عاطف میاں، ایڈوائزری کونسل اور احمدیت


وزیراعظم عمران خان ملکی معیشت کے سدھار کے لئے بنائی گئی مشاورتی کونسل سے احمدی برادری کے عاطف میاں کا نام نکال چکے، ردعمل میں دو اور معاشی ماہرین بھی کونسل سے استعفیٰ دے چکے ہیں لیکن اس معاملے کی بازگشت ابھی تک ملکی سیاست کے منظر نامے پر چھائی ہوئی ہے۔

خاکسار کی رائے میں اس معاملے کے دو پہلو ہیں ایک مذہبی اور دوسرا سیاسی۔ یہ دونوں ہی ایک دوسرے سے اس طرح جڑے ہوئے ہیں کہ ایک دوسرے میں پیوست ہو چکے ہیں۔ جہاں تک مذہب کی بات ہے تو ریاست پاکستان کے دستور میں یہ بات طے کی جا چکی ہے کہ احمدیوں کو مسلم تسلیم نہیں کیا جا سکتا۔ دراصل یہ پہلو بہت واضح بھی ہے لیکن بعض اوقات اسے بہت پیچیدہ بنا دیا جاتا ہے۔ ذوالفقار علی بھٹو کے دور میں قومی اسمبلی کے جس اجلاس میں یہ فیصلہ کیا گیا تھا اس کی کارروائی میرے علم کے مطابق عوام کے لئے دستیاب نہیں۔ لیکن ایک بات طے ہے کہ گیارہ دن تک جاری رہنے والے اس اجلاس میں یہ فیصلہ ایک سیر حاصل اور تھکا دینے والی گفتگو، سوال و جواب اور دلائل کے بعد کیا گیا تھا۔ اس اجلاس میں احمدی جماعت کے سربراہ مرزا ناصر احمد کو پورا موقع دیا گیا کہ وہ احمدی جماعت پر اٹھنے والے اعتراضات کا مدلل جواب دیں لیکن آخر کار قومی اسمبلی نے یہ فیصلہ دیا کہ احمدی جماعت کا اسلام سے کوئی تعلق نہیں۔

ذاتی طور پر میرا یہ ایمان ہے کہ محمد ابن عبداللہ ﷺ کے بعد جن کے متعلق قرآن نے سورة الاحزاب میں واضح اعلان کردیا کہ ”محمد ﷺتم میں سے کسی مرد کے باپ نہیں ہیں لیکن وہ اللہ کے رسول اور خاتم النبین ہیں اوراللہ تعالی ہر چیز کو خوب جانتا ہے“۔

ایک لحظہ کے لئے اگر یہ فرض بھی کیا جا سکتا ہوکہ ایسا ممکن ہے (جیسا کہ احمدی جماعت امتی نبی کی قائل ہے) تو اسلام کی پوری کی پوری عمارت دھڑام سے فرش پر آگرے گی۔ مجھے یہ دعویٰ نہیں کہ میں نے احمدی جماعت کے دعوے کی کماحقہ تحقیق کر رکھی ہے لیکن ایک سرسری جائزے میں ہی عقل اس نظریے کو تسلیم نہیں کرتی۔ بہرحال باوجود اس کے، احمدی جماعت کے جو افراد ریاست پاکستان کے باسی ہیں ان کی زندگی کا حق، ان کے جان و مال کا حق، ان کی عزتوں کا حق، ان کی تعلیم، ان کی صحت کی سہولیات کا حق اور ان کے روزگار کا حق تسلیم شدہ ہے۔ حقیقی اسلامی تعلیمات ان کے شہری حقوق سے کسی طور انکار نہیں کرتیں۔

 ریاست پاکستان جب احمدیوں سمیت تمام غیر مسلم افراد کے ان حقوق کی ضامن ہے تو یہ بات طے ہے احمدیوں سمیت کسی بھی غیر مسلم کی پیشہ ورانہ صلاحیتوں سے فائدہ اٹھانا کسی طور پر نامناسب یا غیر اسلامی نہیں ہے۔ ایک طالب علم کے طور پر میں اس کا استدلال غزوہ بدر سے لیتا ہوں جب حضور اکرم ﷺ نے رہائی کے لئے بعض غریب قیدیوں کا جزیہ اس صورت میں معاف کرنے کا حکم دیا کہ یہ غریب قیدی اگر جزیہ نہیں دے سکتے تو ہر قیدی دس مسلمانوں کو پڑھنا لکھنا سکھا دے۔ علماءکرام (ان میں وہ افراد شامل نہیں جو اندھا دھند ہر معاملے پر غیر استدلالی رویہ اپناتے ہوئے ہر معاملے میں انتہا پسند سوچ کے تحت ردعمل دیتے ہیں)کا استدلال یہ ہے کہ قرآن کے مطابق ”یہود و نصاریٰ تمہارے دوست نہیں ہو سکتے“۔ لیکن اس کے باوجود ہم دیکھتے ہیں کہ جسٹس اے آر کار نیلئس کے فیصلے ہماری ملکی تاریخ کا ایک روشن باب ہیں۔ ہمارے ایک پروفیسر مجھے چند دن پہلے بتا رہے تھے کہ ان کے فیصلوں میں قرآن و حدیث تک کے حوالے موجود ہیں۔ تو اب اصول یہ بنا کہ غیر مسلموں کی صلاحیتوں سے فائدہ اٹھانا کسی طور غیر اسلامی نہیں۔ اب سوال یہ ہے کہ عاطف میاں کو مشاورتی کونسل کا رکن بنانے کی مخالفت کیوں؟ استدلال یہ ہے کہ چونکہ احمدی حضرات ریاست پاکستان کے آئین کے برخلاف مسلمان ہونے کا دعویٰ کرتے ہیں اس لئے دوسرے غیر مسلم تو اپنے بارے میں اور ریاست ان کے بارے میں واضح ہیں لیکن احمدیوں کے بارے میں ایسا نہیں ہے۔ اس لئے احمدیوں کواحتیاطاَ ملکی اور ریاستی امور میں حساس اور اہم قومی امور پر فیصلوں میں شریک نہیں کیا جانا چاہیے۔ اس لئے کہ ان امور کے افشا ہونے میں ریاست کو نقصان کا اندیشہ ہے۔

