بھکر کے آدم خور بھائی کون تھے؟


چند سال قبل بھکر کے دو بھائی ذرائع ابلاغ پر اچانک ہر جگہ نظر آنے لگے۔ خبر خوفناک تھی۔ بھکر میں دو بھائی قبروں سے تازہ لاشیں چراتے تھے اور انہیں اپنے گھر میں لا کر اُن کا گوشت پکا کر کھاتے۔ یہ برادران ہمارے معاشرے میں ہیبت کا نشان بن گئے۔ ان کے بارے میں بہت سے مضامین اخبارات و رسائل میں شائع ہوئے۔ ان میں ایک حیرت انگیز بات موجود تھی۔ درج تھا کہ ان دونوں بھائیوں کی دادی بھی انسانی گوشت کھاتی تھی۔

وہ ان میں سے ایک بھائی سے بچے کے گوشت کا مطالبہ کرتی تھی۔ ان دونوں کا ایک کزن قبرستان سے بچوں کی لاشیں چرا کے لاتا جس کو دادی پکا کر کھاتی۔ یہ تفصیلات حیرت انگیز بھی تھیں اور عجیب بھی۔ دونوں بھائیوں کے باقی گھر والے ایسے معصوم بنے ہوئے تھے کہ جیسے وہ ان دونوں کی ان تمام حرکات سے صریحاً ناواقف تھے۔ ذرا غور کیجئے کہ کیا دیہاتی فضا میں جہاں گھر کا بلکہ خاندان کا بھی ہر ہر فرد دوسرے فرد کی زندگی میں اس قدر دخیل ہوتا ہے، کیا یہ بات ممکن تھی کہ گھر کے دو افراد قبرستان سے لاشیں چرا کر لاتے ہوں اور پکا پکا کر کھاتے رہتے ہوں اور کسی کو گھر میں پتہ ہی نہ چلے؟

ان دونوں افراد کی ذہنی صحت پر بڑی مزاحیہ باتیں تب ذرائع ابلاغ پرکی گئیں۔ دوائی دینے والے سائیکاٹرسٹ تو بے چارے کیا اس معاملے کی نفسیاتی جہات پر روشنی ڈال سکتے تھے؟ ہماری نفسیات دان برادری نے بھی اپنی ساری ہی علمیت کی قلعی کھول دی۔ بیچاروں نے بتا دیا کہ وہ کسی بھی معاملے کی نفسیاتی وجوہات کا کوئی ادراک نہیں رکھتے۔ انہیں بس عام سے باتیں کرنی آتی ہیں یا بات گھمانی۔ پھر سماجیات کے بعض ماہرین یہ کہتے ہوئے پائے گئے کہ دراصل گائے، بکرے، مرغی وغیرہ کے گوشت کے مہنگے ہونے کی وجہ سے یہ برادران انسانی لاشیں کھانے پر مجبور ہو گئے۔
ہمارے ملک میں ہمیشہ یہی ہوا ہے کہ جب بھی کسی معاملے پر نام نہاد علمی لوگوں کو اپنی ماہرانہ رائے دینے کے لئے مدعو کیا گیاہے تو انہوں نے اپنی‘ عملی قے ’ ( Intellectual vomiting)سے ہر ایسے موضوع کو صرف الجھایا ہی ہے۔ آئیے ہم آج ان بھکر کے بھائیوں پر غور کرتے ہیں کہ وہ دراصل کیا تھے، وہ کیوں انسانی لاشیں کھاتے تھے اور جب وہ جیل سے چھوٹے تو دوبارہ لاشیں کھانے کے ہی الزام میں کیوں پکڑے گئے؟

انسانی لاشیں کھانا ایک غیر معمولی رویہ ہے یعنی یہ بات Abnormal Behaviour کے کسی زمرے میں آ سکتی ہے۔ اب ذرا ذہنی امراض کا مینول یعنی دی ایس یم فائیو(DSM۔ V) کھولیے اور یہ بیماری یا اس سے ملتی جلتی کوئی بیماری تلاش کیجئے۔ آپ حیران ہوں گے کہ ایسی کوئی بیماری اِس مینول میں موجود نہیں۔ پھر ایک اور رخ سے دیکھئے تو سائیکوسس( Psychosis) کی بعض صورتوں میں کچھ بہت غیر معمولی رویے جنم لیتے ہیں جیسے کچرا چننا، انسانی فضلہ کھا لینا یا کئی دنوں تک گم سم کسی ایک جگہ کھڑے ہو جانا۔ یہ سب ہی رویے یا تو کسی نوع کے خبط (Delusion) کی پیداوار ہوتے ہیں یا صریح دیوانگی کے غیر منضبط رویے (Disorganized behaviour) کی صورتیں ہیں۔ مگر بات غور طلب ہے کہ یہ دونوں بھائی امکانی طور پر دیوانے (Psychotic) نہیں تھے بلکہ یہ جو کچھ کر رہے تھے وہ ان کی دادی اور ان کا ایک کزن بھی ماضی میں کرتے رہے تھے۔

