ایک شعر پڑھا، جس میں شاعر کا نام جون ایلیا لکھا تھا؛ میں سمجھا کہ یہ شعر کسی شاعرہ کا ہے، بعد ازاں شعور شاعری اور مزید مطالعے پر ان موصوف کے کلام میں خاصی دل چسبی ہونے لگی۔ دراصل یہ شاعری دیگر شعرائے کرام سے بالکل مختلف محسوس ہوئی کیوں کہ تمام تر شاعری مکالمہ لگتی ہے، جیسے کوئی سامنے براجمان ہوکر اپنے درد کی رونمائی کرے یا پھر کسی کی وفا اخلاص اور ہم دردی اس کے منہ پر دے مارے۔ چھوٹی بحر کا بڑا شاعر، تیکھے بدن کا بڑا آدمی، سید جون اصغر المعروف جون ایلیا۔ جن کو اہل نظر جون اولیا بھی کہا کرتے تھے۔

عجیب آدمی گذرا ہے صاحب، پہلے تو سیگرٹ کی دھند میں بھٹکتا رہا، اور پھر پانیوں میں ڈوب گیا۔ 14 دسمبر 1931 کو امروہہ میں جب اس کا ظہور ہوا، تو زندگی بھر مرحوم رہا. 8 نومبر 2002 کو رزق خاک ہوا تو اہل ذوق کے دلوں میں زندہ ہو گیا۔

” جون ” لفظوں کو حکم دیتا اور لفظ اس کی اطاعت میں قطار اندر قطار کیفیات کی انگلی تھامے۔
درد سمیٹے۔
یوں یکجاء ہوتے کہ شاہکار جنم لیتے۔
اس ادھڑے ہوئے آدمی نے لفظوں کو کیفیات کیساتھ یوں بُنا کہ دنیا آج بھی اس کے سحر میں مبتلا ہے۔
” جون ” کے مخصوص انداز کی شاعری میں اداسی چیختی۔
درد کراہتا۔
اور محرومیاں بین کرتی تھیں۔
اور یہ اداسی اس کے قاری اور سامعین کے رگ و پہ میں اتر جاتی۔
اسی لیئے جیسے دیوانے قاری جون کو ملے کسی اور شاعر کے نصیب میں ایسے چاہنے والے نہیں۔
” جون ” نے اپنا بہت سا کلام اپنے ہی اس خیال سے کہ
” وجود خیال کا زوال ہوتا ہے ”
اپنے سینے میں لیئے منوں مٹی تلے سو گئے۔
ضروری نہیں لیکن اکثر دیکھنے میں آیا ہے کہ بڑا آدمی دنیا کو فتح کیئے ہوتا ہے۔
مگر گھر سے ہارا ہوا ہوتا ہے۔
“مجھ کو تو کوئی ٹوکتا بھی نہی
یہی ہوتا ہے خاندان میں کیا؟
جون کے ساتھ بھی ایسا ہی ہوا۔  ان کی ازدوجی زندگی ناکام رہی۔
اک خاتون جو عمر بھر اس کا خواب رہی مگر اس خواب کی تعبیر ” جون ” کی محرومی رہی۔
” جون ” کا المیہ تھا کہ خواتین اس کی عزت کرتی تھیں۔
محبت نہیں کرتی تھیں۔
شرم دہشت جھجھک پریشانی
ناز سے کام کیوں نہیں لیتیں
آپ۔وہ۔جی۔مگر یہ سب کیا ہے
تم میرا نام کیوں نہیں لیتیں?

” جون ” کی خواہشیں بھی عجیب تھیں۔ ان کی ایک خواہش تھی کہ کوئی لڑکی ان کی محبت میں خود کشی کر لے۔ “جون ” اپنی ذات میں ایک بزم تھا۔ مگر ہزاروں چاہنے والوں کے ہجوم میں وہ تنہائی سے مر گیا۔
انکی امید ناز کا ہم سے یہ مان تھا کہ آپ
عمر گزار دیجئے۔۔۔عمر گزار دی گئی’

ایسے آدمی کو ذہنی ہم آہنگی کے مطابق لوگ نہیں ملتے۔ تنہائی قطعاً یہ نہیں کہ آدمی اکیلا ہو بلکہ تنہائی تو یہ ہے آدمی مجمع میں ہو اور تنہا ہو۔ ایسےآدمی سے لوگ امپریس تو ہوتے ہیں مگر اس کے دوست نہیں ہوتے۔ وہ اکیلا نہ تھا مگر تنہا تھا اور یہ ہر بڑے آدمی کا دکھ ہے صاحب یہ ہر بڑے آدمی کا دکھ ہے۔ اور ایسے لوگ اپنی ذہانت یا باغیانہ مزاج کے باعث اپنے خاندان حلقہ احباب اور معاشرے میں بہت کم ہی ایڈجسٹ ہو پاتے ہیں. دنیا میں بہت سے ایسے لوگ گذرے جن کے گرد ان کے مداحوں کا ہجوم رہتا تھا۔ مگر وہ تنہائیوں میں مرے۔ ” جون ” لوگوں کو حیران کر دینا چاہتا تھا اور کامیاب ہوا۔ وہ شاعروں کے ہجوم میں ہوتا تو بس وہ ہی دکھتا باقی تو سب تمام شد۔

اجازت چاہوں گا سماعت میں ایک جانے پہچانے لہجے کی صدا آ رہی ہے۔
آواز تو آدمی کی ہے مگر یوں معلوم پڑتا ہے جیسے کوئی دکھ کراہ رہا ہو۔
لگتا ہے “جون ایلیاء ” آسمانوں میں محو سخن ہے۔
غزل سناتا جاتا ہو گا اور سر پیٹتا جاتا ہوگا۔
خیر چھوڑیئے صاحب رات کافی بیت چلی ہے میں شاید کوئی خواب دیکھ رہا ہوں گا یا پھر کوئی وہم ہو گا۔ جون ایلیاء تم مرے نہیں، تمھاری جان چھوٹی.
میں بھی بہت عجیب ہوں اتنا عجیب کہ بس
خود کو تباہ کر لیا اور ملال بھی نہیں


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).