دستور کا آرٹیکل چھ، غداری، پارلیمنٹ اور منصف اعلیٰ


چیف جسٹس ثاقب نثار نے متنبہ کیا ہے کہ ملک میں دیامر بھاشا یا موہمند ڈیموں کی تعمیر کی مخالفت کرنے والوں کے خلاف آئین کی شق 6 کے تحت کارروائی کرنے پر غور کیا جا سکتا ہے۔ شق چھ کے تحت آئین توڑنے اور اسے معطل کرنے والے یا اس کی کوشش کرنے والے اور اس کے ساتھ معاونت کرنے والے لوگوں کے خلاف غداری کے الزام میں مقدمہ چلایا جا سکتا ہے۔ اس شق میں یہ بھی واضح کیا گیا ہے کہ ملک کی کوئی عدالت جن میں ہائی کورٹ اور سپریم کورٹ شامل ہیں اس قسم کے اقدام کو درست قرار دینے کی مجاز نہیں ہیں۔ پارلیمنٹ نے اس جرم کی سزا موت مقرر کی ہوئی ہے۔ اب چیف جسٹس ملک میں ڈیموں کی تعمیر کے سوال پر آنے والے سیاسی سوالات کی روک تھام کے لئے غداری کا الزام عائد کرنے کا ’انقلابی‘ اقدام کرنا چاہتے ہیں۔ منصف اعلیٰ ثاقب نثار جنہوں نے حال ہی میں مقدمات کی سماعت کے دوران ملک سے اپنے لازوال محبت اور وفاداری کا بار بار اعلان بھی کیا ہے ، گزشتہ دنوں 22 سالہ تطہیر فاطمہ نامی خاتون کی درخواست پر ریمارکس دیتے ہوئے اس کے والد شاہد ایوب کو یہ ہدایت بھی کی تھی کہ وہ چونکہ اپنی بچی کی کفالت کرنے میں ناکام رہے ہیں اس لئے خواہ وہ چوری کریں یا ڈاکہ ڈالیں، انہیں ان برسوں کا ہرجانہ ادا کرنا پڑے گا۔ والد کے اس مؤقف پر کہ وہ غریب انسان ہیں اور کوئی بھاری معاوضہ ادا نہیں کرسکتے، چیف جسٹس نے ایف آئی اے کو ان کی مالی حالت کا جائزہ لینے کا حکم دیا تھا۔

ملک کے قابل احترام چیف جسٹس کے یہ غیر معمولی ریمارکس یا احکامات قانون کی کسی بھی تفہیم کے تحت متنازعہ اور قابل توجہ ہونے چاہئیں۔ اس ملک میں چار مرتبہ فوجی سربراہوں نے آئینی حکومتوں کے خلاف بدعنوانی کے الزامات عائد کرتے ہوئے مارشل لا نافذ کیا اور ملک کے آئین کو منسوخ کیا یا معطل کیا یا اس کی شکل بگاڑنے کا اہتمام کیا۔ ملک کی سپریم کورٹ نے ہر دور میں ان جابرانہ اقدامات کی توثیق کی تھی۔ ملک کے پہلے فوجی آمر ایوب خان نے پہلی آئین ساز اسمبلی کا تیار کردہ 1956 کا آئین منسوخ کیا اور اس کی جگہ 1962 میں اپنی مرضی کا آئین نافذ کیا جس کے تحت بنیادی جمہویتوں کا نظام متعارف ہؤا اور ملک میں تمام انتظامی اختیارات صدر کے حوالے کردئیے گئے۔ تاہم 1969 میں عوامی بے چینی اور احتجاج سامنے آنے کے بعد انہوں نے خود ہی اس آئین کے مطابق قومی اسمبلی کے اسپیکر کو اختیار سونپنے کی بجائے فوج کے سربراہ جنرل یحیٰ خان کو اقتدار سونپ دیا۔ جنہوں نے ملک میں مارشل لا لگاتے ہوئے 1962 کا آئین منسوخ کردیا اور نئے انتخابات کروا کے نیا آئین بنوانے کا عندیہ دیا۔ 1970 جب فوج کی توقعات کے مطابق انتخابی نتائج سامنے نہیں آئے اور مشرقی پاکستان میں عوامی لیگ کو واضح اکثریت حاصل ہوگئی تو اس پارٹی کو اقتدار منتقل کرنے اور معاملات کو پارلیمنٹ میں طے کروانے کی کوشش کرنے کی بجائے مشرقی حصہ میں فوجی کارروائی کی گئی جس کے نتیجہ میں 1971 میں ملک دو لخت ہو گیا۔ باقی ماندہ حصہ پر مغربی پاکستان میں اکثریت حاصل کرنے والی پارٹی کے سربراہ ذوالفقار علی بھٹو کو اختیارات سونپ دئیے گئے۔ بھٹو نے ماضی میں آئین کے ساتھ ہونے والی زیادتیوں کو پیش نظر رکھتے ہوئے 1973 کے متفقہ آئین میں شق چھ کے تحت یہ اہتمام کرنے کی کوشش کی کہ آئیندہ کوئی فوجی سربراہ آئین سے غداری کا حوصلہ نہ کرسکے اور اگر ایسی آئین شکنی کا ارتکاب کیا جائے تو اعلیٰ عدالتوں کے جج آئین کی قدغن کی وجہ سے اس کی توثیق کرنے سے باز رہیں۔