ابھی بھی یہ بات ہضم نہیں ہوتی کہ ان کے باقی اہل خانہ ان کے لاشیں کھانے سے ناواقف تھے، امکانی طور پر وہ نہ صرف اس بات سے اچھی طرح واقف تھے بلکہ وہ خود بھی اس عمل میں شامل تھے، معاون بھی تھے اور مددگار بھی۔ مگر جب بات پکڑی گئی تو دونوں بھائیوں نے اپنے دیگر اہل خانہ کو بھی بچایا اور اہل خانہ نے بھی سارا ملبہ ان پر ڈال دیا۔ اس معاملے میں جب پورا خاندان ہی دیوانگی میں مبتلا ہو تو کسی نوع کی اجتماعی دیوانگی (Collective Psychosis) کا بھی امکان ہے مگر راقم الحروف اس مفروضے کا قائل نہیں کہ یہ بھائی، ان کے اہل خانہ ’پاگل ’ہیں یا ماضی میں ان کی دادی دیوانی ( Psychotic) تھی۔ اس بات کو سمجھنے کے لئے آدم خوری ( Cannibalism) کو سمجھنے اور اس کے تاریخی تناظر کو جاننے کی ضرورت ہے۔

دنیا میں بہت سے ممالک میں آدم خوری ایک رویے کے طور پر موجود رہی ہے۔ افریقہ، لاطینی امریکا، چین، فلپائن، کوریا وغیرہ کے حوالے سے تو یہ خبریں آج تک آتی ہی رہتی ہیں مگر آدم خوری کی روایت برصغیر میں بھی رہی ہے۔ برصغیر میں ڈائن کا تصور یہی ہے کہ وہ انسانی بچے کھاتی ہے۔ شمشان گھاٹوں پر آج بھی تانترک ادھ جلی انسانی باقیات کھاتے ہیں۔ یہ روایت برصغیر میں جادو کے ساتھ مخصوص سمجھی جاتی ہے مگر چین کے بعض علاقوں اور فلپائن وغیرہ میں انسانی گوشت صرف ایک غذا کے طور پر کھانے کی روایت ہے جس کے ساتھ جادو کا کوئی تعلق نہیں سمجھا جاتا۔ آج کے دور میں کوئی بھی آدم خور طبقات کھلے عام یہ کام نہیں کر پاتے مگر ماضی میں بعض قبائل کی غذا صرف انسانی گوشت ہی رہی ہے۔

جب کسی گروہ کو اپنی کوئی خاص روایت معاشرتی دباؤ سے ترک کرنی پڑے تو عموماً ایسے گروہ مخفی کلٹ( Cult) بن جاتے ہیں۔ بیرونی طور پر یہ اکثریت کے رویے، دین، ثقافت سب کچھ اختیار کر لیتے ہیں مگر اندر سے یہ جانتے ہیں کہ یہ کیا ہیں اور اپنے اصل افعال چھپ چھپا کر کرتے رہتے ہیں۔ اس بات کی سب سے بڑی مثال برصغیر میں بنارسی ٹھگ ہیں۔ ان کے عقائد عام ہندومت سے مختلف تھے اور انسانوں کا قتل کر کے ان کو لوٹ لینا ان کے نزدیک عبادت تھا مگر یہ ظاہری طور پر عام ہندو یا مسلمان بن کر گھومتے اور اپنے شکاروں کو گھیر کر اپنے اڈوں پر لا کر ان کا قتل کر کے ان کا سامان لوٹ لیتے۔ یہ گروہ انگریزی اقتدار میں سخت اقدامات کی وجہ سے بڑی حد تک ختم ہو گیا مگر آج کے دن تک بنارس کے آس پاس ٹھگوں کے قتل اور مال لوٹنے کے واقعات رپورٹ ہوتے ہیں اور اپنے شکاروں کے قتل سے قبل وہ آج تک اپنی مذہبی رسوم بھی کرتے ہیں۔