ایک طالب علم کے طورپر میری گزارش یہ ہے کہ پاکستان کی معیشت کے بارے میں (ممکنہ طور پر چند امور کے علاوہ) کوئی چیز ڈھکی چھپی نہیں ہے۔ کوئی بھی معاشی ماہر چند منٹوں میں آپ کی معیشت کے اہم پہلو آپ کے سامنے انتہائی آسان الفاظ میں بیان کر دے گا۔ اب رہی بات عاطف میاں کی تو قابلیت اور معاشی میدان میں اپنی حیثیت کے بدولت پاکستانی معیشت کا وہ کون سا پہلو ہو سکتا ہے جو عاطف میاں سے چھپا ہوا ہو؟ دوسرا اہم پہلو یہ ہے کہ ”قومی مشاورتی کونسل “ کی حیثیت ایک مشیر کی سی ہے۔ اس کے مشوروں پر عمل درآمد ریاست پاکستان یا اس کے کسی بھی ادارے کے لئے ضروری نہیں ہے۔ پاکستان کے مالی امور طے کرنے کے لئے پارلیمنٹ کی کمیٹیوں سے بھی مشاورت کی جاتی ہے اور فیصلوں کے لئے پارلیمنٹ کے دونوں ایوان اور وفاقی کابینہ ہی بااختیار ہے۔

اس ساری بحث کے باوجود پرنالہ پھر وہیں کا وہیں ہے۔ پاکستان کے کم و بیش تمام اداروں میں بے شمار غیرمسلم افراد اہم اور غیر اہم عہدوں پر موجود ہیں لیکن کسی کو کوئی اعتراض نہیں لیکن کسی ادارے میں کوئی اہم عہدہ تو دور کی بات کسی عام سے عہدے پر بھی کسی احمدی کی تقرری کی بات کی جائے تو ہر کوئی بدک جاتاہے۔ ایسا کیوں ہے؟

میرے خیال میں ایسا اس لئے ہے کہ ریاست پاکستان کا آئین اور عوام الناس احمدیوں کو غیر مسلم سمجھتے ہے لیکن خود احمدی برادری ریاست کے آئین کے اس حصے کو تسلیم کرنے سے انکاری ہے اور اس بات پر مصر ہے کہ وہی ” اصل مسلمان “ ہیں۔ بنیادی طور پر یہ مسئلہ شناخت کا ہے ریاست پاکستان کے مطابق ”مسلم“ ایک شناخت ہے اور اس شناخت کو احمدی برادری استعمال نہیں کرسکتی۔ اس کی مثال ایک ٹریڈ مارک کی سی ہے، ”خواجہ محمد کلیم“میری شناخت ہے تو کوئی دوسرا شخص یہ دعویٰ نہیں کر سکتا وہ بھی خواجہ محمد کلیم ہے۔ کوئی پنجابی یہ دعویٰ کرے کہ وہ سندھی ہے تو اس کا دعویٰ باطل ہوگا۔ کوئی پاکستانی برطانوی ہونے کا دعویٰ اس وقت تک نہیں کر سکتا جب تک برطانیہ کی حکومت اس کی درخواست پر اس کو برطانوی شہری ہونے کی سند عطا نہ کرے۔ ”خاتم النبین “ محمد ابن عبداللہ ﷺ کا ٹریڈ مارک ہے اور احمدی جماعت جب اس ٹریڈ مارک میں گھسنے کی کوشش کرتی ہے تو جھگڑا شروع ہو جاتا ہے۔ یہی جھگڑا اور عدم اعتماد بلکہ بد اعتمادی ہی ہے جس نے احمدیوں کو قومی دھارے سے الگ کر رکھا ہے۔

یہ بداعتمادی اگر ختم کی جا سکے تو میرا خیال ہے مشاورتی کونسل تو کیا صدر اور وزیراعظم کے عہدے کے علاوہ (دستور پاکستان میں یہ دوعہدے صرف مسلمانوں کے لئے مخصوص ہیں) احمدیوں کی حکومتی عہدوں پر تعیناتیوں کا درواز ہ کھل سکتا ہے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).