ملا اور عورتیں


\"mahnazاسلامی نظریاتی کونسل کے مولانا شیرانی جب بھی کوئی نیا بیان داغتے ہیں تو مجھے ملا کے بارے میں اقبال کے فرمودات بہت یاد آتے ہیں۔ اسی حوالے سے انٹر نیٹ پر کچھ سرچ کی تو ڈاکٹر خلیفہ عبدا لحکیم ایم اے پی ایچ ڈی کا مضمون، \’اقبال اور ملا\’ پڑھنے کو ملا، جسے بزم اقبال، نرسنگھ داس گارڈن کلب روڈ لاہور نے شائع کیا تھا۔ فرماتے ہیں، \”ملا اگر شریعت کا پابند ہوتا، گو اس کی روح سے پوری طرح آشنا نہ بھی ہوتا، تو بھی اقبال کے دل میں ملائیت کے خلاف اس قدر حقارت کا جذبہ پیدا نہ ہوتا لیکن وہ دیکھتا تھا کہ ملا شریعت میں بھی فقط ان ظاہری باتوں کی پابندی کرتا ہے جن میں اس کو کچھ مادی نقصان کا اندیشہ نہ ہو، لیکن اگر اپنے مادی مفاد پر زد پڑتی ہو تو پھر شریعت کے احکام کو بھی یا تو نظر انداز کر دیتا ہے یا ان کی حسب منشا تاویل کر لیتا ہے۔ \”

لیکن اب معاملہ اقبال اور ملا کا نہیں بلکہ ملا اور عورتوں کا ہے۔ یہ اور بات کہ اقبال کے ملا کی طرح اسلامی نظریاتی کونسل کے چئیر مین مولانا شیرانی کے اعصاب پر بھی عورت سوار ہے۔ 2016ء میں انہوں نے عائلی قوانین کے تحت دوسری شادی کے لئے پہلی بیوی کی اجازت کی شق کو منسوخ کرنے کا مطالبہ کیا جسے انسانی حقوق کے کمیشن نے عورتوں کے خلاف ایک نیا محاذ کھولنے کے مترادف قرار دیا تھا۔ اسلامی نظریاتی کونسل نے اپنے 191ویں اجلاس میں شادی کی کم سے کم عمر مقرر کرنے کو غیر اسلامی قرار دیا تھا اور اپنے 192 ویں اجلاس میں اس نتیجے پر پہنچی تھی کہ عورت کا وجود ہی غیر اسلامی ہے۔ مولانا شیرانی کا کہنا تھا کہ عورتیں دو طرح کی ہوتی ہیں، ایک حرام اور دوسری مکروہ۔ اپنی مرضی چلانے والی عورتیں حرام ہیں اور مکمل طور پر مطیع اور فرمانبردار عورتیں مکروہ۔

مجھے پورا یقین ہے کہ مولانا کو اصل غصہ اس بات کا ہے کہ سول سوسائٹی کی عورتوں نے مولانا شیرانی کے اسلامی نظریاتی کونسل کے چئیرمین بننے کی مخالفت کیوں کی تھی چنانچہ اس کا بدلہ اب وہ اس طرح سے لے رہے ہیں۔ عورتوں کا کہنا یہ ہے کہ جب آئین میں لکھا ہے کہ پاکستان میں اسلام کے خلاف کوئی قانون نہیں بن سکتا تو پھر اسلامی نظریاتی کونسل کی کیا ضرورت ہے۔ اگر اب اس کونسل کو ختم کرنے کے لئے آئین میں ترمیم کی ضرورت ہے تو کم از کم اس مرحلے کے سر ہونے تک کسی مستند عالم کو اس کا سربراہ بنایا جائے اور ہر مکتب فکر اور مسلک کی رائے کا احترام کیا جائے۔ کونسل کی سربراہی سیاسی نوازشات کا حصہ نہیں ہونی چاہئیے۔ کونسل کا سربراہ ایسے مذہبی عالم کو ہونا چاہئیے جو اجتہاد میں یقین رکھتا ہو۔ لیجئیے اب مجھے پھر علامہ اقبال یاد آنے لگے۔ وہ بدلتے وقت کے تقاضوں کے مطابق اسلام کی تفسیر و تشریح کوکسی مکتب فکر کے نمائندوں کی انفرادی نہیں بلکہ مسلم قانون ساز اسمبلی کی ذمہ داری قرار دیتے تھے، ان کی رائے میں جدید عہد میں یہی اجماع کی ممکنہ شکل تھی۔