تاہم تاریخ اس بات کی گواہ ہے کہ خود ذوالفقار علی بھٹو بھی فوج کی آئین شکنی سے محفوظ نہیں رہ سکے۔ 1977 میں جنرل ضیا الحق نے ملک کا آئین معطل کرتے ہوئے اقتدار پر قبضہ کرلیا۔ آئین میں شق 6 کی موجودگی کے باوجود ملک کی سپریم کورٹ کے ججوں کی اکثریت نے ایک آمر کے اقدامات کی توثیق کرنے میں ہی عافیت سمجھی بلکہ بھٹو کو پھانسی کے پھندے تک پہنچانے اور ہائی کورٹ سے سزا کے بعد سپریم کورٹ سے اس کی توثیق تک سب عدالتی ادارے ایک فوجی آمر اور آئین شکن کے اشارہ ابرو کے مطابق کارروائی کرتے رہے۔ 2008 میں منتخب ہونے والی قومی اسمبلی نے ایک متفقہ قرار داد کے ذریعے ذوالفقار علی بھٹو کو دی جانے والی پھانسی کو عدالتی قتل قرار دیا تھا۔ اس کے بعد پیپلز پارٹی کی حکومت نے سپریم کورٹ میں بھٹو کے خلاف موت کے فیصلہ پر نظر ثانی کی درخواست بھی دائر کی تھی لیکن ایک دہائی گزرنے کے باوجود ملک کی خود مختار اور آئین کی بالادستی کا وظیفہ کرنے والی سپریم کورٹ اس ناانصافی کو تسلیم کرنے اور بھٹو کیس میں فیصلہ کو تبدیل کرکے سرخرو ہونے کا اہتمام نہیں کر سکی۔ نہ ہی کسی چیف جسٹس کا کوئی سوموٹو اس تاریخی ظلم کے خلاف انسانیت کی دہائی دینے کا سبب بنا ہے۔

اب چیف جسٹس ایک انتظامی اور سیاسی معاملہ میں یہ جانتے ہوئے بھی آئین کی شق چھ استعمال کرنے کی دھمکی دے رہے ہیں کہ اس شق کے تحت مقدمہ کا سامنا کرنے والا سابق فوجی آمر پرویز مشرف اس وقت سپریم کورٹ ہی کی فراہم کردہ سہولت کی وجہ سے دوبئی میں آرام کی زندگی گزار رہا ہے۔ جولائی میں ہونے والے انتخابات سے پہلے چیف جسٹس ثاقب نثار نے پرویز مشرف کو انتخاب میں حصہ لینے کا حق دیتے ہوئے انہیں ملک واپس آنے اور عدالت کے سامنے پیش ہو کر الزامات کا سامنا کرنے کا موقع دیا تھا۔لیکن پرویز مشرف بادی النظر میں نہ ملک کے آئین میں دئیے گئے تحفظات کو مانتے ہیں اور نہ ہی اس آئین کے تحت قائم کی گئی عدالتوں کی باتوں کوتسلیم کرتے ہیں۔ اسی لئے انہوں نے واپس آنے سے انکار کیا اور بدستور دبئی میں مقیم ہیں۔ ان کے خلاف آئین شکنی کا مقدمہ بدستور تعطل کا شکار ہے۔ اصولی طور پر انسانی حقوق کے تحفظ اور قانون کی بالادستی کے لئے متحرک سپریم کورٹ کو پرویز مشرف کی غیر حاضری میں اس معاملہ پر غور کرتے ہوئے یہ طے کرنا چاہئے کہ ملک کی اعلیٰ ترین عدالت آئین کا تحفظ کرنے میں سنجیدہ ہے اور اس کے خلاف اقدام کرنے والے شخص کو مجرم قرار دے سکتی ہے۔ اس کے ساتھ ہی سپریم کورٹ پر یہ بھی لازم ہے کہ وہ 1973 کے آئین کی خلاف ورزی کرنے والے دونوں جرنیلوں کے علاوہ ان کے پی سی او پر حلف لینے والے اور ان کے غیر آئین اقدامات کی توثیق کرنے والے تمام ججوں حتیٰ کہ ان قدامات کی توثیق کرنے والی ان نام نہاد مجالس شوریٰ کے ارکان کو بھی کٹہرے میں لائے اور غیر آئینی اقدامات کی ہر خلاف ورزی کو مسترد کرنے کا اہتمام کرے۔ صرف ایسا اقدام کرنے والی کسی سپریم کورٹ کو ہی یہ حق حاصل ہو سکتا ہے کہ وہ ملک کے آئین کی شق چھ کی توضیح و تشریح کرتے ہوئے اسے سیاسی اور انتظامی معاملات پر پیدا ہونے والے اختلافات پر لاگو کرنے کی بات کر سکے۔