کلٹ اپنے مخصوص سماجی ڈھانچے، اپنی رازداری اورگرگٹ کی طرح رنگ بدل کر اوپر سے اکثریت کا رنگ چڑھا لینے کی اہلیت کی وجہ سے زندہ رہتے ہیں۔ غالباً یہ دونوں برادران اور یہ پورا خاندان کسی آدم خورکلٹ کے رکن تھے اور یہ خفیہ گروہ صدیوں سے یہی کر رہا ہو گا۔ کلٹ کی روایات نسل در نسل صدیوں تک منتقل ہوتی رہتی ہیں۔ امکانی طور پر یہ آدم خور برصغیر میں اسلام کی آمد سے بہت پہلے سے موجود ہے۔ ڈائن کے حوالے سے جو داستانیں عام ہیں اس سے تو یہی معلوم ہوتا ہے کہ یہ کوئی بہت چھوٹا کلٹ ہے بھی نہیں۔ یقینی طور پر انسانی گوشت کھانا ان کے لئے کسی نوع کے عقائد سے بھی منسلک ہو گا۔ ممکن ہے انہی عقائد اور رسومات کو ڈائن کے قصوں میں جادو قرار دیا گیا ہو۔

ہر کلٹ کو اپنی عجیب و غریب رسوم کے لئے کوئی نہ کوئی توجیحات تراشنی پڑتی ہیں۔ بنارسی ٹھگ اپنے شکار کو قتل کرنے کی یہ توجیح دیتے تھے کہ وہ بھوانی ماتا کے لئے انسانی بلی چڑھا رہے ہیں۔ ہو سکتا ہے کہ یہ آدم خور گروہ بھی انسانی گوشت کھانے سے اپنے خداؤں کو خوش کرنے یا کوئی جادوئی قوتیں حاصل کرنے کا عقیدہ رکھتا ہو۔ یہ بات قرین قیاس بھی ہے اس لئے کہ معاشرے میں انسانی گوشت کھانے سے ہمیشہ جادو کو ہی منسلک کیا گیا ہے۔ بھکر کے بھائیوں کے متعلق بعض اخباری رپورٹس نے اِس جانب اشارہ کیا ہے۔

راقم الحروف کو اعتراف ہے کہ یہ تمام ہی گفتگو مفروضوں پر مبنی ہے مگر اہل علم جانتے ہیں کہ نظریات مفروضوں سے ہی برآمد ہوتے ہیں اور کم از کم یہ مفروضے اس مفروضے سے تو بہتر ہی ہیں کہ ’یہ لوگ اس لئے انسانی لاشیں کھا رہے تھے کہ گائے بکرے اور مرغی کا گوشت مہنگا ہو گیا ہے۔‘ ہمارے پیش کردہ نظریے کی تحقیق انہی برادران کی زندگی کو کھنگالنے سے برآمد ہو سکتی ہے مگر ایک بات طے ہے کہ باطنی نظریات رکھنے والے مخفی گروہ کبھی بھی اپنے نظریات و عقائد سچ نہیں بتاتے۔ یہ کلٹس کا ہزاروں سال کا دفاعی نظام ہے، اسی دفاعی نظام کی وجہ سے یہ گروہ سمندر جیسی وسیع اکثریتوں کے درمیان بھی اپنے مخفی عقائد اور افعال کو قائم رکھتے ہیں اور اگلی نسلوں تک پہنچاتے ہیں۔

مگر اس بحث کو چھوڑیے، ہمیں گوشت کی قیمت والا مفروضہ پیش کرنے والے سماجیات کے پروفیسر صاحب سے پوچھ کر ذرا یہ بتائیے کہ گوشت کی قیمت تو ہر روز بڑھتی ہی جا رہی ہے، کب تک امکانی طور پر سارا پاکستان آدم خور بن جائے گا؟ مگر ممکن ہے کہ پروفیسر صاحب ابھی خود گوشت کی بڑھتی قیمت سے تنگ آ کر قبرستان میں کوئی تازہ قبر تلاش کر رہے ہوں، اس لئے جواب نہ دے سکیں، آئیے قبر کشائی میں ان کی مدد کریں۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).