مگر اسلامی نظریاتی کونسل کے مولانا شیرانی اجتہاد کے تصور سے نا آشنا لگتے ہیں۔ خاص طور پر عورتوں کے حوالے سے تو وہ معروضی حالات کی طرف سے آنکھیں بند کر کے اس دور میں واپس لوٹ جانا چاہتے ہیں جب کسی سائنسی ایجاد کا کوئی تصور نہیں تھا، ایڈیسن نے ابھی بجلی کا بلب ایجاد نہیں کیا تھا، ریلوے کا انجن تک نہیں بنا تھا، لوگ اونٹوں اور گھوڑوں پر سفر کرتے تھے۔ آج خود تو وہ سائنسی ایجادات اور جدید ٹیکنالوجی سے پوری طرح فیض یاب ہو رہے ہیں لیکن زنا بالجبر کے کیسز میں ڈی این اے ٹیسٹ کو بنیادی ثبوت کے طور پر قبول کرنے کے لئے تیار نہیں۔ اسی لئے سول سوسائٹی اسلامی نظریاتی کونسل کو تحلیل کرنے کا مطالبہ کرتی رہی ہے۔

اگر مولانا صاحب کو ماضی میں لوٹنے کا اتنا ہی شوق ہے تو انہیں کار یا جیپ میں سفر کرنے کی بجائے اونٹوں پر سفر شروع کر دینا چاہئیے اور جدید عہد کی دیگر سائنسی ایجادات سے بھی پرہیز کرنا چاہئیے۔

اب یہی دیکھ لیجئیے کہ پاکستان وہ ملک ہے جہاں ایک عورت دو مرتبہ وزیر اعظم رہ چکی ہے، پاکستان وہ ملک ہے جس کے بانی نے تحریک پاکستان کے دوران اور بعد میں بھی اپنی ہمشیرہ یعنی ایک عورت کو ہمیشہ ساتھ رکھا اور عورتوں کو گھروں میں بند رکھنے کی شدید مخالفت کی۔ پاکستان وہ ملک ہے جس نے اقوام متحدہ کے بے شمار معاہدوں اور کنونشنز پر بشمول عورتوں کے خلاف ہر طرح کے امتیاز کے خاتمے کے کنونشن پر دستخط کر رکھے ہیں اور اسی ملک میں اسلامی نظریاتی کونسل کے مولانا شیرانی فرماتے ہیں کہ شوہر حضرات کو بیویوں کی ہلکی پھلکی مار پیٹ کی اجازت ہونی چاہئیے۔ سول سوسائٹی کی تنظیمیں اسلامی نظریاتی کونسل کے پنجاب حکومت کے تحفظ نسواں کے مقابلے میں پیش کئے جانے والے بل پر انتہائی غم و غصہ کا شکار ہیں جس میں عورتوں کو پبلک لائف سے دور رکھنے کی بات کی گئی ہے۔ یہاں تک کہ خاتون نرس مریض مرد کی تیمارداری نہیں کر سکے گی۔ اور اگر کوئی بیوی اپنے شوہر کا حکم نہیں مانے گی تو اسے ہلکی پھلکی مار پیٹ کے لئے تیار رہنا چاہئیے۔ سول سوسائٹی کی رائے میں مجوزہ بل غیر آئینی، غیر قانونی، اور بنیادی انسانی حقوق کی خلاف ورزی ہے۔ ہم سمجھتے ہیں کہ قانون سازی پارلیمنٹ کا استحقاق ہے نہ کہ کسی اور ادارے کا۔ پارلیمنٹ کو مذہب کے نام پر عورتوں کے حقوق کو سلب کرنے کی اجازت نہیں دینی چاہئیے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
1 Comment (Email address is not required)
Oldest
Newest Most Voted
Inline Feedbacks
View all comments