ملک میں پانی کی شدید قلت کسی سے پوشیدہ نہیں ہے۔ ہر محب وطن اور عوام دوست اس معاملہ میں تکلیف محسوس کرتا ہے اور یہ چاہتا ہے کہ اس مسئلہ کا مناسب حل تلاش کیا جاسکے اور سیاسی اتفاق رائے کے ذریعے ڈیم بنانے یا کوئی دوسرے متبادل انتظامات کئے جائیں کہ پانی کی قلت جیسے معاملہ پر قابو پایا جاسکے۔ تاہم ملک میں عدل و انصاف کے لئے قائم کئے گئے اداروں کو یہ حق تفویض نہیں ہوتا کہ وہ اس معاملہ میں اپنی رائے ٹھونسنے اور پھر اس کے خلاف کسی بھی قسم کے اختلاف کو ملک کے آئین سے غداری کا لبادہ پہنانے کی دھمکیاں دینا شروع کردیں۔ چیف جسٹس کے اس قسم کے رویہ سے تو یہ اندیشہ پیدا ہو گیا ہے کہ جس طرح ملک میں کفر کے فتوے عام کرکے عقیدہ و مسلک کے نام پر خوں ریزی کی روایت کو فروغ دیا گیا ہے۔ اسی طرح اب ملک و قوم سے محبت پر اجارہ داری قائم کرتے ہوئے ملک دشمنی کے فتوے جاری کرنے اور اس بنیاد پر بنیادی حقوق سے انکار کی بنیاد رکھی جا رہی ہے۔ اور بدقستمی سے ملک کی سپریم کورٹ اس میں آلہ کار بنی ہوئی ہے۔

22  سالہ تطہیر فاطمہ ایک سادہ درخواست لے کر سپریم کورٹ تک پہنچی ہیں۔ ان کا مؤقف ہے کہ ان کو والد نے نظر انداز کیا اور ان کی والدہ نے ان کی پرورش کی ہے۔ اس لئے اسے یہ حق دیا جائے کہ وہ سرکاری کاغذات میں ولدیت میں اپنے اصل باپ کی بجائے کفالت کرنے والے اپنی مرضی کے شخص کے نام کا اندراج کروا سکیں۔ اسلام آباد ہائی کورٹ اس معاملہ پر غور کرتے ہوئے اس مطالبہ کو ملک کے مروجہ قوانین اور اسلامی ضابطوں کے خلاف قرار دے کر مسترد کر چکی ہے۔ چیف جسٹس اس مطالبہ پر کوئی اقدام کرنے میں کامیاب نہیں ہوئے۔ اور نہ ہی ملک کی پارلیمنٹ کو قانون میں تبدیلی کرکے ایسے بچوں کی خواہش کے مطابق ولدیت کے خانے میں اپنے اصل سرپرست کا نام لکھوانے کی اجازت دینے کا اہتمام کرنے کا مشورہ دینے کی ضرورت محسوس کر رہے ہیں۔ لیکن انہوں نے عدالت میں پیش ہونے والی اس بچی کے والد کو اخلاقیات کا درس دینے ، بچی کی پرورش پر اٹھنے والے اخراجات اور ہرجانہ ادا کرنے بصورت دیگر جیل جانے کی دھمکی دینے کو ضرور اپنے دائرہ اختیار کے عین مطابق سمجھا ہے۔ جوش خطابت اور میڈیا کی توجہ پانے کی خواہش کے اسیر چیف جسٹس یہ تک کہہ چکے ہیں کہ اگر لڑکی کے باپ کے پاس وسائل نہیں ہیں تو وہ چوری کرے یا ڈاکہ ڈالے، اسے ہرجانہ تو ادا کرنا ہوگا۔

ایک ایسے چیف جسٹس سے انصاف اور آئین کی بالادستی کے تحفظ کی کون امید کرے جو سیاسی اختلاف کو غداری اور خاندانی تنازعات کو طے کروانے کے لئے چوری کو جائز قرار دینے کا حکم دے سکتے ہیں۔ ملک میں قانون کو افراد کے ہاتھ کا کھلونا بنانے سے روکنے کے لئے ضروری ہے کہ ملک کی پارلیمنٹ چیف جسٹس کے اس رویہ اور مزاج کا فوری نوٹس لے۔ یہ کسی پارٹی سیاست کا معاملہ نہیں ہے۔ بلکہ یہ اصول طے کرنے کی ضرورت ہے کہ قانون سازی اور آئین میں ترمیم کا حق سپریم کورٹ کے پاس ہے یا پارلیمنٹ اس کی مجاز ہے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

سید مجاہد علی

(بشکریہ کاروان ناروے)

syed-mujahid-ali has 2742 posts and counting.See all posts by syed-mujahid-ali